حکومت کی متنازع کینال منصوبے پر پیپلزپارٹی کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
حکومت نے کینال منصوبے کے معاملے پر پاکستان پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کا ایک قطرہ پانی کسی دوسرے صوبے کو نہیں دیا جائے گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی نے متنازع کینال منصوبے پر شدید احتجاج کیا اور اس معاملے پر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ بھی کیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے کینال منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے متنازع کینالوں پر کام فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔
ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ سندھ کا ایک قطرہ پانی کسی دوسرے صوبے جو نہیں دیا جائیگا، نہروں کے معاملے پر تکنیکی طور پر پیپلزپارٹی کیساتھ ملکر جائزہ لینگے۔
نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں ان غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے ہم سب بھائی ہیں اور میرا پی پی سے قریبی تعلق ہے۔
ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ نہروں کا معاملہ پہلے ایکنک میں آیا مجھے وزیر اعظم نے ایکنک کے اجلاس کی صدارت کی سونپی ہوئی ہے۔ ایکنک میں پیپلزپارٹی نے اعتراض کیا تو میں نے اس منصوبے پر مزید کاروائی کو مؤخر کردیا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ارکان اس منصوبے پر بات کرنا چاہتے تھے مگر میں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی و یکجہتی سے زیادہ کچھ نہیں، اس کے بعد ایکنک کے اجلاس کے کسی ایجنڈے پر میں نے نہروں کا مسئلہ نہیں آنے دیا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پنجاب میں ایک وزیر نے کچھ نامناسب بیان دیا، میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ دریائے سندھ کا ایک قطرہ بھی پنجاب میں نہیں لیا جائے گا، پنجاب اپنے پانی کے حصے سے جو بھی منصوبہ بنانا چاہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ارسا کے بنانے سے لیکر چلانے تک قومی سوچ سامنے رہے گی اور وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ سندھ کے جائز تحفظات دور کریں، نہروں کے معاملے پر تکنیکی طورپر پی پی پی کے ساتھ ملکر جائزہ لیا جائے گا، پنجاب سمیت کسی دوسرے صوبے کو سندھ کے حصے کا پانی کا ایک قطرہ نہیں دیا جائے گا۔
قبل ازیں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایوان کو بلڈوز نہیں کرنا چاہیے، 1991ء میں ارسا معاہدہ کیا گیا جس میں پانی کی تقسیم کا طریقہ کار واضح ہے، ہم اتفاق رائے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ہر صوبہ پیارا ہے سندھ کی دھرتی سے پیار ہے، ہم افہام و تفہیم سے مسئلے حل کرنا چاہیں گے۔
قبل ازیں پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن و حکومت اس ایوان کا حسن ہے، میں بھٹو شہید کی برسی پر سندھ گیا، میں نے سندھ میں لوگوں کے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف جذبات دیکھے مجھے سندھ میں بتایا گیا کہ ارسا کے 1991کے معاہدے پر عمل نہیں ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبوں کو پہلے ہی پانی کی کمی ہے تو نیا پانی کہاں سے لایا جائے گا؟ چار اکائیوں کو متفق کرکے کوئی کام کرنا چاہیے، پتہ نہیں وفاق نے کیسے نہریں نکالنے کا منصوبہ بنالیا۔
سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا کالاباغ پر جھگڑا چل رہا تھا کوئی بھی بڑا منصوبہ ہواس پر بیٹھ کر چار بھائیوں کو بات کرنا چاہیے، اختلاف رائے بھی کرنا ہے تو اسی ایوان میں ہی کرنا ہے، کسی بھی منصوبے پر اعتراض ہے تو بیٹھ کر بات کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان نے بھی اسی ایوان میں نہروں کے نکالنے کی مخالفت کی میڈیا پر ہار جیت کا وفاق سے پیغام صوبوں کو جانا چاہیے، ہم نے دلیل سے بات کرنا ہے۔
پیپلزپارٹی رکن شبیر بجارانی کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے پہلے ہی دو نہریں نکالی جاچکی ہیں، سندھ میں پانی پہلے ہی کم ہے اب سندھ سے نئی نہریں نکالنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانی جتنا سمندر میں گرنا چاہیے نہیں گررہا، جس سے زمینیں سمندر کے نیچے آرہی ہیں۔ سندھ کو پانی پندرہ فیصد دیا جارہا تھا اب چالیس فیصد کم دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اس ایوان میں پالیسی بیان دے کر نئی نہریں نہ نکالنے کا اعلان کریں، کالاباغ ڈیم کی طرح یہ نہریں بھی نہیں بننے دیں گے۔
پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’ پتہ نہیں پی ٹی آئی نہروں کے خلاف ہے یا حامی ہے؟ ویسے یہ نہروں کے خلاف ہمارے موقف کے ساتھ ہیں، آج یہ اہم موضوع ہے مگر اپوزیشن نے ساتھ نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ حکومت کا کون سا ارسطو ہے جو دوصوبوں کے بعد تیسرے صوبے میں بھی بدامنی پیدا کرنا چاہتا ہے آج سندھ میں تانگہ پارٹیاں احتجاج کررہی ہیں۔
قادر پٹیل نے کہا کہ وفاق کے خلاف سوچ والے احتجاج کررہے ہیں، ایکنک میں پی پی کی وجہ سے یہ معاملہ رکا ہوا ہے نہروں کے نکالنے کا فیصلہ واپس لیں، آج سندھ میں نعرے بازی کی جارہی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ بتایا جائے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس کیوں نہیں بلایا جارہا ہے، صدر مملکت جن کے پاس کسی منصوبے کی منظوری دینے کا اختیار نہیں تو وہ کینالز کی منظوری کیسے دے سکتے ہیں صدر نے منظوری دی ہوتی تو پھر وہ مشترکہ اجلاس میں اس کی مخالفت کیوں کرتے ؟
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب کے صوبائی وزیر کے بیان کی مذمت کرتی ہوں، کالا باغ ڈیم نہ بنا ہے نہ بننے دیں گے حکومت مشترکہ مفادات کونسل کا میٹنگ کیوں نہیں بلاتی ۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے، صدر مملکت کی جانب سے منظوری دینے کی بات کرنا ٹرک کی بتی کے مترادف ہے انڈس پر مزید کینالز نا قابل قبول ہیں۔
ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم آپس میں پانی پر لڑ رہے ہیں ڈیم بنے تو خطرہ نہ بنے تو بھی خطرہ جبکہ بھارت نے پانچ ہزار ڈیم بنائے لیکن احتجاج نہیں ہوا۔
بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کی شام چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا کہ کینال منصوبے قومی اسمبلی کا ایک قطرہ تحفظات دور معاملے پر ایوان میں اسحاق ڈار نہیں دیا نہروں کے بات کرنا کے خلاف جائے گا
پڑھیں:
کس دور حکومت میں بجلی کے کتنے منصوبے؟ ہوشربا معاہدے، جاری ادائیگیاں
ملک بھر میں جاری لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بڑھتے نرخوں کے باعث عوام میں یہ سوال شدت سے زیرِ بحث ہے کہ آخر بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے ماضی میں حکومتوں نے کیا اقدامات کیے؟ وی نیوز کی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں منصوبوں کا اعلان کیا، مگر ان منصوبوں کے ساتھ ایسے طویل المدتی معاہدے بھی کیے گئے جن کی قیمت آج عوام بھگت رہی ہے۔
وزارت توانائی کی سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں متبادل توانائی پر سب سے زیادہ انحصار کرتے ہوئے 16 منصوبوں کی منظوری دی گئی، جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2710 میگاواٹ رہی۔ یہ منصوبے شمسی، ہوا اور دیگر متبادل ذرائع سے بجلی کی فراہمی کے لیے تھے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 4 مختلف ادوارِ حکومت میں مجموعی طور پر 33 منصوبوں کی منظوری دی گئی، جن سے 9000 میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ یہ ملک کی توانائی تاریخ میں سب سے زیادہ صلاحیت رکھنے والے منصوبے تھے، جن میں فرنس آئل، گیس، کوئلہ اور ایل این جی سے چلنے والے پلانٹس شامل تھے۔
مزید پڑھیں: بجلی کا بل ٹھیک کرانے آئی خاتون پر سیکیورٹی گارڈ کا تشدد، گھسیٹ کر باہر نکال دیا
پاکستان پیپلز پارٹی کے چار ادوار حکومت میں 3382 میگاواٹ کے 24 منصوبے شروع کیے گئے، جن میں زیادہ تر تھرمل اور ہائیڈل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے اہداف تھے۔
اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 1884 میگاواٹ کے 9 منصوبے منظور کیے گئے، جن میں فرنس آئل، کوئلہ اور گیس پر انحصار تھا۔
آئی پی پیز کے ساتھ طویل معاہدے، بوجھ عوام پر!
بجلی کی پیداوار کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ کیے گئے معاہدے آج بجلی کی بڑھتی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ بن چکے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے 2013 سے 2018 کے دور میں 130 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کیے گئے، جو تمام حکومتوں میں سب سے زیادہ ہیں۔
مزید پڑھیں: پی ٹی وی فیس ختم کرنے کے بعد حکومت کا بجلی صارفین کو ایک اور ریلیف دینے کا فیصلہ
پیپلز پارٹی کے ادوار میں 35 کمپنیوں، پرویز مشرف کے دور میں 48 کمپنیوں اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں 30 کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے۔
یہ معاہدے طویل المدت ہیں، بعض کمپنیوں کے ساتھ 2057 تک کی شراکت داری طے کی گئی ہے، جن کے تحت ان کمپنیوں کو ماہانہ کیپیسٹی پیمنٹ کے طور پر اربوں روپے کی ادائیگیاں کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، خواہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔ ان ادائیگیوں کا بوجھ براہِ راست عوام سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان معاہدوں میں ترمیم، از سرِ نو جائزہ، اور متبادل پالیسی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں توانائی بحران کو نہ صرف مؤثر طور پر قابو پایا جا سکے بلکہ عوام کو بلاجواز مالی بوجھ سے بھی بچایا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بجلی بجلی کی پیداوار پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ ن سابق صدر جنرل پرویز مشرف لوڈشیڈنگ وزارت توانائی