شاہ محمود قریشی نے خود کو قیدی نمبر 805قرار دیدیا لیکن انہیں یہ نمبر کس نے دیا؟ جانیے
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
لاہور (آئی این پی )پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ دیانتداری سے کہہ رہا ہوں جن کیسز میں ہم جیل میں ہیں میں ان میں ملوث نہیں ہوں ، ہماری جماعت کی قیادت جو بیرون ملک ہے، ان سے اپیل ہے کہ برائے مہربانی جو جیل میں پڑے ہیں وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، ایک دوسرے پر بیان بازی کریں، نہ نقطہ چینی۔
انسداد دہشت گردی عدالت لاہور پیشی کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہماری جماعت کی قیادت جو باہر ہے ان سے اپیل کرتے ہیں، برائے مہربانی جو جیل میں پڑے ہیں وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، میری دست بدستہ استدعا ہے اتفاق رکھیے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جیل سے باہر جو لوگ موجود ہیں وہ ایک دوسرے پر بیان بازی نہ کریں، آپس میں سلوک رکھیں اور جیل والوں کے لیے کوئی قدم اٹھائیں، ان کے اختلافات سے جیل میں موجود قیادت اور کارکنوں کے دل جلتے ہیں، نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے مگر احترام کے ساتھ برتا کریں۔
پاکستانی ڈاکٹروں کی ریکارڈ تعداد نے امریکا میں رہائش حاصل کر لی
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی صفحوں کے اندر یکجہتی رکھیں، میں قیدی نمبر 805 ہوں، مجھے بانی پی ٹی آئی نے یہ نمبر 805 دیا تھا، دیانتداری سے کہہ رہا ہوں جن کیسز میں ہم جیل میں ہیں میں ان میں ملوث نہیں ہوں۔پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ میں کسی سازش، توڑ پھوڑ یا واقع میں موجود نہیں تھا، میرے خلاف جو مقدمات بنے ہیں ان میں ایک ہی الزام ہے، راولپنڈی میں 14 مقدمات ، ملتان میں 5 مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے، لاہور میں 14 مقدمات سے 8 میں ضمانت ہو گئی ہے باقی 6 رہ گئے ہیں۔سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی پر خاموشی اختیار کروں گا، میرا کام آگ لگانا نہیں، آگ بھجانا ہے۔
پنجاب میں کس عمر کی کتنی افغان خواتین کہاں رہتی ہیں؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
ہونیاں اور انہونیاں
پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔
پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔
سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔
ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔
حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔
بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔
لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔
پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔
پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔
اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔