فلسطین اورغزہ ہمارا تھا، ہے اور رہے گا، طاہر اشرفی
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
پی یو سی کے چیئرمین نے لاہور میں تقریب سے خطاب میں کہا کہ اہل فلسطین کیلئے حکومت اور مختلف تنظیمیں امداد بھیج رہی ہیں، ہم اپنے احتجاجی مظاہروں میں پُرامن رہے، اس وقت امت مسلمہ کو ایک کرنے کی ضرورت ہے، تمام اہل اسلام سے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے، اہل غزہ کو ان کی سرزمین سے نکالنے کی کسی سازش کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ کل ملک بھر میں یکجہتی فلسطین کے عنوان پر خطبات جمعہ دیئے گئے، اسرائیل کی جارحیت کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اہل فلسطین کیلئے حکومت اور مختلف تنظیمیں امداد بھیج رہی ہیں، ہم اپنے احتجاجی مظاہروں میں پُرامن رہے، اس وقت امت مسلمہ کو ایک کرنے کی ضرورت ہے، تمام اہل اسلام سے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔
حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، ہم ایک آزاد فلسطینی ریاست چاہتے ہیں، تمام مسلم دنیا کے اکابرین کو مکہ مکرمہ میں جمع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، پاکستان کی فوج، حکومت اور عوام اہل فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اورغزہ ہمارا ہے، تھا اور رہے گا۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہمارے دل اہل فلسطین کیساتھ دھڑکتے ہیں، اللہ اہل فلسطین اور کشمیر کو آزادی نصیب کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اہل فلسطین طاہر اشرفی نے کہا کہ
پڑھیں:
ہم نے جنگبندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دیدیا، حماس
فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ اسلام ٹائمز۔ ابھی کچھ دیر قبل فلسطین کی مقاومتی تحریک "حماس" نے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے معاہدے کی تجاویز کا جواب دینے کی خبر دی۔ اس حوالے سے حماس نے ایک بیان جاری کیا۔ جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ہم نے ثالثین کو اپنی اور دیگر مقاومتی تحریکوں کی جانب سے جنگ بندی کا جواب ارسال کر دیا۔ المیادین کے مطابق، حماس نے اپنے بیان میں مجوزہ جنگ بندی کے لئے دئیے گئے جواب کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ فلسطین کی اس مقاومتی تحریک کی یہ سٹیٹمنٹ ایسے موقع پر سامنے آئی جب عالمی سطح پر حماس کے جواب کا انتظار کیا جا رہا تھا اور امریکی نمائندہ برائے امور مشرق وسطیٰ "سٹیون وائٹکوف" کی نگرانی میں مذکورہ معاہدے پر بات چیت کے لیے اجلاس جاری تھا۔