نئی دہلی: بھارت میں مودی حکومت کی مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں اور مسلم ورثے کو مٹانے کی مہم ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئی۔ اس بار اورنگزیب کے مزار کو نشانہ بنایا گیا ہے جس پر سیاست چمکاتے ہوئے بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا پھیلایا۔

حالیہ دنوں مہاراشٹرا میں اورنگزیب کے مزار کی مسماری کے مطالبے پر پُرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ بی جے پی کے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانیے کا نتیجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کا مقصد صرف اورنگزیب کو نشانہ بنانا نہیں بلکہ پورے 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کی شناخت کو مٹانا ہے۔

تاریخی حقائق کے مطابق، اورنگزیب نے راجپوتوں اور مرہٹوں کو اعلیٰ عہدے دیے اور کئی ہندو حکمرانوں سے سیاسی اتحاد قائم کیے، لیکن مودی حکومت ان حقائق کو توڑ مروڑ کر مسلمانوں کو شدت پسند دکھانے کی مہم چلا رہی ہے۔

مودی حکومت کی ہندوتوا ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مسلم ورثے پر حملے کوئی نئی بات نہیں۔ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر، تاج محل جیسے تاریخی مقام کو متنازعہ بنانا، گیانواپی مسجد، کشینگر اور گورکھپور کی مساجد کی مسماری، اور حال ہی میں منظور ہونے والا وقف بل – سب کچھ اسی خطرناک منصوبے کا حصہ ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کا یہ رویہ نہ صرف بھارتی آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ یہ جمہوریت کے دعوے کی بھی نفی کرتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مودی حکومت کے خلاف

پڑھیں:

مژگاں تو کھول۔۔۔!

پاکستان کا معاشرہ اجتماعی بے حسی اور احساس ذمے داری سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ بڑھ رہی ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ دینی، سماجی اور معاشرتی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ قدم قدم تلخیاں جنم لے رہی ہیں،گھونٹ گھونٹ زندگی موت کی سسکیاں بھر رہی ہے۔ میٹھے رویے، نرم لہجے، انداز اور مروت، اپنائیت کا لمس کہیں کھوگیا ہے۔

رشتوں ناتوں اور تعلقات میں اس قدر دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ اپنا اپنے سے بے زار ہے اور تنہائیوں کے خوف سے اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب ایک دوسرے سے شاکی اور ناراض نظر آتے ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، ٹیکنالوجی کے انقلاب نے جہاں دنیا کے آب و گل کو چکا چوند کر دیا ہے وہیں انسان بے شمار مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں میں بھی گھرتا چلا جا رہا ہے۔ محبتوں اور چاہتوں کا دور عنقا ہو چکا ہے۔ مفادات اور خود غرضی ہر رشتے اور تعلق پر غالب آ چکی ہے جس کے مظاہر ہم آج کل اپنی روزمرہ زندگی میں نفرت سے دیکھ رہے ہیں۔

ابھی چند ماہ قبل گلیمر کی دنیا میں راج کرنے والی کہنہ مشق ٹی وی اداکارہ عائشہ خان نے جس کسمپرسی اور تنہائی کی قید میں موت کو گلے لگایا کہ اپنوں کو خبر تک نہ ہوئی۔ عائشہ خان کا اس طرح بے بسی میں زندگی کی بازی ہارنا رشتوں کے تعلق پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اسی طرح زندگی کے کینوس میں رنگ بھرنے والی نوجوان ٹی وی آرٹسٹ حمیرا اصغر کی دل خراش موت نے تو اپنوں کی محبت، خبر گیری اور رشتوں کی مٹھاس کو انتہائی کڑواہٹ میں بدل دیا۔ حیرت انگیز طور پر گلیمر کی دنیا سے تعلق رکھنے والی حمیرا جس کے لاکھوں کی تعداد میں ’’ فالورز‘‘ بھی تھے اس قدر عبرت ناک انجام سے کیوں دوچار ہوئی کہ 8/9 ماہ تک پڑی رہی اور کسی نے اس کی خبر تک نہ لی۔ خونی رشتوں کی یہ بے حسی خاندانی نظام کی تلخیوں اور شکست و ریخت کی علامت ہے۔

بلوچستان میں فرسودہ رسموں میں جکڑے جرگہ نظام کے ایک فیصلے کے تحت نام نہاد غیرت کے نام پر ایک مرد اور عورت کو کاروکاری قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا گیا۔ اگرچہ یہ واقعہ عید الاضحی سے قبل کا ہے تاہم اس کی ویڈیو تقریباً ایک ماہ بعد منظر عام پر آئی، پورے ملک میں ایک اضطراب پھیل گیا۔ اس دل خراش واقعے نے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ جدید ترقی یافتہ دور میں بھی فرسودہ رسموں اور بوسیدہ نظام زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔

دوسری طرف حکمرانوں کی بے حسی، لاپروائی اور عوامی مسائل کے حل سے روگردانی کا یہ عالم ہے کہ خیبر پختون خوا، پنجاب اور دارالخلافہ اسلام آباد طوفانی بارشوں کے باعث سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ غریب اور مفلوک الحال لوگ اپنے گھروں سے بے گھر اور سال بھر کی کمائی کا واحد ذریعہ کھڑی اور تیار فصلوں سے محروم ہوگئے ہیں۔

حکومت کی کارکردگی صرف ٹی وی چینلوں اور اخباری بیانات میں نظر آ رہی ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے عوام کو بے گھر اور بے سہارا کر دیا ہو، سیلابی پانی فصلوں کو بہا کر لے گیا ہو۔ ہر سال بارشوں کا مون سون سیزن آتا ہے، کبھی کم، درمیانی اور کبھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ہر حکومت اپنی اچھی کارکردگی کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، لیکن آج تک سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے، ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے اور عوام کو سیلابی نقصانات سے محفوظ رکھنے کی کوئی جامع منصوبہ بندی اختیار نہیں کی گئی۔

ملک میں ایک نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی قائم ہے لیکن یہ خواب غفلت سے اس وقت بیدار ہوتی ہے جب پانی سروں کے اوپر آن کھڑا ہوتا ہے۔ میڈیا میں چار دن کا شور و غل ہوتا ہے پھر لمبی خاموشی چھا جاتی ہے۔ محکمہ موسمیات الرٹ جاری کر دیتا ہے لیکن حکمرانوں کی غفلت و لاپروائی کا سارا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے ان ممالک میں جہاں ہمہ وقت بارشیں اور سیلابی صورت حال پیش آتی ہے وہاں پہلے سے حفاظتی اقدامات کر لیے جاتے ہیں۔

چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں اور سیلابی پانیوں کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سات دہائیوں کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تاکہ سیلابی اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے۔ ورنہ حکمرانوں کو مخاطب کرکے ہر سال یہی کہنا پڑے گا کہ ’’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔‘‘

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت نے مزید 3 کشمیری مسلمانوں کو املاک سے محروم کر دیا
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • فلسطین پر بھارت کی نمایاں مسلم تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • بار بار کی پابندیاں تاریخی حقائق نہیں بدل سکتیں ہیں، میرواعظ کشمیر
  • مودی راج میں مسلمان بنگالی مہاجرین کی مذہبی بنیاد پر بے دخلی کا سلسلہ جاری
  • مودی سرکار عدالت میں ہار گئی!
  • مژگاں تو کھول۔۔۔!
  • ناصر چنیوٹی کی بھارتی عوام سے دلجیت دوسانجھ کے خلاف نفرت بند کرنے کی اپیل
  • بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں ہوش رُبا اضافہ، مودی راج میں انصاف ناپید
  • تحریک کا عروج یا جلسے کی رسم؟ رانا ثنا نے پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا