ہیم ٹیکسٹائل: پاکستانی کمپنیوں کو لاطینی امریکا کی منڈی سے بہترین رسپانس حاصل
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
پاکستانی کمپنیوں نے ہیم ٹیکسٹائل کولمبیا 2025ء میں شاندار شرکت کی جس کے بعد لاطینی امریکا کی منڈی سے بہترین رسپانس ملا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل کمپنیوں نے لاطینی امریکا کی منڈیوں میں ایکسپورٹ کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ہیم ٹیکسٹائل کولمبیا 2025ء میں شرکت کی۔
پاکستان کمپنیوں کی شمولیت نے لاطینی امریکا کی مارکیٹ سے شاندار رسپانس حاصل کیا۔ اس نمائش میں پاکستان کی کلاسیک ٹیکسٹائل، کے بی ایکسپورٹس، مہے انٹرنیشنل اور ظفر فیبرکس نے اپنی مصنوعات کی نمائش کی اور ان کمپنیوں کو لاطینی امریکا میں ہوم ٹیکسٹائلز کے شعبے میں نئی تجارتی مواقع ملے۔
نمائش میں کولمبیا، پیرو اور میکسیکو جیسے ممالک نے سب سے زیادہ طلب کا مظاہرہ کیا، جبکہ پاناما، ایکواڈور، چلی اور ڈومینیکن ریپبلک جیسے اسٹریٹجک مارکیٹس نے بھی شرکت کی۔ پاکستانی کمپنیوں نے اپنی مصنوعات جیسے بیڈ لینن، کچن لینن اور تولیے کی نمائش کی، جس سے پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی عالمی سطح پر مضبوط پوزیشن کی عکاسی ہوئی۔
ظفر فیبرکس کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر بلال ظفر نے نمائش پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نمائش ہمارے برانڈ کے لیے ایک زبردست موقع ثابت ہوئی، جہاں ہمیں نئے کلائنٹس اور صنعت کے نمائندوں سے روابط قائم کرنے کا موقع ملا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لاطینی امریکا
پڑھیں:
خبردار! پراٹھا پکاتے ہوئے یہ غلطی نہ کریں، صحت کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نسلوں سے دیسی کچن میں صبح کا آغاز گھی میں پکے ہوئے پراٹھے کی خوشبو سے ہوتا آیا ہے۔ توا پر سنہری رنگ میں دھیرے دھیرے پکتا پراٹھا نہ صرف آنکھوں کو بھاتا ہے، بلکہ اس کی خوشبو دل کو بھی بہلا دیتی ہے۔ دیسی گھی سے لبریز پرانٹھا کئی گھرانوں کے لیے ناشتہ کا معیار سمجھا جاتا ہے۔
لیکن جیسے جیسے خوراک سے متعلق سائنسی شعور بڑھا ہے، ویسے ویسے یہ سوال ابھرنے لگاہے کہ کیا ہم واقعی اپنی صحت کے لیے وہی کھا رہے ہیں جو ہمارے آبا و اجداد کھایا کرتے تھےاور کیا ہم وہی طریقہ اختیار کر رہے ہیں جو آج کے دور میں محفوظ ہے؟
کیا گھی میں پراٹھا پکانا نقصان دہ ہے؟
جی ہاں، اگر غلط طریقے سے پکایا جائے اور اگر مقدار کا خیال نہ رکھا جائے۔
گھی، بلاشبہ، ایک روایتی اور غذائیت سے بھرپور چکنائی ہے۔ اس میں موجود وٹامنز اے ڈی ای اور کے بیوٹریٹ جیسا فیٹی ایسڈ، ہاضمے، آنتوں کی صحت اور سوزش میں کمی کے لیے مفید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے دیسی گھی ہمارے کھانوں کا حصہ رہا ہے۔
لیکن اس کے اندر ایک پوشیدہ خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین اس کے استعمال میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔
ماہر غذائیت ایک اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ
”جب گھی کو اس کے دھواں نکالنے والے درجہ حرارت (تقریباً 250°C) سے اوپر گرم کیا جاتا ہے، تو وہ اپنی اصل ساخت کھو بیٹھتا ہے۔“
ایسی حالت میں گھی سے خطرناک مرکبات جیسے ایکرولین، ٹرانس فیٹس جیسے آئسومرزخارج ہوتے ہیں، جن کا ہاضمہ انسانی جسم کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
طویل عرصے تک اس طرح کے گھی میں پکا ہوا کھانا کھانے سے دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، چاہے باقی اجزاء کتنے ہی صحت بخش کیوں نہ ہوں۔
زیادہ درجہ حرارت کے دیگر نقصانات
جب گھی میں پراٹھا تیز آنچ پر پکایا جاتا ہے، تو نہ صرف گھی کے مفید وٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں، بلکہ گندم جیسے کاربوہائیڈریٹ سے ”ایڈوانسڈ گلائی کیشن اینڈ پروڈکٹس“ (AGEs) پیدا ہوتے ہیں۔
یہ مالیکیولز آکسیڈیٹیو اسٹریس، جلدی بڑھاپے، دائمی سوزش اور انسولین کی مزاحمت (جو آگے چل کر ذیابطیس کی وجہ بن سکتی ہے) سےمنسلک ہوتے ہیں
پراٹھا کھائیں لیکن احتیاط سے
درمیانی آنچ پر پراٹھا پکائیں تاکہ گھی کا درجہ حرارت دھوئیں تک نہ پہنچے۔
ہیوی باٹم پین استعمال کریں تاکہ گرمی یکساں پھیلے۔
نان اسٹک برتن اور کم گھی کا استعمال کریں۔
اگر گھی استعمال کرنا بھی ہو تو محدود مقدار میں اور کم درجہ حرارت پر کریں۔
پراٹھا اور گھی، دیسی کچن کا روایتی جوڑ، اب بھی ہماری پلیٹ میں شامل رہ سکتا ہے بس طریقہ شعور کے ساتھ بدلنے کی ضرورت ہے۔
یار رکھیں پراٹھے کو لذت بھرا ناشتا بنائیں، نہ کہ زہریلا خطرہ۔ خیال رکھیں! اپنے کھانے کا، اپنی صحت کا اور سب سے بڑھ کر درجہ حرارت کا۔
مزیدپڑھیں:وکیل کی نامناسب حالت میں پیشی پر عدالت حیران، جج شدید برہم