افغانستان میں امریکی اسلحے کے حل پر امریکہ اور پاکستان میں اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اپریل 2025ء) پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، پیر کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دو دہائیوں کی طویل جنگ کے بعد اگست 2021 میں افغانستان سے امریکہ کے مکمل انخلاء کے دوران وہاں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کیا۔
افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں زیراستعمال، دفترخارجہ
بیان کے مطابق روبیو نے یہ اعلان پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کیا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ڈار سے یہ ان کی پہلی براہ راست بات چیت تھی۔بیان میں کہا گیا،"دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
(جاری ہے)
اور وزیر خارجہ روبیو نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔"
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات، اقتصادی تعاون اور علاقائی سلامتی پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کے ساتھ 'علاقائی استحکام مشترکہ مفاد ہے'، امریکہ
ڈار نے امریکہ کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مضبوط بنانے کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا اور تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی میں بڑھے ہوئے تعاون پر زور دیا۔
دہشت گردی کے خلاف تعاون پر بات چیتپاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی امریکی خواہش کا اظہار کیا۔
اسحاق ڈار نے 2013 سے 2018 کے دوران دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب کوششوں کو اجاگر کیا، جن میں ملک کو بھاری معاشی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
مارکو روبیو نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی امریکی خواہش کا اظہار کیا۔
دونوں رہنماؤں نے باہمی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے قریبی رابطے اور مل کر کام کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
دریں اثنا، امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان، ٹیمی بروس کے ایک بیان کے مطابق، روبیو نے داعش کے کارندے محمد شریف اللہ کی گرفتاری اور امریکہ منتقلی پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
دہشت گردی کے خلاف پاکستانی اقدامات کی تعریفخیال رہے کہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز نے 4 مارچ 2025 کو اسحاق ڈار کو فون کال کر کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں پر شکریہ ادا کیا تھا۔
چار مارچ کی صبح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس سے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ ساڑھے تین سال قبل افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے والے 'دہشت گرد کو پاکستان کی مدد‘ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے 5 مارچ کو ایکس پر جاری ایک پیغام میں کہا تھا،"پاکستان افغانستان سرحدی علاقے میں کامیاب کارروائی کے دوران مطلوب دہشت گرد کو گرفتار کر لیا گیا۔
" انہوں نے مزید کہا تھا،"ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور اس کی تعریف کی۔"امریکی انٹیلیجینس ایجنسی ایف بی آئی نےامریکہ کی ریاست ورجینیا کی عدالت کو بتایا تھا کہ شریف اللہ شدت پسند تنظیم داعش سے 2016 سے منسلک ہیں اور داعش کی خراسان شاخ کے لیے مختلف کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
ایف بی آئی کے مطابق شریف االلہ نے تسلیم کیا تھا کہ 20 جون 2016 کو کابل کے سفارت خانے پر حملے میں خود کش بمبار کو ہدف کے مقام تک انہوں نے پہنچایا تھا۔
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دہشت گردی کے خلاف پاکستان افغانستان میں کے مطابق پاکستان کے پاکستان کی کی کوششوں خارجہ کے کے دوران روبیو نے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔
اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔
پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔
جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔