Express News:
2025-09-18@12:02:48 GMT

پیپلز پارٹی کا سیاسی مخمصہ

اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT

پیپلز پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کو دیکھیں تو اس میں اقتدار اور طاقت کی سیاست سمیت حزب اختلاف کی سیاست پر کنٹرول کرنا بھی اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔صدر آصف علی زرداری کے بارے میں یہ ہی کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار کی سیاست کے کھلاڑی ہیں اور اس کھیل کی باریک بینی کو سمجھنے کی صلاحیت بھی خوب ہے۔

بہت سے سیاسی پنڈت انھیں سیاسی گرو کا بھی درجہ دیتے ہیں اور ان کے بقول وہ۔ 2008کے بعد سے پیپلز پارٹی کی سیاست کو دیکھیں تو اس میں اقتدار کی سیاست کو بنیادی فوقیت حاصل ہے اور وہ کسی نہ کسی شکل میں سندھ سمیت وفاق میں بھی اقتدار میں حصہ دار رہی ہے۔مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت میں پیپلز پارٹی باقاعدہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہے اور نہ اس نے وزارتوں میں حصہ دار ہی بننے کا فیصلہ کیا۔لیکن موجودہ وفاقی حکومت کی وہ اتحادی ہے اور جہاں بھی قانون سازی کے حوالے سے وفاقی حکومت کو پیپلز پارٹی کی حمایت درکار تھی وہاں پیپلز پارٹی نے آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی نے کمال ہوشیاری سے سندھ حکومت سمیت بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی حاصل کی اور ایوان صدر تک ان کی رسائی سمیت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں گورنرشپ اور چیئرمین سینیٹ کی سیٹ بھی ان کے پاس ہے۔ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا جو بھی سیاسی بندوبست ہے اس میں پیپلز پارٹی نے اپنے سیاسی کارڈ بہتر کھیل کر اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی داخلی کمزوریوں کو بنیاد بنا کر حزب اختلاف کی عملی سیاست کا ریموٹ کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ موجودہ وفاقی حکومت کی بہت سی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتی ہے اور حکومت کی سیاسی مشکلات میں حصہ دار بننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی کو اندازہ تھا ملک کو جو سیاسی اور معاشی یا سیکیورٹی مشکلات ہیں اس کا حل بھی موجودہ حکومت کے پاس نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست حکومت کا حصہ بننے کے بجائے حکومت کی اتحادی رہے اورجب بھی اسے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا پڑے، اس سے گریز نہ کیا جائے۔

پیپلز پارٹی اگرچہ براہ راست حکومت کا حصہ نہیں ہے لیکن بہت سی وفاقی سطح پر بیوروکریسی میں ہونے والی تبدیلیوں یا تقرریوں یا ترقیاتی فنڈ سمیت اہم ریاستی عہدوں کے حصول میں پیپلز پارٹی نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔مسلم لیگ ن کے اندر ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ان کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارڈ کھیلے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔

پیپلز پارٹی نے 2008کے بعد پاکستانی سیاست کے تناظر میں ایک بنیادی بات سمجھ لی ہے کہ جب تک ہم طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر نہیں چلیں گے تو اقتدار کا حصول ناممکن ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب بھی ہے اور اس کی حمایت میں بھی پیش پیش نظر آتی ہے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آج کی پیپلز پارٹی بہت مختلف ہے ۔اس وقت جب طاقت کے مراکز کا بڑا ٹارگٹ تحریک انصاف ہے تو ایسے میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اکٹھے رہنا ہی ان کے سیاسی مفاد میں ہوگا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ تمام ترسیاسی اختلافات کے باوجود یا مخالفانہ سیاسی بیان بازی میں شعلہ بیانی کے باوجود پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ایک دوسرے کی سیاسی ضرورت اور مجبوری بن گئے ہیں۔پیپلز پارٹی کا سیاسی چہرہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ جمہوری رہا ہے اور انسانی حقوق کی پاسداری یا آزادی اظہاراور بنیادی حقوق کے معاملات میں پیپلز پارٹی ہمیشہ سے نمایاں رہی ہے۔لیکن موجودہ اقتدار کے سیاسی کھیل میں پیپلز پارٹی کا سیاسی وجمہوری تشخص بھی سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوا ہے۔ اسٹیبلیشمنٹ کا بڑھتا ہوا سیاسی کنٹرول اور جمہوری قوتوں کا خود آئین اور قانون سے انحراف کی پالیسی اس پر پیپلزپارٹی کا اپنا رویہ بھی مایوس کن ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی پیپلز پارٹی کا پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت مسلم لیگ کی سیاست حکومت کا حکومت کی نہیں ہے کا حصہ ہے اور

پڑھیں:

غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟

2002 میں آئینی طور پر ہٹائے جانے والے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تین سال گزر جانے کے بعد اپنی برطرفی قبول نہیں کی حالانکہ تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے والے غیر قانونی منسوخ کیے جانے والے اجلاس کے دوبارہ انعقاد کا حکم عدالت کا تھا اور آئینی طور پر ہٹائے جانے والے وزیر اعظم اجلاس سے قبل ہی ایوان وزیر اعظم چھوڑ کر اپنے گھر بنی گالہ چلے گئے تھے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا فیصلہ انھوں نے قبول کر لیا تھا، اسی لیے انھوں نے اس وقت اپنی برطرفی اور نئے وزیر اعظم کے انتخاب کا قومی اسمبلی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج بھی نہیں کیا تھا جو ظاہر ہے کہ ملک کے آئین کے مطابق ہی تھا اور چیلنج ہو بھی نہیں سکتا تھا۔

پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی و دیگر نے مل کر شہباز شریف کی قیادت میں جو حکومت بنائی تھی وہ تقریباً 16 ماہ کے لیے تھی جس کے بعد عام انتخابات ہونے ہی تھے۔ نئی حکومت نے جن برے معاشی حالات میں حکومت سنبھالی تھی وہ اپنے 16 ماہ کے عرصے میں کوئی کامیابی حاصل کرسکتے تھے نہ اچھی کارکردگی دکھانے کی پوزیشن میں تھے اور مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے پر باہمی اختلافات بھی تھے کہ نئے الیکشن ہونے ضروری ہیں تاکہ نئی حکومت 5 سال کے لیے منتخب ہو سکتی۔

اس وقت پی ٹی آئی عدم مقبولیت کا شکار بھی تھی اور اس کی مخالف پارٹیاں مل کر کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھیں مگر لگتا ہے کہ ملک کے برے معاشی حالات کے باوجود میاں شہباز شریف نے چیلنج سمجھ کر وزارت عظمیٰ کو قبول کیا، دوسری جانب پیپلز پارٹی بھی اپنی جان چھڑا کر 16 ماہ کا اقتدار (ن) لیگ کو دلانا چاہتی تھی تاکہ بعد میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکے۔

اس طرح نئی حکومت بن گئی اور وہ سولہ ماہ تک ملک کی خراب معاشی صورتحال کا ذمے دار پی ٹی آئی حکومت کو قرار دیتی رہی۔ آئینی برطرفی پر بانی پی ٹی آئی نے نئی حکومت کے خلاف انتہائی جارحانہ سیاست کا آغازکیا اور اپنی برطرفی کا الزام مبینہ سائفر کو بنیاد بنا کر کبھی امریکا پر کبھی ریاستی اداروں پر عائد کرتے رہے۔ حقائق کے برعکس بانی نے منفی سیاست شروع کی اور غیر ضروری طور پر ملک میں لاتعداد جلسے کیے اور راولپنڈی کی طرف نئے آرمی چیف کی تقرری روکنے کے لیے جو لانگ مارچ کیا۔

اس سے انھیں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا۔ جلد بازی میں وقت سے قبل کے پی اور پنجاب اسمبلیاں تڑوانے جیسے بانی کے تمام فیصلے غیر دانشمندانہ ثابت ہوئے اور انھوں نے دونوں جگہ اپنے وزرائے اعلیٰ مستعفی کرا کر دونوں صوبوں کا اقتدار اپنے مخالفین کے حوالے کرا دیا اور چاہا کہ دونوں صوبوں میں دوبارہ اقتدار حاصل کرکے وفاق میں پی ٹی آئی کو اکثریت دلا کر اقتدار میں آ سکیں مگر سپریم کورٹ نے دونوں صوبوں میں نئے انتخابات کی تاریخ بھی مقرر کر دی مگر الیکشن نہ ہوئے کیونکہ حکومت بانی کے عزائم جان چکی تھی اور کے پی و پنجاب میں وفاقی حکومت کی اپنی نگراں حکومتیں آنے سے وفاق مضبوط ہو گیا اور قومی اسمبلی میں حاصل معمولی اکثریت کو اپنے حق اور مفاد میں استعمال کرکے پی ڈی ایم حکومت نے بانی پی ٹی آئی کے تمام غیر دانشمندانہ سیاسی فیصلوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ انھیں گرفتار کرا کر عوام سے بھی دور کر دیا تھا۔

نگراں حکومتوں میں جو انتخابات 8 فروری کو ہوئے ایسے ہی الیکشن جولائی 2018 میں ہوئے تھے جن میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت پونے چار سال چلی تھی اور اب 8 فروری کی حکومت اپنا ڈیڑھ سال گزار چکی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی واحد بڑی پارٹی ہے مگر اپنی پارٹی کے بجائے ایک نشست والے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا بانی کا فیصلہ تو خود پی ٹی آئی میں بھی قبول نہیں کیا گیا جو انتہائی غیر دانشمندانہ، غیر حقیقی اور اصولی سیاست کے خلاف تھا ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی غلط پالیسی سے اپنے لیے ہی مشکلات بڑھائی ہیں اور ان کے ساتھ سزا پارٹی بھی بھگت رہی ہے جو بانی کے غیر دانشمندانہ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ‏جو کردار آج کی پیپلز پارٹی نے پنجاب کے سیلاب میں ادا کیا ہے وہ پنجاب یاد رکھے گا: عظمیٰ بخاری
  • آپریشن بنیان مرصوص کے بعد ہمارا ملک ابھر کر سامنے آیا : شیری رحمان
  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • سیاسی مجبوریوں کے باعث اتحادیوں کو برداشت کر رہے ہیں، عظمیٰ بخاری
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟