شرجیل میمن اور ناصر شاہ کی یوٹونگ بس کمپنی کو سندھ میں سرمایہ کاری کی دعوت
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
کراچی:
سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے چین میں یوٹونگ بس کمپنی کے حکام سے ملاقات کرکے انہیں سندھ میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
ملاقات میں سندھ میں ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر تفصیلی بات چیت ہوئی، ٹرانسپورٹ و متبادل توانائی کے شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
یوٹونگ کے حکام نے وزراء کو اپنی نئی اور جدید ماڈل بسوں کے بارے میں بریفنگ دی، یوٹونگ حکام نے پاکستان بالخصوص سندھ میں بسیں متعارف کرانے میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔
شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ حکومت شہریوں کو معیاری اور محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، دھابیجی اسپشل اکنامک زون غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے بہت بڑا موقع ہے، سرمایہ کاروں کو دس سالہ ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ دھابیجی انڈسٹریل زون میں حکومت سندھ کی جانب سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی، سندھ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں عوام کو معیاری بس سروس فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یوٹونگ جیسے بین الاقوامی ادارے پاکستان آئیں اور جدید بسیں تیار کر کے یہاں کی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کریں، سندھ حکومت سرمایہ کاروں کو مکمل سہولتیں اور تحفظ فراہم کرے گی۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں ماحول دوست اور توانائی کے متبادل ذرائع پر مبنی پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرائی جائے، یوٹونگ بسیں ماحول دوست اور توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے بہترین آپشن ثابت ہو سکتی ہیں۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت شفاف سرمایہ کاری کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی، عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور سرمایہ کاروں کو پائیدار کاروباری ماحول کی فراہمی حکومت سندھ کا عزم ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری توانائی کے نے کہا کہ
پڑھیں:
ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، ماہرین
پاکستان کے معدنی خزانوں میں چھپی دولت اب دنیا کی توجہ حاصل کرنے لگی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو نہ صرف ملکی معیشت کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز بھی بنتے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں معدنی سرمایہ کاری کے مواقع” کے موضوع پر منعقدہ نیچرل ریسورس اینڈ انرجی سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کے قیام کے بعد ملک میں کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا عمل تیزی سے بڑھ رہا ہے، اور توقع ہے کہ 2030 تک اس شعبے کی آمدنی 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
معدنی ترقی سے پسماندہ علاقوں میں خوشحالی ممکن
لکی سیمنٹ اور لکی کور انڈسٹریز کے چیئرمین سہیل ٹبہ نے کہا کہ ایس آئی ایف سی کی تشکیل کے بعد اب ملک میں معدنی وسائل پر سنجیدگی سے کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ صرف چاغی میں تقریباً 1.3 ٹریلین ڈالر کے معدنی ذخائر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کان کنی کے چند منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں تو ملک بھر میں معدنی لائسنس اور لیز کے حصول کے لیے سرمایہ کاروں کی قطاریں لگ جائیں گی۔ اس شعبے کی ترقی نہ صرف دور افتادہ علاقوں میں خوشحالی لا سکتی ہے بلکہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہے۔
عالمی مارکیٹ میں دھاتوں کی طلب، لیکن پاکستان کا کردار محدود
نیشنل ریسورس کمپنی کے سربراہ شمس الدین نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت دھاتوں کی شدید مانگ ہے، لیکن پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کا سونا اور تانبا موجود ہے، جبکہ سونے اور تانبے کی ٹیتھان بیلٹ ترکی، ایران اور افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان تک آتی ہے، جو اسے خطے کے ایک اسٹریٹیجک مقام پر فائز کرتی ہے۔
شمس الدین کے مطابق اس وقت پاکستان کان کنی سے صرف 2 ارب ڈالر کما رہا ہے، لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ آمدنی 6 سے 8 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، بشرطیکہ ملکی اور سیاسی استحکام برقرار رہے۔
سرمایہ کاری کا پھل دیر سے مگر فائدہ دیرپا
سمٹ میں شریک فیڈینلٹی کے بانی اور چیف ایگزیکٹو حسن آر محمد نے کہا کہ کان کنی کے فروغ کے لیے انشورنس اور مالیاتی اداروں کو بھی میدان میں آنا ہوگا۔ ان کے مطابق پاکستان کی مالیاتی صنعت کو بڑے معدنی منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا بلکہ افرادی قوت اور وسائل کی درست منصوبہ بندی بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کان کنی میں کی جانے والی سرمایہ کاری کا فائدہ فوری نہیں ہوتا بلکہ اس کا پھل 10 سال کے بعد ملتا ہے، مگر یہ فائدہ دیرپا اور قومی معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
Post Views: 5