Juraat:
2025-07-25@02:25:47 GMT

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد کی وفات

ریاض احمدچودھری

ممتاز عالمی شخصیت پروفیسر خورشید احمد،انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ و انا الہ راجعون ۔ پروفیسر صاحب کی علم 93 برس تھی ۔ وہ بہت سی کتابوں کے مصنف اور مولانا مودودی کے جاری کردہ ترجمان قرآن کے مدیر اعلیٰ تھے۔پروفیسر صاحب مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا ترجمہ بھی کر چکے تھے جو اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر نے شائع کیا۔ پروفیسر صاحب جنرل ضیاء الحق شہید کے دور میں جب پی این اے کی تحریک چل رہی تھی اور بھٹو صاحب کو اقتدار سے علیحدہ کر دیا گیا تھا تو اس کے بعدپی این اے کے فیصلے کے مطابق ملکی سالمیت ، ترقیات و منصوبہ بندی کے وزیر رہے۔ پروفیسر صاحب سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوتے رہے اور ان کی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ پروفیسر صاحب کافی عرصے سے علیل تھے اور انگلینڈ کے شہر لیسٹر میں قیام پذیر تھے۔ پروفیسر صاحب کئی بار جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ میں شامل رہے۔
راقم الحروف سے پروفیسر صاحب کی گاہے بگاہے بہت سی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔جب وہ وزیر تھے تو کئی بار لاہور اور اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے علاوہ کراچی ، ملتان اور دیگر شہروں میں ان سے اہم معاملات پر بات کرنے کا شرف حاصل رہا۔ پروفیسرخورشید احمد (23 مارچ 1932 ـ 13 اپریل 2025ء )، ایک پاکستانی ماہر اقتصادیات، فلسفی، سیاست دان، اور ایک اسلامی کارکن تھے جنھوں نے اسلامی معاشی فقہ کو ایک تعلیمی نظم و ضبط کے طور پر تیار کرنے میں مدد کی اور لیسٹر میں اسلامک فاؤنڈیشن کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے۔
ایک سینئر قدامت پسند شخصیت، وہ اسلام پسند جماعت اسلامی پارٹی کے دیرینہ کارکن رہے ہیں، جہاں انھوں نے متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں سینیٹ کے لیے کامیابی سے حصہ لیا۔ انھوں نے 2012ء تک سینیٹ میں خدمات انجام دیں۔ جب انھوں نے 1980ء کی دہائی میں ملک کی قومی معیشت کو اسلامائز کرنے کے کردار پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پلاننگ کمیشن کی سربراہی کی تو انھوں نے ضیاء کی انتظامیہ میں پالیسی مشیر کے طور پر اپنا کردار ادا کیا۔
پروفیسر صاحب 23 مارچ 1932ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں ایک اردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دہلی کے اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد، یہ خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور لاہور، پنجاب میں آباد ہو گیا، جس کے بعد، اس نے 1949ء میں بزنس اور اکنامکس کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ 1949ء میںانہوں نے اپنا پہلا انگریزی مضمون مسلم اکانومسٹ میں شائع کیا۔ انہوںنے بی اے میں اپنی گریجویشن اکنامکس (1952) میں فرسٹ کلاس آنرز میں حاصل کی۔ انہوں نے ابوالاعلیٰ مولانا مودودی کے فلسفیانہ کام کو پڑھنا شروع کیا اور ان کی جماعت، جماعت اسلامی کے کارکن رہے۔ 1952ء میں، انہوں نے بار کا امتحان دیا اور اسلامی قانون اور فقہ پر زور دیتے ہوئے جی سی یو کے لاء پروگرام میں داخلہ لیا۔ اپنی یونیورسٹی میں، وہ اسلامی علوم میں ٹیوشن کی پیشکش کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے طالب علم کارکن رہے۔ لاہور میں پرتشدد فسادات کے نتیجے میں، پروفیسر صاحب نے جی سی یو چھوڑ دیا تاکہ پنجاب پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جے آئی کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری اور حراست سے بچ سکیں، اور مستقل طور پر کراچی چلے گئے۔ جہاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنے مقالے کا دفاع کرنے کے بعد معاشیات میں آنرز کے ساتھ ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔
1962ء میں، خورشید احمد نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامیات میں آنرز کے ساتھ ایم اے کے ساتھ گریجویشن کیا اور 1965ء میں برطانیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اسکالرشپ حاصل کیا۔ پروفیسر خورشیداحمد نے لیسٹر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تعلیم کے لیے فیکلٹی آف اکنامکس میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے 1967ـ68 میں معاشیات میں پی ایچ ڈی کے لیے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا کامیابی سے دفاع کیا۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اسلامی معاشی فقہ پر تھا۔ 1970ء میں، خواندگی کو فروغ دینے کے لیے ان کی خدمات کو لیسٹر یونیورسٹی نے تسلیم کیا، جس نے انھیں تعلیم میں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ 1970ء میں، وہ انگلینڈ چلے گئے اور لیسٹر یونیورسٹی میں عصری فلسفہ پڑھانے کے لیے فلسفہ کے شعبہ میں شامل ہوئے۔
پروفیسر خورشید احمد ، ایک انوکھے پاکستانی جن کے تیار کردہ اسلامی معیشت کے منصوبوں سے کئی ممالک مستفید ہو رہے ہیں، مغرب میں جن کے قائم کردہ تعلیمی ،اسلامی تحقیقات اور دعوت ابلاغ کے کئی مراکز چل رہے ہیں جن کو بین الاقوامی سطح پر عالمی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ، اور اسلامی ترقیاتی بنک کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فکر رہنمائی اور منصوبہ بندی سے لاکھوں بے سہارا اور یتیم بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں جدید طرز کی جامعات کے قیام کے خاکے تیار کئے۔ محترم حافظ نعیم الرحمن،امیر جماعت اسلامی پاکستان ،سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نائب امرا لیاقت بلوچ میاں محمد اسلم ڈاکٹر اسامہ رضی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن پروفیسر محمد ابرہیم سیکرٹری جنرل امیر العظیم۔ڈپٹی سیکرٹریز سید وقاص انجم جعفری خالد رحمن اظہر اقبال حسن عبد الحق ہاشمی عثمان فاروق شیخ سید فراست علی شاہ ممتاز حسین سہتو۔جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما راشد نسیم حافظ محمد ادریس امیر جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی مشیر ڈاکٹر فرید احمد پراچہ سیکرٹری اطلاعات جماعت اسلامی پاکستان قیصر شریف نے پروفیسر خورشید احمد کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور لواحقین سے اظہار تعزیت کیا ہے
پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے بزرگ اعلیٰ اوصاف کے حامل سیاسی رہنما انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر شاہ فیصل ایوارڈ اور نشان امتیاز کے حامل عالمی معاشی دانشور کئی کتابوں کے مصنف اور متعدد عالمی اداروں کے ڈائریکٹر تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی ملی قومی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر خورشید احمد جماعت اسلامی کے یونیورسٹی میں میں داخلہ لیا پروفیسر صاحب انہوں نے انھوں نے کرنے کے رہے ہیں کے لیے اور اس

پڑھیں:

نومولود بچوں کی بینائی کو لاحق خاموش خطرہ، ROP سے بچاؤ کیلئے ماہرین کی تربیتی ورکشاپ

ویب ڈیسک: میو ہسپتال لاہور کے شعبہ امراض چشم اور کالج آف آفتھلمالوجی اینڈ الائیڈ ویژن سائنسز کے زیر اہتمام یونیسیف کے اشتراک سے قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی بینائی بچانے سے متعلق اہم تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔

ورکشاپ کا موضوع ریٹینوپیتھی آف پریمیچیورٹی (ROP) – نومولود بچوں کی بصارت کے تحفظ میں نیوناٹولوجسٹ کا کردار تھا۔ اس میں پنجاب بھر کے 13 بڑے تدریسی ہسپتالوں سے 40 سے زائد نیوناٹولوجسٹ، ماہرینِ اطفال، گائناکالوجسٹ اور ماہرینِ امراض چشم نے شرکت کی۔

پنجاب یونیورسٹی کے غیر تدریسی عملے کابطور اسسٹنٹ پروفیسر تعیناتی منسوخی کیخلاف احتجاج کا اعلان 

ماہرین نے زور دیا کہ ROP ایک مہلک بیماری ہے جو قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی آنکھ کے پردے (ریٹینا) کی غیر معمولی نشوونما کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور بروقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مکمل نابینائی کا باعث بن سکتی ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد معین (پرنسپل، COAVS) نے کہا کہ جدید طبی سہولیات نے بچوں کی بقا کی شرح تو بڑھا دی ہے مگر ROP جیسے نئے چیلنجز تیزی سے سامنے آ رہے ہیں۔ اس بیماری کی بروقت تشخیص کے لیے نیوناٹولوجسٹ کا کلیدی کردار ہے۔
پروفیسر ایمریٹس ڈاکٹر اسد اسلم خان نے زور دیا کہROP اب ایک عالمی چیلنج ہے اور اسے قومی سطح کی نیوبورن پالیسی میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ہارون حامد (چیئرمین شعبہ اطفال و سی ای او میو ہسپتال) کا کہنا تھا کہ میو ہسپتال میں ہم نے ROP کے لیے مربوط ریفرل سسٹم قائم کر رکھا ہے اور اس اسکریننگ کو بنیادی ہیلتھ پروگرام کا مستقل حصہ بنانے کے لیے حکومت پنجاب سے تعاون جاری ہے۔
اختتام پر پروفیسر معین نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ROP سے بچاؤ صرف نیوناٹولوجسٹ، ماہرِ چشم اور والدین کے مشترکہ تعاون سے ہی ممکن ہے۔

اسرائیل نے حضرت ابراہیم کے مقبرے اور مسجدِ ابراہیمی کا کنٹرول سنبھال لیا

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
  • میاں اظہر مرحوم وضع داری کی سیاست کرتے تھے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • فلسطین کی صورتحال پرمسلم ممالک اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں(حافظ نعیم )
  • کراچی کو سرسبز بنانے کیلئے جماعت اسلامی کی ایک لاکھ درخت لگانے کی مہم کا آغاز
  • سینیٹ انتخاب میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے: نعیم الرحمٰن
  • جماعتِ اسلامی کا کل خیبر پختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت کا اعلان
  • جماعت اسلامی کا خیبر پختونخوا میں عوامی کمیٹیوں کے قیام کا باقاعدہ آغاز
  • جماعت اسلامی کا کراچی میں ایک لاکھ درخت لگانے کا اعلان
  • لائن لاسز چھپانے کیلئے کی گئی اوور بلنگ کی رقم عوام کو واپس کی جائے، حافظ نعیم
  • نومولود بچوں کی بینائی کو لاحق خاموش خطرہ، ROP سے بچاؤ کیلئے ماہرین کی تربیتی ورکشاپ