Daily Ausaf:
2025-09-18@20:08:52 GMT

اسرائیل مردہ باد ملین مارچ

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

اتوار کی شام کراچی شاھراہ قائدین پر جمیعت علماء اسلام کے زیر اہتمام منعقدہ ’’اسرائیل مردہ باد ملین مارچ‘‘ عوامی شرکت کے اعتبار سے مثالی اور مولانا فضل الرحمن کے خطاب کے حوالے سے بے مثال تھا۔ ’’اسرائیل مردہ باد ملین مارچ کے اسٹیج سے بار بار سبیلنا،سبیلنا،الجہاد الجہاد کے لگنے والے نعرے کانوں کو بہت بھلے لگ رہے تھے اور یہ خاکسار سوچ رہا تھا کہ شاہراہ قائدین سے غزہ تک زمین وآسمان کا مالک، وہ دن بھی لائے گا جب کراچی کے شہزادے صیہونیت کی دھجیاں اڑانے کے لئے غزہ میں پہنچیں گے، کراچی کے جہادی شہزادے خوست،گردیز،جلال آباد،کابل وقندھار سے لے کر سرینگر تک ،خود جہاد میں شریک ہو کر دشمنوں کے دانت کھٹے کر سکتے ہیںتو کراچی کی گود ابھی بانجھ‘‘ نہیں ہوئی،نہ ہی کراچی والوں نے ابھی تک جہاد سے منہ موڑا ہے اللہ جی،غزہ کے معصوم بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں دیکھ دیکھ کر آنکھوں کے سوتے بھی خشک ہو چکے ہیں، ’’مسجد اقصیٰ‘‘کے فرزندوں کا بہتا لہو امت کے جوانوں کو پکار رہا ہے۔ ’’اللہ جی‘‘آپ کے لئے کیا مشکل ہے؟کہیں سے کسی راستے سے کراچی کے شہزادوں کی مدد فرما کر انہیں فلسطین تک پہنچا دیجئے (آمین) ۔ مولانا فضل الرحمن نے اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے ہماری جدوجہد تاریخی حیثیت کی حامل ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے،سیاسی یا معاشی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، انہوں نے کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کو عالمی عدالت انصاف نے جنگی مجرم قرار دیا ہے ، اسے پھانسی دی جائے، غزہ کے مسلمانوں کی اخلاقی ، سفارتی اور ہر طرح کی امداد ہم سب پر فرض ہے۔
اسرائیل کے حوالے سے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور قیام پاکستان کا واضح موقف ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور کسی کو ان کے اس موقف سے رو گردانی کی اجازت نہیں دی جائے گی، انہوں نے کہاکہ اکابر علماء کرام نے مجلس اتحاد امت کے پلیٹ فارم سے جو جہاد کا فتویٰ دیا ہے ، ہم سب اس کی تائید کرتے ہیں، ہم نے فلسطین اور اہل غزہ کو یہ پیغام دیا ہے، مظالم کے وقت میں آپ تنہا نہیں، خون کے آخری قطرے تک آپ کے شانہ بشانہ رہیں گے۔،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ امت مسلمہ کو حکمرانوں کی پروا کئے بنا اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا،کراچی کے عوام نے اہل فلسطین کو حوصلہ دیا ہے،اسرائیل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑا ہونا پڑے گا،اسرائیل کوئی ملک نہیں اس نے سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا ہے،اسرائیل نے عرب سر زمین پر قبضہ کیا ہے,اسرائیل عربوں کی پیٹھ میں ایک خنجر ہے جو گھونپا گیا ہے،ستر سال ہوگئے عالمی قوتیں اسرائیل کو ایک ایسے عمل میں تائید دے رہی ہیںجس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، ایک صدی پہلے تک کرئہ ارض پر اسرائیل نامی کسی مملکت کا وجود نہیں تھا،انہوں نے کہا کہ پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے کہ فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کی۔1917ء میں صرف 2 فیصد علاقے پر یہودی آباد تھے، پھر کیسے کہا جاتا ہے کہ فلسطین نے اپنی زمین فروخت کی، 1948ء میں صرف چھ فیصد حصے پر یہودی فلسطین میں رہتے تھے،برطانیہ کی عادت رہی ہے کہ وہ خطے میں تنازعہ چھوڑ کر جاتا ہے کشمیر بھی اس کی مثال ہے،جیسے برصغیر میں کشمیر کی صورت تنازعہ چھوڑا، ایسا ہی عرب دنیا میں اسرائیل کی صورت میں تنازعہ چھوڑا گیا،انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے علمبردار افغانستان اور سعودی عرب میں سزائے موت پر احتجاج کرتے ہیں، لیکن مسئلہ فلسطین پر خاموش ہیں،فلسطین میں 60 ہزار افراد کو لقمہ اجل بنا کر بھی یورپ کی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔
امریکہ سے پوچھتا ہوں کہ تمہاری نظر میں مسلمانوں کا خون اتنا سستا کیوں ہے؟امریکہ دنیا کی قیادت کا حق نہیں رکھتا ،دنیا کروٹ بدل رہی ہے جلد دنیا کی معاشی قوت ایشیاء کے ہاتھ میں آئے گی ،اب بہت ہوگیا امریکہ نے مسلمانوں کا بہت خون بہا لیا،اگر افغانستان سے سبق حاصل نہ کیا گیا تو جلد امریکہ پاش پاش ہوجائے گا، امریکہ نے عرب دنیا میں مسلمان بھائیوں کا بہت خون کرلیا،اسرائیل کے پہلے صدر نے خارجہ پالیسی بیان میں کہا تھا کہ ایک نوزائیدہ اسلامی ریاست کا خاتمہ ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے کوئی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ رہا ہے تو ذہن سے نکال دے،اسرائیلی وزیراعظم نے کہاہے کہ ہمیں سب سے بڑا خطرہ پاکستان سے ہے، پاکستانیوں کے تکبیر کے نعروں سے صہیونی قوتیں لرز رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ بعض لابیز کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا خواب پورا نہیں ہوگا اور نہ ہی اسرائیل سے معاشی تعلقات قائم کرنا کسی کے لئے آسان ہوگا،جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے فضا بنارہے تھے ہم نے ان کا نظریہ رد کردیا،اور زبانیں بند کر دیں، انہوں نے کہا کہ نہ کوئی قادیانیوں کو مسلمان تسلیم کرواسکتا ہے اور نہ ہی اسرائیل کو تسلیم کروایا جا سکتا ہے، بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان جاگیردار صنعت کار ہوں یا کوئی مفاد پرست طبقہ کسی کے کہنے پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے،ایوان فروخت ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ مسئلہ نہیں,اب ایوان نہیں میدان ہمارے ہاتھ میں ہے۔عالمی عدالتیں اسرائیلی وزیراعظم کو مجرم قرار دے چکی ہیں،اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہے اور اس کا ساتھ دینے والے بھی جنگی مجرم ہیں،یہ بات مولانا فضل الرحمن ہی کر سکتے تھے سو انہوں نے اپنے خطاب میں پوری جرات ایمانی کو بروئے کار لا کرامریکی صدر کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ تم بھی فلسطینیوں کے قاتل ہو، اگرامریکی وزیر خارجہ یہودی ہوکر اسرائیل کے ساتھ ہے تو ہم بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے فلسطین اور حماس کے ساتھ ہیں ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل مردہ باد ملین مارچ اسرائیل کو تسلیم کرنے مولانا فضل الرحمن انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے کہ اسرائیل کراچی کے دیا ہے کے لئے

پڑھیں:

اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے ایک قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔ یہ قرارداد 142 ممالک کے ووٹوں سے منظور ہوئی۔ امریکا اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ واضح رہے کہ یہ قرارداد ’’نیویارک ڈیکلریشن‘‘ پر مبنی ہے جو فرانس اور سعودی عرب نے جولائی میں تیار کی تھی اور جسے عرب لیگ کی حمایت حاصل ہے۔ اس اعلامیے کا مقصد فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازع کے دو ریاستی حل میں نئے سرے سے جان ڈالنا ہے لیکن اس میں فلسطینی تنظیم حماس شامل نہ ہو۔ یہ ووٹنگ عالمی رہنمائوں کی 22 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات سے قبل منعقد ہوئی ہے۔ قرارداد کی تمام خلیجی عرب ریاستوں نے حمایت کی۔ قرارداد کے منظور شدہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے تحت ایک عارضی بین الاقوامی استحکام مشن کی تعیناتی کی حمایت کی گئی ہے۔ اس قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے امریکا کا کہنا تھا کہ اس سے سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے، یہ غلط سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ امریکی سفارت کار مورگن اورٹیگس نے جنرل اسمبلی میں کہا کہ یقین رکھیے، یہ قرارداد حماس کے لیے تحفہ ہے، امن کو فروغ دینے کے بجائے اس کانفرنس نے جنگ کو طول اور حماس کو حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل، جو طویل عرصے سے اقوامِ متحدہ پر الزام لگاتا آیا ہے کہ اس نے 7 اکتوبر کے حملوں پر حماس کا نام لے کر مذمت نہیں کی، اس نے بھی جنرل اسمبلی کے اعلامیے کو یکطرفہ قرار دے کر مسترد کر دیا اور ووٹ کو تماشا قرار دیا۔ قرارداد میں حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملوں کی شدید مذمت کی گئی اور حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غزہ کی حکومت چھوڑ دے، ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے، اور تمام یرغمالوںکو رہا کرے۔ واضح رہے کہ 22 ستمبر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی 80 ویں تاسیس کے موقع پر جنرل اسمبلی میں اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہورہا ہے، جس کا مرکزی ایجنڈا اقوامِ متحدہ کی اسی سالہ تاریخ کا جائزہ لینا، ماضی کی کامیابیوں پر غور کرنا اور مستقبل کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی مرتب کرنا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ اس اجلاس کے موقع پر برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، بلجیم اور دیگر ممالک باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ ادھر نیتن یاہو نے قرارداد کی منظوری پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ’’کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی‘‘ اس اعلان کے ساتھ ہیں انہوں نے فلسطینی مغربی کنارے میں نئی متنازع آباد کاری کے توسیعی منصوبے پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکومت کے متنازع توسیعی منصوبے کے تحت اسرائیلی آباد کاروں کے لیے 3400 نئے گھر بنائے جائیں گے، مقبوضہ بیت المقدس سے مغربی کنارے کا بیش تر حصہ منقطع کردیا جائے گا اور اس علاقے میں دیگر اسرائیلی آباد کاروں کی بستیوں کو ساتھ ملایا جائے گا۔ بادی النظر میں دو ریاستی حل کی قرارداد مسئلہ فلسطین کے باب میں ایک اہم پیش رفت محسوس ہو رہی ہے تاہم بنظر غائر دیکھا جائے تو جسے عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین پر پیش رفت خیال کیا جارہا ہے وہ اس کے سو ا کچھ نہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سطح پر اسرائیل کو قانونی حیثیت دے دی جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوامِ عالم ایک ایسا فیصلہ کرتی جو عدل و انصاف اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ ہو تا، اس فیصلے میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت کی جاتی مگر حق و انصاف کی راہ اپنانے اور اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کے بجائے سارا زور اس بات پر رہا کہ حماس غیر مسلح ہو جائے، اپنے ہتھیار حوالے کردے اور یرغمالیوں کو رہا کردے اور غزہ کی حکومت چھوڑ دے، سوال یہ ہے کہ حماس کے غیر مسلح ہونے کا جواز کیا ہے؟ یرغمالیوں کو کس بنیاد پر رہا کیا جائے؟ عزہ پر حماس کی حکومت ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، جسے تسلیم نہیں کیا گیا، حقائق، اصول اور بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کر کے حماس کو بے دست و پا کرنے کی کوشش دراصل فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اسے اقوامِ متحدہ اور مغربی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے، مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل نامی شجرِ خبیثہ کا بیج برطانیہ نے بویا، اس کی نمو کے لیے ماحول کو سازگار بنانے کا فریضہ اقوامِ متحدہ نے انجام دیا اور جس کی نگہداشت امریکا اور مغربی طاقتیں کر رہی ہیں، مغربی طاقتوں کی اسی بے جا حمایت اور سرپرستی نے اسرائیل کو معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا حوصلہ دیا ہے۔ اسرائیل کی پوری تاریخ اس امر کی حقیقت پر دال ہے کہ وہ کسی طور فلسطین کی سرزمین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں 1947 میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کیا جانے والے پارٹیشن پلان ہو یا کیمپ ڈیوڈ معاہدہ یا اوسلو معاہدہ، صہیونی قیادت اسرائیل کے قیام سے قبل ہی گریٹر اسرائیل کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے، اب تو خود نیتن یاہو بھی کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ گریٹر اسرائیل کے ایک تاریخی اور روحانی مشن پر ہیں اور یہ کہ وہ گریٹر اسرائیل کے وژن سے خود کو منسلک محسوس کرتے ہیں، جس میں فلسطینی ریاست کے لیے مخصوص علاقے اور موجودہ اردن اور مصر کے ممکنہ حصے شامل ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا وجود ہی بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جبکہ قابض طاقت کے طور پر جو پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں اور جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ سب بھی غیر قانونی ہیں۔ یہ حقیقت کس سے مخفی ہے کہ 1917 میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے یہودی کمیونٹی کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی، جس کے بعد بڑے پیمانے پر یہودیوں کی نقل مکانی میں ان کی مدد کی گئی، دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسایا گیا، فلسطینیوں کی زمینیں جبراً ضبط کر کے انہیں یہودی آباد کاری کے حوالے کیا گیا۔ اقوام عالم کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دو ریاستی حل کسی طور فلسطین کے مسئلے کا حل نہیں، اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور فلسطینی عوام کے حقوق کی بحالی کے لیے اسرائیل کے قبضے کا خاتمہ ضروری ہے۔ دنیا اگر مسئلہ فلسطین واقعتا حل کرانا چاہتی ہے تو اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے اور یہ کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینیوں کو قبضے کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے، جس میں مسلح مزاحمت بھی شامل ہے۔ قرارداد کی منظوری سے یہ سمجھ لینا کہ یہ مسئلہ فلسطین کے حل کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے سراسر عاقبت نااندیشی ہے، آج اگر طاقت اور قبضے کو بطور دلیل تسلیم کرلیا گیا توکمزور اقوام کے پاس جینے کا حق نہیں رہ سکے کا اور ان غیر منصفانہ اقدامات اور فیصلوں کے نتیجے میں دنیا طواف الملوکی کا منظر پیش کرے گی اور خطے میں قیامِ امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔

متعلقہ مضامین

  • جماعت اسلامی کا کراچی میں غزہ چلڈرن مارچ، طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک
  • فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر برطانوی وزیراعظم سے متفق نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • فلسطینی بچوں سے یکجہتی، جماعت اسلامی کے تحت ”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“ لبیک یا اقصیٰ کے نعرے
  • مسلم حکمران زبانی بیانات کے بجائے اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات اور فوجی کارروائی کریں ، منعم ظفر خان
  • سعودی عرب کا لکسمبرگ کے ریاستِ فلسطین تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم
  • جاپان فی الحال فلسطینی ریاست تسلیم نہیں کریگا، جاپانی اخبار کا دعویٰ
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • لکسمبرگ کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد