بنگلہ دیشی معیشت کو افراط زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا سامنا، ایشیائی ترقیاتی بینک کی آؤٹ لک رپورٹ جاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
بنگلہ دیش کے اہم اقتصادی چیلنجوں کو اجاگر کرتے ہوئے، ایشیائی ترقیاتی بینک نے واضح کیا ہے کہ ملک کو مسلسل افراط زر، اقتصادی ترقی میں سست روی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش میں ایشیائی ترقیاتی بینک کنٹری ڈائریکٹر ہو یُن جیونگ کے مطابق، قوم گرتی ہوئی غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری، بینکنگ سیکٹر کے اندر غیر فعال قرضوں میں اضافے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ناکافی ذخائر سے دوچار ہے۔
ڈھاکہ میں بینک کے زیر اہتمام ایشیائی ڈیولپمنٹ آؤٹ لک کے اجرا کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے، ہو یُن جیونگ نے میکرو اکنامک استحکام اور اصلاحات پر عبوری حکومت کی توجہ کا اعتراف کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
تاہم انہوں نے پیش گوئی کی ہے کہ ملک میں افراط زر بلند رہے گا، جس کے لیے بینکنگ سیکٹر کی کمزوریوں، خاص طور پر بڑھتے ہوئے غیر فعال قرضوں کا معاملہ حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک سخت مالیاتی پالیسی کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب ترسیلات زر کی زبردست آمد کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قدرے کم ہونے کا امکان ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک کو توقع ہے کہ مالیاتی خسارہ مستحکم رہے گا، جس کی وجہ آمدن میں بہتری اور حکومتی اخراجات میں اضافہ ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے ممکنہ خطرات سے خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ مسلسل افراط زر، سیاسی غیر یقینی صورتحال، موسم کے منفی واقعات اور عالمی اقتصادی سست روی بنگلہ دیش کو متاثر کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ہو یُن جیونگ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ریونیو کی وصولی کو بڑھانے، غیر فعال قرضوں سے نمٹنے، توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانے، اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے اصلاحات کو تیز کرے، انہوں نے عوامی سرمایہ کاری کے انتظام کو بہتر بنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افراط زر اقتصادی سست روی آمدن ایشیائی ترقیاتی بینک ایشیائی ڈیولپمنٹ آؤٹ لک بنگلہ دیش غیر ملکی زرمبادلہ کنٹری ڈائریکٹر ہو ین جنگ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افراط زر اقتصادی سست روی ایشیائی ترقیاتی بینک بنگلہ دیش غیر ملکی زرمبادلہ کنٹری ڈائریکٹر ہو ین جنگ ایشیائی ترقیاتی بینک سرمایہ کاری بنگلہ دیش افراط زر غیر ملکی
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلی بھی صنفی تشدد میں اضافہ کی وجہ، یو این رپورٹ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) موسمی شدت، نقل مکانی، غذائی قلت اور معاشی عدم استحکام سے صنفی بنیاد پر تشدد کے مسئلے کی شدت اور پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، رواں صدی کے اختتام پر گھریلو تشدد کے 10 فیصد واقعات موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا نتیجہ ہوں گے۔
خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے 'سپاٹ لائٹ اقدام' کی جاری کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ایسے سماجی و معاشی تناؤ میں اضافہ کر رہی ہے جس کے نتیجے میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس تناؤ سے ایسے علاقے کہیں زیادہ متاثر ہوتے ہیں جہاں خواتین کو پہلے ہی شدید عدم مساوات اور تشدد کا سامنا رہتا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی حدت میں ہر ڈگری سیلسیئس کے اضافے سے خواتین پر ان کے شوہروں یا مرد ساتھیوں کے تشدد میں 4.7 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
حدت میں دو ڈگری اضافے کا مطلب یہ ہے کہ 2090 تک مزید چار کروڑ خواتین اور لڑکیوں کو تشدد کا سامنا ہو گا۔
اسی طرح 3.5 ڈگری اضافے کے نتیجے میں یہ تعداد دو گنا سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔'سپاٹ لائٹ اقدام' یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی شراکت ہے جو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔
سپاٹ لائٹ اقدام کے تحت کی جانے والی تحقیق میں موسمی شدت کے واقعات اور صنفی بنیاد پر تشدد میں واضح تعلق سامنے آیا ہے۔
2023 میں 9 کروڑ 31 لاکھ لوگوں کو موسمیاتی حوادث اور زلزلوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس عرصہ میں تقریباً 42 کروڑ 30 لاکھ خواتین اپنے شوہروں یا مرد ساتھیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنیں۔ایک جائزے کے مطابق، شدید گرمی کے ادوار میں خواتین کے قتل کے واقعات میں 28 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، سیلاب، خشک سالی یا ارضی انحطاط جیسے حالات کے بعد لڑکیوں کی نوعمری کی شادی، انسانی سمگلنگ اور ان کے جنسی استحصال کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد عالمگیر وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دنیا میں ایک ارب سے زیادہ یا ایک تہائی خواتین کو اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ تقریباً سات فیصد خواتین ہی تشدد کے واقعات پر پولیس یا طبی خدمات مہیا کرنے والوں کو اس کی اطلاع دیتی ہیں۔
حدت اور تشدد کا باہمی تعلقچھوٹے کاشت کار گھرانوں اور غیررسمی شہری آبادیوں میں رہنے والی غریب خواتین کو تشدد کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ قدیمی مقامی، جسمانی معذور، معمر یا ایل جی بی ٹی کیو آئی + برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے بھی یہ خطرات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ انہیں خدمات، پناہ یا تحفظ تک محدود رسائی ہوتی ہے۔
اندازوں کے مطابق، عالمی درجہ حرارت میں 4 ڈگری سیلسیئس اضافے کی صورت میں 2060 تک ذیلی۔صحارا افریقہ کے ممالک میں شوہروں یا مرد ساتھیوں کے تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد 140 ملین تک پہنچ جائے گی جو 2015 میں 48 ملین تھی۔ تاہم، اگر عالمی حدت میں اضافے کی شرح 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رہے تو اس عرصہ میں تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد میں 10 فیصد تک کمی آ جائے گی۔
رپورٹ میں ماحولیاتی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو لاحق خطرات کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ زمین کے تباہ کن استعمال یا کان کنی کی صنعتوں کے اقدامات پر آواز اٹھانے والے ایسے بہت سے لوگوں کو ہراسانی، بدنامی، جسمانی حملوں یا اس سے بھی بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ مسئلہ ہنگامی توجہ کا متقاضی ہے لیکن موسمیاتی مقاصد کے لیے دی جانے والی ترقیاتی امداد میں صنفی مساوات کے لیے صرف 0.04 فیصد وسائل ہی مختص کیے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کمی اس حقیقت کے ادراک میں ناکامی کا ثبوت ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد (جی بی وی) کی شرح سے موسمیاتی استحکام اور انصاف کا تعین بھی ہوتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی بنیاد پر تشدد کی روک تھام کے اقدامات کو مقامی سطح پر موسمیاتی حکمت عملی کی تشکیل سے لے کر عالمی سطح پر مالی وسائل کی فراہمی کے طریقہ ہائے کار تک، ہر طرح کی موسمیاتی پالیسی میں شامل کرنا ہو گا۔
موثر موسمیاتی اقدامات میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ، مساوات اور ان کے قائدانہ کردار کو ترجیح دینا ہو گی۔ ان کے خلاف تشدد کا خاتمہ انسانی حقوق کا لازمہ ہی نہیں بلکہ منصفانہ، پائیدار اور موسمیاتی اعتبار سے مستحکم مستقبل کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے۔