مسلم لیگ (ن) کا عوامی رابطہ مہم کیلیے لاہور میں سیکریٹریٹ کے قیام کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, April 2025 GMT
ویب ڈیسک : پاکستان مسلم لیگ ن نے عوامی رابطہ مہم میں بہتری کے لیے لاہور میں سیکریٹریٹ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پارٹی ذرائع کے مطابق عوامی رابطہ مہم کیلیے نصیر آباد آفس کو اسٹیٹ آف دی آرٹ پارٹی آفس بنانے کےلیے پارٹی قیادت سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔
آٹھ کروڑ کی لاگت سے نصیرآباد آفس کو اسٹیٹ آف دی آرٹ سیکرٹریٹ میں تبدیل کیا جائے گا، لاہور سیکرٹریٹ میں ضلعی و مقامی رہنماؤں کے دفاتر میٹنگ رومز بنائے جائیں گے۔ سیکرٹریٹ کے لیے فنڈز کا فی الحال کھوکھر فیملی از خود انتظام کرے گی، لاہور میں ماڈل ٹاون سیکرٹریٹ ہی مرکزی قیادت کی سرگرمیوں کا محور ہے۔
حکومت کا مقصد پائیدار سرمایہ کاری پر مبنی، برآمدات کو فروغ دینے والی اقتصادی ترقی کو یقینی بنانا ہے؛ وزیر خزانہ
لاہور سیکرٹریٹ بننے سے رہنماوں اور کارکنان میں فاصلہ کم ہوگا جس سے کو پارٹی مزید منظم ہو سکے گی۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
قومی اسمبلی ارکان کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز دیے گئے
ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے مالی سال 2021-22ء سے 2023-24ء کے دوران ارکان قومی اسمبلی کو 1.16 ارب روپے کے فری سفری واؤچرز جاری کیے، جن میں سے 16 کروڑ 10 لاکھ روپے کے جاری کردہ واؤچرز اور بیان کردہ اخراجات میں فرق سامنے آیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی انتظامیہ نے بتایا کہ اس عرصہ کے دوران سفری واؤچرز کی مد میں باز ادائیگیوں (Reimbursement) اور انکیشمنٹ (Encashment) پر ایک ارب روپے کے اخراجات ہوئے ہیں۔تاہم، آڈٹ حکام کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ اُن واؤچرز کے اخراجات کا مفصل انداز میں میزانیہ (Reconciled Statement) بنانے میں ناکام رہا جو اسٹیٹ بینک نے باز ادائیگیوں کی صورت میں کیے تھے اور یہ اے جی پی آر کے پاس درج ہیں۔ پورٹ نے ان اخراجات کو غیر مجاز اور بے ضابطہ قرار دیتے ہوئے مالی رپورٹنگ میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ضابطوں میں خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ 31 جنوری 2025ء کو منعقد ہونے والے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس میں قومی اسمبلی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ سفری واؤچرز کی باز ادائیگیوں کے اعداد و شمار درست کر کے آڈٹ حکام کو مکمل ریکارڈ فراہم کیے جائیں۔جب اس معاملے پر تبصرے کیلئے رابطہ کیا گیا تو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے باضابطہ طور پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا تاہم، ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ Reconciled Statement تیار کرنے کا عمل جاری ہے لیکن اس میں وقت لگے گا۔اس عہدیدار نے مزید کہا کہ ری کنسائلمنٹ کے زیادہ تر کیسز سندھ اور بلوچستان کے ارکان قومی اسمبلی کے ہیں۔