Islam Times:
2025-07-26@01:37:15 GMT

مائیکروسافٹ یا اسرائیل سافٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

مائیکروسافٹ یا اسرائیل سافٹ؟

اسلام ٹائمز: اسرائیلی فوج اور مائیکروسافٹ کے درمیان تعاون کا سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ 2002ء میں اس کمپنی نے 35 ملین ڈالر کا ایک معاہدہ طے کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجیز اور محصولات فراہم کیے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ امریکہ کی فوجی امداد کی شکل میں فراہم کیا گیا تھا۔ اگرچہ مائیکروسافٹ 2021ء میں ایمازون اور گوگل کے مقابلے میں نمبس نامی کلاوڈ پراجیکٹ کا ٹھیکہ ہار گئی لیکن وہ بدستور اسرائیلی فوج کو ٹیکنالوجیز فراہم کرتی رہی۔ مائیکروسافٹ کے کارکنوں کی جانب سے اس کمپنی کے خلاف حالیہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس تعاون سے ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تعاون بالواسطہ طور پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی اور نسل کشی میں استعمال ہو رہا ہے۔ تحریر: مصطفی نصری
 
حال ہی میں مائیکروسافٹ کمپنی کی جانب سے ایک جشن کی تقریب منعقد ہو رہی تھی جس میں اس کمپنی کے اپنے ہی افراد نے اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی میں مائیکروسافٹ کی جانب سے اسرائیل کو معاونت فراہم کرنے پر اعتراض کر رہے تھے۔ انہوں نے کمپنی کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کو فراہم کی گئی معاونت کی وضاحت کریں اور اسے ختم کر دیں۔ ان کے بقول یہ کمپنی اسرائیلی فوج کو غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام میں معاونت فراہم کرنے میں مصروف ہے۔ یہ احتجاج اس وسیع پیمانے پر تنقید کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جس سے اسرائیلی فوج کی معاونت کے باعث مائیکروسافٹ کمپنی روبرو ہے۔ مائیکروسافٹ اگرچہ براہ راست طور پر صیہونی فوج کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم نہیں کر رہی لیکن جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے بالواسطہ طور پر اسے فوجی کاروائیوں میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔
 
Azure نامی کلاوڈ سروس کی فراہمی
مائیکروسافٹ نے اسرائیلی فوج کو ایزورے نامی کلاوڈ پلیٹ فارم کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جسے اسرائیلی فوج وسیع پیمانے پر ایسا ڈیٹا ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جو مختلف فوجی سافٹ ویئرز میں استعمال ہوتا ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیلی فوج نے بڑے پیمانے پر اس سہولت کا استعمال کیا ہے۔ رہورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2023ء سے اپریل 2024ء تک اس پلیٹ فارم پر اسرائیلی فوج کی جانب سے ذخیرہ ہونے والے ڈیٹا کی مقدار میں 155 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح آزورے کلاوڈ پلیٹ فارم کی مدد سے کام کرنے والے مصنوعی ذہانت کے آلات کا استعمال بھی مارچ 2024ء تک ستمبر 2023ء کے مقابلے میں 64 گنا بڑھ گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فوجی کاروائیوں کے دوران اس ٹیکنالوجی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
 
مصنوعی ذہانت اور جی پی ٹی 4 ماڈلز
مائیکروسافٹ نے اوپن اے آئی، جو بذات خود اس کمپنی میں سرمایہ لگانے والی بڑی کمپنی ہے، کے تعاون سے مصنوعی ذہانت کے ترقی یافتہ ماڈلز جیسے جی پی ٹی 4 بھی اسرائیلی فوج کو فراہم کیے ہیں۔ یہ ماڈلز دستاویزات کا ترجمہ کرنے، ڈیٹا کا آٹومیٹک تجزیہ کرنے، آواز کو متن میں تبدیل کرنے اور فوجی اہداف کی شناخت کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ فاش ہونے والی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ پر فضائی حملے کرنے کے لیے ان ماڈلز کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر Lavender نامی سسٹم غزہ میں فوجی اہداف کی شناخت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یاد رہے مائیکروسافٹ بھی اس سسٹم کو اپنے انفرااسٹرکچر کے لیے استعمال کرتی ہے۔
 
فنی اور تکنیکی معاونت
اکتوبر 2023ء سے لے کر جون 2024ء کے درمیان مائیکروسافٹ نے 10 ملین ڈالر لاگت پر مبنی 19 ہزار گھنٹے تک اسرائیل کی وزارت جنگ کو فنی معاونت فراہم کی تھی۔ اس معاونت میں air gapped  سسٹمز سمیت حساس فوجی سسٹمز کی اپ گریڈنگ بھی شامل تھی جو خفیہ اور سیکورٹی سرگرمیوں میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسے سے مائیکروسافٹ اور اسرائیلی فوج کے درمیان تعاون کی گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مخصوص فوجی یونٹس سے تعاون
اسرائیل کی متعدد فوجی اور سیکورٹی یونٹس جیسے سائبر انٹیلی جنس یونٹ 8200 اور ایئرفورس کی یونٹ افک نے اپنا ڈیٹا وسیع کرنے، فوجی اہداف کی نشاندہی اور آپریشنل پروگرامز میں وسیع پیمانے پر مائیکروسافٹ سے مدد حاصل کی ہے۔ یہ تعاون بالواسطہ طور پر غزہ پر فضائی بمباری سمیت ایسی جنگی کاروائیوں میں استعمال ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔
 
تعاون کا تاریخی سابقہ
اسرائیلی فوج اور مائیکروسافٹ کے درمیان تعاون کا سلسلہ گذشتہ کئی عشروں سے جاری ہے۔ 2002ء میں اس کمپنی نے 35 ملین ڈالر کا ایک معاہدہ طے کیا تھا جس کے تحت اسرائیل کو جدید ٹیکنالوجیز اور محصولات فراہم کیے گئے تھے۔ اس کا ایک حصہ امریکہ کی فوجی امداد کی شکل میں فراہم کیا گیا تھا۔ اگرچہ مائیکروسافٹ 2021ء میں ایمازون اور گوگل کے مقابلے میں نمبس نامی کلاوڈ پراجیکٹ کا ٹھیکہ ہار گئی لیکن وہ بدستور اسرائیلی فوج کو ٹیکنالوجیز فراہم کرتی رہی۔ مائیکروسافٹ کے کارکنوں کی جانب سے اس کمپنی کے خلاف حالیہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس تعاون سے ناخوش ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ تعاون بالواسطہ طور پر انسانی حقوق کی وسیع خلاف ورزی اور نسل کشی میں استعمال ہو رہا ہے۔
مائیکروسافٹ اور صیہونزم کا عالمی منصوبہ
مائیکروسافٹ کے بانی کے طور پر بل گیٹس ہمیشہ سے عالمی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ اس نے گذشتہ چند برس سے مائیکروسافٹ سے دوری اختیار کر لی ہے لیکن اس کمپنی میں اس کے تاریخی اور نظریاتی اثرورسوخ کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
 
اسرائیل سے مائیکروسافٹ کا تعاون دراصل ایک ایسے عالمی صیہونی منصوبے کا حصہ ہے جس کی تشکیل میں بل گیٹس نے بھی بالواسطہ طور پر کردار ادا کیا ہے۔ 2002ء میں مائیکروسافٹ نے بل گیٹس کی سربراہی میں اسرائیل آرمی سے 35 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا۔ یہاں سے دونوں کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بل گیٹس نے یہ معاہدہ طے کر کے مائیکروسافٹ کو اسرائیل کی فوجی مشینری میں شامل کر دیا تھا۔ بل گیٹس نے غزہ جنگ کے بارے میں چپ سادھ رکھی ہے جبکہ کارکنوں کے حالیہ احتجاج پر بھی خاموش ہے جو اس کے دیگر انسانی حقوق کے دعووں سے تضاد رکھتا ہے۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران اسرائیلی حکمرانوں سے متعدد ملاقاتوں اور اسرائیل کی جانب سے منعقدہ ٹیکنالوجی کانفرنسز میں اس کی شرکت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی عالمی صیہونزم کے حامیوں پر مشتمل وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بالواسطہ طور پر اسرائیلی فوج کو مائیکروسافٹ نے مائیکروسافٹ کے کے لیے استعمال میں استعمال ہو معاونت فراہم استعمال کیا اسرائیل کی کی جانب سے پیمانے پر ملین ڈالر کے درمیان یہ احتجاج فراہم کر فراہم کی تعاون کا کمپنی کے بل گیٹس کیا ہے کا ایک

پڑھیں:

امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام

دوحہ: امریکا اور اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک اپنے وفود واپس بُلا لیے ہیں۔ ان مذاکرات میں مصر اور قطر ثالث کے طور پر شریک تھے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب حماس نے اپنی تجاویز پر مبنی ردعمل جمع کرایا۔ اس کے فوراً بعد اسرائیل اور امریکا نے اپنے نمائندے مشاورت کے لیے واپس بلانے کا اعلان کیا۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے مطابق، مذاکرات کاروں کو حماس کے جواب کے بعد واپس بلا کر صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لینے کی ضرورت محسوس کی گئی۔

امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف نے ایک بیان میں کہا کہ "ثالثوں نے بہت کوشش کی، لیکن ہمیں حماس کی طرف سے نہ نیت نظر آئی اور نہ سنجیدگی۔ اب ہم یرغمالیوں کی واپسی اور غزہ کے عوام کے لیے پائیدار حل کے متبادل طریقوں پر غور کریں گے۔"

اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت جنگ بندی کی حامی ہے، لیکن ان کے مطابق حماس جنگ کے خاتمے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق حماس نے بدھ کے روز جنگ بندی معاہدے کا جواب پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے بعض شقوں میں ترامیم کی تجاویز دی تھیں، جن میں امداد کی رسائی، اسرائیلی فوجی انخلا والے علاقوں کے نقشے، اور مستقل جنگ بندی کی ضمانتیں شامل تھیں۔

دو ہفتوں سے جاری ان مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہ ہونے کے بعد یہ اچانک انخلا خطے میں مزید بے یقینی کو جنم دے رہا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • چیئرمین جوائنٹ چیفس سے تاجکستان کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کی ملاقات، دفاعی تعاون بڑھانے پراتفاق
  • ’ آپریشنل واقعہ‘، شمالی غزہ میں 8 اسرائیلی فوجی زخمی
  • اسرائیل کا ایک اور متنازع قدم، پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • کچھ حقائق جو سامنے نہ آ سکے
  • اسرائیل میں ایک تیز رفتار کار فوجیوں پر چڑھ دوڑی
  • اسرائیل میں ایک تیز رفتار کار فوجیوں پر چڑھ دوڑی؛ ہلاکتوں کا خدشہ
  • حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
  • یونان میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہرہ: اسرائیلی کروز شپ کی بندرگاہ پر آمد روک دی گئی