وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کی بیج بنانے والی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات،زرعی شعبے میں گرین ایگریکلچر ریفارمز متعارف کروانے کے حکومتی عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اپریل2025ء)وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے بیج بنانے والی پرائیویٹ کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران انہوں نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کے وڑن کے مطابق زرعی شعبے میں گرین ایگریکلچر ریفارمز متعارف کروانے کے حکومتی عزم کا اعادہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ کسانوں کو معیاری اور رجسٹرڈ بیج فراہم کیے جائیں تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہو۔(جاری ہے)
اس مقصد کے لیے نیشنل ریگولیٹری اتھارٹی اور پنجاب ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ فیلڈ انسپکٹرز کے ذریعے بیج کی کوالٹی کو ریگولیٹ کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ 95 فیصد کسان چھوٹے کاشتکار ہیں اور حکومت ان کے مسائل کے حل کے لیے مکمل سنجیدگی سے کام کر رہی ہے اس سلسلے میں غیر معیاری بیج بنانے والی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور ان کی شکایات سننے و حل کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔
وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی قیادت میں کسانوں کی فلاح و بہبود اور زرعی ترقی کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
پاکستانی کسانوں کا آلودگی پھیلانے پر جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمہ دائر کرنےکا اعلان
سندھ کے کسانوں نے 2022 کے تباہ کن سیلابوں سے اپنی زمینیں اور روزگار کھو دینے کے بعد جرمنی کی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کردیا۔کسانوں کی جانب سے جرمن توانائی کمپنی آر ڈبلیو ای (RWE) اور سیمنٹ بنانے والی کمپنی ہائیڈلبرگ (Heidelberg) کو باقاعدہ نوٹس بھیج دیا گیا جس میں خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے نقصان کی قیمت ادا نہ کی گئی تو دسمبر میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔کسانوں کا کہنا ہے کہ جرمن کمپنیاں دنیا کی بڑی آلودگی پھیلانے والی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے نقصان پہنچایا ہے، انہیں ہی اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ماحولیاتی بحران میں سب سے کم حصہ ڈالا مگر نقصان ہم ہی اٹھا رہے ہیں جبکہ امیر ممالک کی کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کی زمینیں مکمل طور پر تباہ ہو گئیں اور چاول و گندم کی فصلیں ضائع ہوئیں۔ وہ تخمینہ لگاتے ہیں کہ انہیں 10 لاکھ یورو سے زائد کا نقصان ہوا جس کا ازالہ وہ ان کمپنیوں سے چاہتے ہیں۔دوسری جانب جرمن کمپنیوں کاکہناہے انہیں موصول ہونے والے قانونی نوٹس پر غور کیا جارہا ہے۔برطانوی میڈیا نے عالمی کلائمیٹ رسک انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2022 میں پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ موسمیاتی آفات سے متاثرہ ملک تھا۔ اس سال کی شدید بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب کردیا جس سے 1،700 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ بے گھر اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔سندھ کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں بعض اضلاع ایک سال تک زیر آب رہے۔