WE News:
2025-04-25@02:52:46 GMT

راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت

اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT

راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت

ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحیٰ کا قلیل مدتی اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ صدارت ہو یا وزارتِ عظمی کا دور، جنرل ضیا کا 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کر کے ایک عشرے کا نافذ کردہ مارشل لا ہو یا 1987 سے 1999 تک اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کھیلی جانے والی میوزکل چیئرز کا کھیل، مشرف کا بطور سویلین صدر ختم ہونے والا آمرانہ دور ہو یا نواز شریف کی 2017 میں اور عمران خان کی 2021 میں حکومتیں ختم کرنے کے بعد آج تک جاری رہنے والا ہائیبرڈ نظام ۔۔۔۔

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان 78 سالوں میں سب کچھ آزما لیا، نہیں آزمایا تو خالص جمہوریت کا وہ غیر آزمودہ طرزِ حکمرانی جس کے سبب پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔

ہمارے بڑے جب ہم جتنے بڑے تھے تو ان کا دعوی ہے کہ ایوب خان کا دورِ اقتدارسب سے سنہرہ دور تھا۔ اس دور میں نہ صرف تربیلا اور منگلہ ڈیم بنے بلکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔

جنرل ایوب نے 1954 میں ہونے والے سیٹو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والے ڈالرز سے عوام کو سستے راشن کی فراہمی اور ڈیموں کی تعمیر تو یقینی بنائی، لیکن اس پاداش میں پاکستانی قوم یہ بھول گئی کہ قوموں کو روشن خیال ہونا چاہیے ناکہ راشن خیال۔

راشن خیالی میں قوم بھول گئی کہ دیگر ممالک میں رائج جمہوریت نے ان قوموں کو آج کی کامیاب ترین قومیں بنے میں مدد فراہم کی۔ ایوب نے صرف قوم کو سستے راشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے 20 سالوں میں جمہوریت کے ملک میں پہنپنے ہی نہ دیا جس کے سبب آج تک قوم جمہوریت کے لیے ترستی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایوب کی حکومت کے خاتمے کی ایک مبینہ وجہ چینی کی قیمت میں اضافہ بنی۔

ایوب کے بعد جنرل یحی کا دور ایسا دور تھا جس میں منعقد ہونے والے 1970 کے انتخابات کو پاکستان کے منصفانہ ترین انتخابات مانا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ ملک ٹوٹ گیا اور اس کا ذمہ دار مجیب اور بھٹو کو ٹھرایا گیا۔ اس کے باوجود کے اقتدار جنرل یحیی کے پاس تھا جو چاہتا تو اپنے زیرِ اثر بھٹو کو قائل کرکے مجیب کی حکومت بنوا سکتا تھا لیکن۔۔۔

جنرل ضیا کے لگ بھگ ایک عشرے کے دور میں جہاں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی فوج کی خدمات کرائے پر دینے پر ملک کو کثیر تعداد میں ڈالر ملے، وہیں دوسری طرف ملک میں انہی ڈالروں کی بدولت قدرے خوشحالی قائم رہی۔

قوم کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ امریکی ڈالروں کے عوض جو طالبان پاکستان بنا رہا ہے، یہی طالبان ہمارے دشمن بنیں گے۔ قوم کو جہاد کے لیے قائل کیا گیا اور یوں جنرل ضیا کا دور ایک ایسے حادثے کی صورت میں ختم ہوا کہ انہیں دفنانے کے لیے دیگر چند اعضا سمیت سونے کے دانتوں کو دفنانا پڑا۔

بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے بعد ملک میں ہونے والے 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کے لیے میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہوا اور 1999 میں مشرف کے مارشل لا تک دونوں رہنماؤں نے دو دو بار اقتدار کی کرسی حاصل کی۔ لیکن انہی دونوں نے فیصلہ سازوں کی مدد سے ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے چلتا کیا۔

قدرت کا نظام کہیں یا عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد ہی نائن الیون ہو گیا۔ پھر کیا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو روٹیاں۔ کیونکہ جب اندھے کو ڈالروں کی صورت میں روٹیاں مل جائیں تو اسے دنیا دیکھ کر کرنا کیا ہے۔

افغانستان میں مشرف دور میں ضیا دور کے دوران تیار کردہ طالبان کے خلاف فوج کرائے پر دینے کے عوض ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ بین الاقوامی فوڈ چینز پہنچ گئیں۔

اس سے قطع نظر کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے گا تو طالبان، پاکستان کا کیا حال کریں گے، ڈالروں کی مسلسل فراہمی نے اس راشن خیال قوم کو کسی بھی منطقی نقطے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بانجھ کر دیا۔ نجی چینلز کے آنے سے لوگوں میں ایسا شعور آیا کہ آج پوری قوم ہی ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر لگی ہے۔

خیر جو بھی کہیں یا نہ بھی کہیں، کہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ مشرف نے اکیسویں صدی کی شروعات 2002 میں انتخابات کروا کر کی اور اپنی صدارت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے 5 سال مکمل کیے۔ چاہے کچھ عرصے بعد ہی تکنیکی خرابی کی وجہ سے وزیراعظم بدلنے پڑے۔

کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی حد تک حقیقی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد آئی، لیکن چلتی جمہوریت میں فیصلہ سازوں نے جب اپنے فوجی صدر کی حکومت میں پنگا کرنے سے باز نہیں آئے تھے تو اب بھی باز کیسے رہتے۔

اچانک سے عدالت کو خیال آیا کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیے، نہیں تو۔۔۔ اور یوں 5 سالہ دور بھی وزیراعظم کی تبدیلی کے بغیر مکمل نہ ہو سکا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسی دور میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی روائت پڑی۔

2013  کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن تو کہا گیا، لیکن عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول کر لیا۔ تاہم اگلے سال ہی پنگا کرنے والوں نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو رشتہ احتجاج میں باندھ دیا اور یوں عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں براجمان رہے، جہاں وہ جمِ حقیر سے روزانہ خطاب کرتے اور امپائیر کی انگلی جلد اٹھنے کا اشارہ دیتے۔

خیر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نواز شریف 5 سال پورے کرتے۔ آگیا پانامہ اور پھر پنگا کرنے والوں نے کر دیے لانچ اپنے پیادے۔ جس کے بعد 2017 سے ہائبرڈ نظام کی ایسی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

2018 کے انتخابات جس قدر متنازع تھے لیکن ان پر تنازع 7 جولائی 2024 تک ہی تھا، کیونکہ اس کے بعد 8 فروری کو ہونے والے انتخابات نے ایسے ورلڈ ریکارڈ قائم کیے جنہیں لگتا نہیں آسان ہو گا توڑنا۔

تاہم یہ پاکستان ہے جہاں خالص جمہوریت کے علاوہ تمام اقسام کے حکومتی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ 78 سالوں بعد ہمیں اس نتیجے پر تو پہنچ جانا چاہیے کہ ان سالوں میں جتنے بھی طریقے آزمائے گئے وہ ناکام ثابت ہوئے۔

لہذا کیوں نہ ایک بار خالص جمہوریت کو ہی موقع فراہم کر دیں۔ شائد نتائج دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ وگرنہ یہ نظام تو پچھلے 78 سالوں سے چل ہی رہا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

نوید نسیم

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے انتخابات ڈالروں کی راشن خیال نواز شریف ہونے والے نے والے ملک میں قوم کو کا دور کے بعد کے لیے

پڑھیں:

سینیٹ ایڈوائزری کمیٹی، کے پی کے میں سینیٹ الیکشن کی قرارداد مسترد

اجلاس میں سینیٹر شبلی فراز نے خیبر پختونخوا کی 12 سینیٹ نشستوں پر انتخابات کرانے کی قرارداد پیش کی۔ شرکاء کی جانب سے اس قرارداد پر بحث کی گئی۔ ایم ڈبلیو ایم کے سوا تمام اراکین نے قرارداد کی مخالفت کی۔ اسلام ٹائمز۔ سینیٹ کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں خیبر پختونخوا کی سینیٹ نشستوں پر انتخابات کی قرارداد کثرت رائے سے مسترد ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، شیری رحمان، عرفان صدیقی اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں سینیٹر شبلی فراز نے خیبر پختونخوا کی 12 سینیٹ نشستوں پر انتخابات کرانے کی قرارداد پیش کی۔ شرکاء کی جانب سے اس قرارداد پر بحث کی گئی۔ ایم ڈبلیو ایم کے سوا تمام اراکین نے قرارداد کی مخالفت کی۔ ذرائع کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی ف، بی اے پی سمیت تمام جماعتوں نے مخالفت کی، ایڈوائزی کمیٹی میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز کی کمیٹی اراکین کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شبلی فراز نے کہا کہ ہاؤس آف فیڈریشن سے ایک صوبے کی نمائندگی ختم کی جا رہی ہے، بلوچستان، سندھ میں سینیٹ ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں ثانیہ نشتر کی چھوڑی گئی نشست پر بھی الیکشن نہیں کروائے جا رہے۔ انہوں ںے مزید کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آڈر پر عمل درآمد نہ ہونا چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے توہین ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بیرسٹر گوہر سے امریکی نائب سفیر کی ملاقات، رابطے بحال رکھنے پر اتفاق 
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • ووٹ کی طاقت ہی جمہوریت کو مضبوط بناتی ہے: ملک محمد احمد خان
  • مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا دورہِ ضلع پشاور
  • ایم ڈبلیو ایم وفد کی خالد خورشید سے ملاقات، اہم علاقائی اور سیاسی امور پر تبادلہ خیال
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • بدقسمتی سے سیاستدان جمہوریت کا جنازہ نکال رہے ہیں، ایمل ولی خان
  • سینیٹ ایڈوائزری کمیٹی، کے پی کے میں سینیٹ الیکشن کی قرارداد مسترد
  • وزیر اعظم شہباز شریف دو روزے دورے پر ترکیہ پہنچ گئے
  • تنظیم نو کا معاملہ، پاکستان مسلم لیگ (ق) نے بڑا فیصلہ کرلیا