Express News:
2025-11-04@04:15:47 GMT

پیپلز پارٹی کا سیاسی مخمصہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھیں تو اس میں اقتدار اور طاقت کی سیاست سمیت حزب اختلاف کی سیاست پر کنٹرول کرنا بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔صدر آصف علی زرداری کے بارے میں یہ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں اور اس کھیل کی باریک بینی کو سمجھنے کی صلاحیت بھی خوب ہے۔

بہت سے سیاسی پنڈت انھیں سیاسی گرو کا بھی درجہ دیتے ہیں اور ان کے بقول وہ۔ 2008کے بعد سے پیپلز پارٹی کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں اقتدار کی سیاست کو بنیادی فوقیت حاصل ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں سندھ سمیت وفاق میں بھی اقتدار میں حصہ دار رہی ہے۔مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی باقاعدہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہے اور نہ اس نے وزارتوں میں حصہ دار ہی بننے کا فیصلہ کیا۔لیکن موجودہ وفاقی حکومت کی وہ اتحادی ہے اور جہاں بھی قانون سازی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت درکار تھی وہاں پیپلز پارٹی نے آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی نے کمال ہوشیاری سے سندھ حکومت سمیت بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی حاصل کی اور ایوان صدر تک ان کی رسائی سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنرشپ اور چیئرمین سینیٹ کی سیٹ بھی ان کے پاس ہے۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا جو بھی سیاسی بندوبست ہے اس میں پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی کارڈ بہتر کھیل کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف کی عملی سیاست کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ وفاقی حکومت کی بہت سی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتی ہے اور حکومت کی سیاسی مشکلات میں حصہ دار بننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کو اندازہ تھا ملک کو جو سیاسی اور معاشی یا سیکیورٹی مشکلات ہیں اس کا حل بھی موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست حکومت کا حصہ بننے کے بجائے حکومت کی اتحادی رہے اورجب بھی اسے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پڑے، اس سے گریز نہ کیا جائے۔

پیپلز پارٹی اگرچہ براہ راست حکومت کا حصہ نہیں ہے لیکن بہت سی وفاقی سطح پر بیوروکریسی میں ہونے والی تبدیلیوں یا تقرریوں یا ترقیاتی فنڈ سمیت اہم ریاستی عہدوں کے حصول میں پیپلز پارٹی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔مسلم لیگ ن کے اندر ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارڈ کھیلے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔

پیپلز پارٹی نے 2008کے بعد پاکستانی سیاست کے تناظر میں ایک بنیادی بات سمجھ لی ہے کہ جب تک ہم طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر نہیں چلیں گے تو اقتدار کا حصول ناممکن ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب بھی ہے اور اس کی حمایت میں بھی پیش پیش نظر آتی ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آج کی پیپلز پارٹی بہت مختلف ہے ۔اس وقت جب طاقت کے مراکز کا بڑا ٹارگٹ تحریک انصاف ہے تو ایسے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اکٹھے رہنا ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ تمام ترسیاسی اختلافات کے باوجود یا مخالفانہ سیاسی بیان بازی میں شعلہ بیانی کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت اور مجبوری بن گئے ہیں۔پیپلز پارٹی کا سیاسی چہرہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری رہا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری یا آزادی اظہاراور بنیادی حقوق کے معاملات میں پیپلز پارٹی ہمیشہ سے نمایاں رہی ہے۔لیکن موجودہ اقتدار کے سیاسی کھیل میں پیپلز پارٹی کا سیاسی وجمہوری تشخص بھی سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کا بڑھتا ہوا سیاسی کنٹرول اور جمہوری قوتوں کا خود آئین اور قانون سے انحراف کی پالیسی اس پر پیپلزپارٹی کا اپنا رویہ بھی مایوس کن ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پیپلز پارٹی کا پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت مسلم لیگ کی سیاست حکومت کا حکومت کی نہیں ہے کا حصہ ہے اور

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس جمعرات 6 نومبر کو ہوگا۔ اجلاس بلاول ہاؤس کراچی میں ہوگا جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال اور 27 ویں آئینی ترمیم پر غور کیا جائے گا۔ دوسری جانب، وفاقی حکومت نے 27ویں آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا۔ وفاقی حکومت مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 160 اور شق 3A میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سےتعلیم اور آبادی سبجیکٹ فیڈرل کرنے کے 18ویں ترمیم شیڈول دو اور تین میں ترمیم کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 213 چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں ترمیم کی تجویز ہے۔ وفاقی حکومت آرٹیکل 191A ختم کرکے نیا آرٹیکل شامل کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نئے آرٹیکل کے آئینی عدالتوں کے قیام چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سےآئین کے آرٹیکل 160 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 160 کی شق 3A کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 200 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ یہ آرٹیکل ججز کی ٹرانسفر کے متعلق ہے۔ 

متعلقہ مضامین

  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش: آزاد کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  •  پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلیے عذاب بنے ہوئے ہیں‘حافظ نعیم الرحمن
  • پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم الرحمن
  • پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہلِ کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم
  • پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • آزاد کشمیر میں سیاسی عدم استحکام جاری، پی پی نے تحریک عدم اعتماد تاحال جمع نہ کروائی
  • کشمیر کا مسئلہ پیپلز پارٹی کے دل کے قریب ہے، شازیہ مری