اجلاس کو بتایا گیا کہ 114416کشمیری بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 24261 شدید غذائی قلت، 69177 عمومی غذائی قلت اور 20978 خون کی کمی کے شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں ایک سینئر سرکاری افسر نے ایک اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ علاقے میں 1 لاکھ 14 ہزار سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ بات محکمہ سماجی بہبود کے کمشنر سیکرٹری سنجیو ورما نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے چیف سیکرٹری اتل ڈلو کی طرف سے بلائے گئے ایک اجلاس میں بتائی۔ 9 لاکھ 14 ہزار سے زائد افراد کو سپلیمنٹری نیوٹریشن اسکیم کا حصہ بنایا گیا ہے اور اسکیم سے استفادہ کرنے والوں میں سے 99 فیصد کی تصدیق ہو چکی ہے، اس طرح بدعنوانی کے کسی بھی امکان کو ختم کر دیا گیا۔ ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ سنجیو ورما چیف سکریٹری اٹل ڈلو کی طرف سے جموں و کشمیر میں محکمے کی طرف سے چلائی جا رہی متعدد اسکیموں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے طلب کئے گئے اجلاس کو بریفنگ دے رہے تھے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ 114416کشمیری بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 24261 شدید غذائی قلت، 69177 عمومی غذائی قلت اور 20978 خون کی کمی کے شکار ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اجلاس کو

پڑھیں:

غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟

مالی سال 2024 اور 2025 کے 9 ماہ گزر گئے، جولائی تا مارچ 2025ء کے غذائی یعنی فوڈ گروپ کے اعداد و شمار انتہائی خوش کن نظر آ رہے تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ 2023-24 کے 9 ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے 9 ماہ میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں2.74 فی صد کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا ہونا وہ بھی فوڈ گروپ کی درآمدات جس میں دالیں، گندم، جب کہ غذائی اشیا میں چائے، سویابین آئل اور دیگر اشیائے خوراک شامل ہوتی ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9 ماہ کے دوران 6 ارب 11 کروڑ 80لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی فوڈ گروپ کی درآمد ہوئی اور اس کے مقابل جولائی 2023 تا تاریخ 2024 کی فوڈ گروپ کی کل درآمد 6 ارب 29 کروڑ 4 لاکھ67 ہزار ڈالر کے ساتھ2.74 فی صد کی کمی کا ڈنکا بجا دیا گیا جب کہ یہ حقیقت بھی ہے لیکن ذرا رکیے! سال گزشتہ کی درآمدی گندم نکال کر حساب کتاب چیک کرتے ہیں تو کہانی بالکل الٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔

پچھلے مالی سال کے 9 ماہ میں پاکستان کے ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر ایک ارب 51 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے تھے، اگر گندم نکال دی جائے تو 6 ارب کی غذائی درآمدات کو5 ارب سمجھنا چاہیے اور چونکہ اس مرتبہ گندم کی مد میں 35 ہزار ڈالر درج ہے، اس لحاظ سے یہ تقریباً 15 فی صد سے زیادہ غذائی درآمدات کا اضافہ بنتا ہے۔

اس سے زیادہ مسئلہ اس بات کا ہے کہ رواں مالی سال میں گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا دالوں کی درآمد سے موازنہ کرتے ہیں تو 19 کروڑ ڈالرز کی زائد دالیں درآمد ہو کر رہیں۔ آہستہ آہستہ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان دالیں امپورٹ کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اپنا نام بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح دالیں مہنگی ہوتی چلی جائیں گی اور کچھ عرصے میں غریب کی دسترس سے باہر ہوکر رہیں گی۔

جلد ہی گوشت بھی اشرافیہ میں سے کچھ لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے کو ہے لہٰذا مہنگی دالوں کے گُن گائے جائیں گے اور اشرافیہ کے کچھ افراد گائے کے گوشت کو بھی خیرباد کہہ دیں گے اور وہ دال مہنگی ہو کر رہ جائے گی جو کبھی غریبوں کی پہچان تھی، اب وہ اشرافیہ کی شان بن جائے گی۔ پھر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ بلکہ دال اب بہت سے کالے دھن والوں کا کھاجا ہوکر رہ جائے گی۔اس مرتبہ غذا کی درآمدات میں دراصل اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔

ان سب کو سمجھنے کے لیے دال، گندم اور غذائی درآمدات کو گڈمڈ کرنا پڑے گا۔ یعنی بات سیدھی سمجھنی ہو تو کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کی ایک ارب ڈالر کی درآمدی گندم اور اس مرتبہ دالوں کی درآمد پر تقریباً 19 کروڑ ڈالر کی زائد درآمد کو ملا لیں یا سال گزشتہ کے اسی مدت سے گھٹا لیں تو دراصل تقریباً سوا ارب ڈالر کی اس مرتبہ غذائی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ کئی غذائی درآمدات میں جن کو پچھلے سیزن میں کم درآمد کیا گیا اس لیے ایک محتاط اندازہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوا ارب ڈالر5 ارب ڈالر کا 25 فی صد تو بنتا ہے اس طرح گندم نکالیں دال جمع کریں تو یہ سب کچھ جب گڈمڈ ہوکر رہ جائے گا تو ایسے میں معیشت کی کمزوری ظاہر ہوکر رہے گی۔ اتنی درآمدات کے باعث درآمدی ملک بن گئے ہیں کہ کیا اب بھی ایسا معلوم دیتا ہے کہ خودکفالت کی منزل پا لیں گے یہ نعرہ بھی درآمدی نعرہ بن گیا ہے۔

حکومت سستی دال فراہم کرنے کے لیے کاشتکاروں، زمین اور مقامی دالوں کا رشتہ مضبوط کرے تاکہ سستی دال اور مقامی دال پیدا ہو، اسی سے ہم سالانہ ایک سے سوا ارب ڈالر بچا سکتے ہیں۔ چینی بھی برآمد کر رہے ہیں اور اب گندم بھی برآمد کی جائے تاکہ ملک گندم کے برآمدی ممالک میں اپنی شناخت بنا سکے۔حکومت کے پالیسی ساز غذائی درآمدات کے بل کو بار بار چیک کریں، کیونکہ جب کھانے پینے کی چیزیں ایسے ملک میں باہر سے آ رہی ہیں جو ان تمام غذائی درآمدات کو سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مثلاً چائے یا پام آئل وغیرہ کے دیگر کئی غذائی درآمدات اس لیے کی جاتی ہیں کہ ملکی پیداوار کی نسبت کھپت زیادہ ہے۔

اب زائد کھپت کہہ دینا اور اس کے لیے زائد پیداوار کے حصول کی کسی قسم کی کوشش نہ کرنا، اب اس پالیسی کے برعکس کام کرنے کے لیے ماہرین، پالیسی ساز اب طے کر لیں کہ ملک کو خودکفالت کی طرف لے جانے کے لیے پہلے غذائی درآمدات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،کیونکہ ابتدائی طور پر آسانی کے ساتھ ایک تا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کفایت کی جا سکتی ہے۔

صرف پچھلے 10 سال کا سوچ کر آیندہ 5 سال کی زرعی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں تو یہ 10 تا 12 ارب ڈالر کی بچت، غذائی درآمدی بل میں کر سکتے ہیں اور آیندہ 5 برس اگر خودکفالت حاصل کرتے ہوئے کچھ اشیا خوراک برآمد کرلیتے ہیں تو یہی 10 سے 12 ارب ڈالرکی بچت ملک کو خودکفالت کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتی ہے اور یوں غذائی برآمدات کو دو سے تین گنا زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں چھوٹا افغانستان
  • مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ؛ مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہی  کا شکار
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا بڑے پیمانے پر کریک ڈاون، 1500سے زائد کشمیری گرفتار
  • مقبوضہ کشمیر، بھارتی فورسز 15سو سے زائد کشمیری نوجوانوں گرفتار کر لیے
  • غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟
  • پہلگام واقعے پر بھارتی یکطرفہ اقدامات: شہبازشریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب کرلیا
  • غزہ میں 6 لاکھ سے زائد بچوں کو مستقل فالج کا خطرہ
  • ایتھوپیا: امدادی کٹوتیوں کے باعث لاکھوں افراد کو فاقہ کشی کا سامنا
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے:وزارت داخلہ
  • اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ