شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) جرمنی کے ایک حالیہ طبی مشن نے شام میں محمد قنبت کی جان بچائی، جن کا تعلق شام کے شہر حما سے ہے۔ اس وقت 55 سالہ قنبت کی اپریل میں اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تھی۔ یہ علاج کا ایک ایسا طریقہ ہے، جو شام میں ان دنوں شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے کیونکہ ملک کی 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران صحت کا نظام بری طرح تباہ ہو چکا ہے اور یہ بہت مہنگا بھی ہو گیا ہے۔
لیکن حال ہی میں جرمنی سے آنے والے شامی ڈاکٹروں نے قنبت کو اپنے انتہائی ضرورت مند مریضوں کی فہرست میں شامل کر لیا۔
قنبت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں بیان نہیں کر سکتا کہ میں کتنا خوش اور شکر گزار ہوں۔‘‘
انہوں نے اس حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سے شامی جنگ کے دوران اپنے ملک سے رخصت ہو گئے تھے، کہا، ’’اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
ہم نے اپنے بچوں کے آنے اور ہماری مدد کرنے کا بہت انتظار کیا۔ لیکن وہ ہمیں بھولے بھی نہیں۔ وہ ہماری مدد کے لیے واپس آئے ہیں۔‘‘جرمنی سے مہاجرین کی عجلت میں واپسی غیر ضروری، شامی وزیر خارجہ
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ جنگ کے دوران کتنے شامی ڈاکٹروں نے ملک چھوڑا تھا۔ تاہم ورلڈ بینک کے مطابق ان عوامی مظاہروں سے ایک سال قبل جو خانہ جنگی کا باعث بنے، سن 2010 میں 30,000 کے قریب ڈاکٹروں نے شامی آبادی کی خدمت کی تھی۔
اقوام متحدہ نے اس دوران 2020 میں پہلی بار جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا، اس کے مطابق ملک میں 16,000 سے بھی کم ڈاکٹر رہ گئے تھے اور بہت سی نرسیں، فارماسسٹ اور ڈینٹسٹ اور دیگر طبی کارکن ملک چھوڑ کر جا چکے تھے۔
ان میں سے بہت سے ڈاکٹروں نے جرمنی میں پناہ لے لی تھی اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 6,000 شامی ڈاکٹر جرمنی کے مختلف ہسپتالوں میں کام کرتے ہیں۔
تاہم یہ صرف وہی ڈاکٹر ہیں، جن کے پاس شامی پاسپورٹ ہیں۔ اصل میں جرمنی میں 10,000 سے زیادہ شامی ڈاکٹر ہو سکتے ہیں، کیونکہ اب بہت سے ایسے لوگوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہیں، اس لیے انہیں غیر ملکی عملے کے طور پر شمار نہیں کیا جاتا۔ شام میں پہلا طبی مشنگزشتہ برس دسمبر کے اوائل میں شامی آمر بشار الاسد کی معزولی کے بعد جرمنی میں مقیم شامی ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے شامی جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن (ایس جی ایم اے) کی بنیاد رکھی۔
جرمنی کے شہر کریفیلڈ کے ہیلیوس ہسپتال میں کام کرنے والے ایک سینیئر فزیشن نور حضوری نے بتایا کہ یہ سب ڈاکٹروں کے ایک چھوٹے سے واٹس ایپ گروپ کے ساتھ شروع ہوا، جو یہ سوچ رہے تھے کہ آخر وہ کس طرح اپنے ہم وطن لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں۔شامی باشندے اب جرمنی سے واپس جائیں، سابق جرمن وزیر خزانہ
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ پھر واٹس ایپ گروپ ایک فیس بک پیج میں تبدیل ہوا اور پھر جنوری کے وسط میں ایس جی ایم اے کی باضابطہ بنیاد رکھی گئی۔
اب اس کے ارکان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ ’’ہم سب خود بھی واقعی حیران ہوئے کہ یہ سب کچھ کتنی تیزی سے بڑھتا گیا۔‘‘ایس جی ایم اے کے اراکین نے اپنا پہلا ہوم مشن اپریل کے اوائل سے شروع کیا اور فی الوقت تقریباً 85 شامی ڈاکٹر شام میں تعلیم کے حوالے سے لیکچر دے رہے ہیں۔ وہ شام میں صحت عامہ کی دیکھ بھال کے نظام کی حالت کا جائزہ لے رہے ہیں اور ملک بھر میں طبی آپریشن کر رہے ہیں۔
ایک سینیئر فزیشن اور جرمن ریاست باویریا کے باڈ نوئے شٹڈ میں رون کلینک میں کام کرنے والے ماہر امراض قلب ایمن سودہ نے حما میں آپریشن تھیٹر سے نکلتے ہوئے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا، ’’شام کے ہسپتالوں میں فی الوقت سب سے بڑا چیلنج طبی آلات کا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’یہ واضح ہے کہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران کچھ بھی نیا نہیں کیا گیا۔
‘‘جرمنی: انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف آپریشن، ایک سو سے زائد شامی باشندے بازیاب
واشنگٹن کے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مطابق جنگ سے پہلے تک شام ایک درمیانی آمدنی والا ملک تھا، جس میں صحت کا نسبتاً اچھا نظام تھا۔ لیکن جنگ کے دوران اسد حکومت اور اس کے روسی اتحادی نے صحت کی سہولیات کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا۔ پھر پابندیوں اور بیمار معیشت کی وجہ سے صحت کا نظام مزید بگڑ گیا۔
شام کے دارالحکومت دمشق کے ایک ہال میں گزشتہ اتوار سے پہلے تک کوئی بھی اس کے بارے میں بات تک نہیں کر رہا تھا۔ تاہم اب اس میں تقریباً 300 لوگ، جن میں متجسس میڈیکل طلبا، مقامی حکام اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں شامل ہیں، ایس جی ایم اے کے وفد کی باتیں سننے کے لیے جمع ہوئے، جو بہت پر امید تھے۔
جرمنی کے شہیر بریمر ہافن کے ایک ہسپتال کے نیفرولوجی کے شعبے کے ایک سینیئر ڈاکٹر مصطفیٰ فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں کافی پرجوش محسوس کر رہا ہوں۔
ہر شامی کے ذہن میں ایک خوف تھا، جو اسد کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ اب وہ خوف ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے میں اچھا محسوس کر رہا ہوں اور میں یہاں دمشق میں آ کر خوش ہوں، جہاں میں شام کے صحت عامہ کے نظام کی مدد کرنے کے قابل ہوں۔‘‘حضوری نے کہا، ’’اس حالیہ مشن کا خیال اس لیے آیا، کیونکہ بہت سے ڈاکٹر شام میں اپنے اہل خانہ سے ملنے جانا چاہتے تھے، جن میں سے کچھ نے تو اپنے اہل خانہ کو 14 برسوں سے نہیں دیکھا تھا۔
‘‘اس مشن کا آغاز ایک آن لائن سوالنامے سے ہوا اور ایک ہفتے کے اندر ہی 80 سے زیادہ رضاکاروں نے سائن اپ کر لیا۔
حضوری نے تسلیم کیا کہ شام کے کچھ حصوں میں سکیورٹی اب بھی ایک مسئلہ ہے، اس لیے ڈاکٹر ہر جگہ کام نہیں کر سکتے۔ ’’لیکن حقیقت میں سب سے بڑا چیلنج اشیاء اور سامان کی قیمت تھی۔‘‘
انتیس سالہ شامی مہاجر جرمن گاؤں کا میئر منتخب
مددگار شراکتیںحضوری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان شامی رضاکاروں نے سفر کی ادائیگی اور طبی آلات کے لیے رقم خود ہی جمع کی۔
وہ کہتے ہیں، ’’بہت سے لوگ اپنے کلینکوں سے عطیات لے کر آئے۔ اسی وقت ہم نے ایک آن لائن فنڈ جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی، جس کے ذریعے ہم ایک ماہ کے اندر اندر تقریباً ایک لاکھ یورو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ رقم بھی زیادہ تر جرمنی میں شامی ڈاکٹروں نے مہیا کی جبکہ مقامی شامی این جی اوز نے بھی مادی عطیات میں ہماری مدد کی۔
‘‘اس تنظیم کو ابھی تک جرمن حکومت کی طرف سے کوئی سرکاری مدد نہیں ملی۔ تاہم ایس جی ایم اے کے اراکین نے فروری کے وسط میں جرمن-شامی ہسپتال سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی، جس سے ممکنہ شراکت داری کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
شام میں ملکی وزارت صحت بھی مددگار رہی ہے، جس نے ایس جی ایم اے کے ڈاکٹروں کو کام کرنے کے اجازت نامے فراہم کیے۔
شام کے نئے وزیر صحت اور نیورو سرجن مصعب العلی بھی پہلے جرمنی میں کام کر چکے ہیں۔جرمنی: شامی مہاجرین کی واپسی پر عائد پابندی ختم
گھر کا احساس کہاں ہوتا ہے شام یا جرمنی میں؟ایس جی ایم اے کے زیادہ تر طبی رضاکار جرمنی میں اپنی ملازمتوں پر واپس جائیں گے۔ تاہم جرمنی میں سیریئن ایسوسی ایشن فار ڈاکٹرز اینڈ فارماسسٹس کے ایک حالیہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ اس کے 76 فیصد اراکین مستقل طور پر اپنے وطن شام واپس جانے پر غور کر رہے ہیں۔
جرمن میڈیا کے ساتھ حالیہ انٹرویوز میں شامی ڈاکٹر باقاعدگی سے انتہائی دائیں بازو اور امیگریشن مخالف رویوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
ان کے جانے سے جرمنی میں صحت کی خدمات پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے۔ اگرچہ شامی ڈاکٹر جرمنی میں تمام ڈاکٹروں میں سے صرف دو فیصد ہیں، لیکن وہ مشرقی جرمنی کے ہسپتالوں اور کلینکوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بریمر ہافن کے ہسپتال کے ڈاکٹر فہم نے دمشق میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمیں جرمنی کا بھی خیال ہے اور یقیناً تمام ڈاکٹر ایک ساتھ نہیں جائیں گے۔ دوسری طرف ہم شام کے ساتھ اپنی وفاداری بھی محسوس کرتے ہیں۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ ہم کوئی ایسا منصوبہ بنا سکتے ہیں، جس کے تحت ہم یہاں مدد بھی کر سکتے ہوں اور جرمنی میں صحت کی دیکھ بھال کا احاطہ بھی کیا جا سکتا ہو۔
‘‘مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر
درحقیقت شام میں SGMA کے لیکچر صرف طبی اپ ڈیٹس پر نہیں تھے۔ کچھ مقررین طبی طالب علموں یا ڈاکٹروں کو بھی مشورہ دینا چاہتے تھے جو جرمنی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات معاذ المعاروی نے کہی جو جرمن شہر گیلزن کرشن میں کام کرنے والے ایک ایسے ڈاکٹر ہیں، جو ایس جی ایم اے کی طرف سے دمشق میں تھے۔
ایس جی ایم اے سے وابستہ شامی ڈاکٹر معاذ المعاروی کہتے ہیں، ’’شام کو اپنے ہیلتھ سیکٹر کی تعمیر نو کے لیے اس وقت بہت مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن جرمنی کو بھی شامی ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ضرورت ہے۔ ہم شام اور جرمنی کے درمیان ایک ایسا پل بننا چاہتے ہیں، جس سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہوں۔‘‘
ص ز/ م م (عمر البام دمشق سے/ کیتھرین شائر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایس جی ایم اے کے شامی ڈاکٹروں ڈاکٹروں نے شامی ڈاکٹر میں کام کر کام کرنے جرمنی کے کے دوران رہے ہیں کے ساتھ بہت سے کے لیے اس لیے کے ایک شام کے
پڑھیں:
عید پر گوشت کا استعمال اور صحت کا خیال کیسے رکھا جائے؟
عید الاضحیٰ خوشیوں اور قربانی کے جذبے کے ساتھ ساتھ، طرح طرح کے پکوانوں اور گوشت سے بھرپور ضیافتوں کا تہوار بھی ہے۔ تاہم، اس موقع پر گوشت کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے انسانی صحت کو لاحق مسائل بھی ہر سال سر اٹھاتے ہیں۔ قربانی کے گوشت سے بھرے دسترخوان، چٹ پٹے پکوان اور بار بار کھانے کی دعوتیں، سب کچھ بظاہر خوشگوار لگتا ہے، مگر کیا ہم اپنی صحت کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا ذائقے کا؟
عید کے ان پُرمسرت لمحات میں اکثر لوگ پیٹ کی تکالیف، ہاضمے کی خرابی اور دیگر مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کچھ قابلِ پرہیز اور قابلِ احتیاط ہے، تو آئیے ماہرین سے جانتے ہیں کہ کتنا اور کیسے گوشت کا استعمال زیادہ بہتر ہے؟
اسلام آباد کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے وابستہ گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ڈاکٹر حیدر عباسی کے مطابق ہر سال عید کے پہلے دن یا اگلے دن ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافہ دیکھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ گوشت کھانے سے پیٹ میں تکلیف، قے، اسہال اور بلڈ پریشر میں اضافہ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عیدالاضحیٰ: بلند قیمتوں کے باوجود ڈیپ فریزر کی فروخت میں اضافہ
ڈاکٹر حیدر عباسی نے بتایا کہ ہر فرد کو ایک محدود مقدار میں روزانہ گوشت کھانا چاہیے اور عید کے دنوں میں بھی گوشت اتنا ہی کھانا چاہیے، جس حساب سے ہم سارا سال گوشت کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر معمول کے مطابق گوشت کا استعمال کیا جائے تو انسانی جسم اس کا پہلے سے عادی ہوگا۔
’یہی وجہ ہے کہ نظام انہضام کو اسے ہضم کرنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کیونکہ گوشت کی زیادہ مقدار نہ صرف ہاضمے پر بوجھ ڈالتی ہے بلکہ بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھا سکتی ہے۔‘
راولپنڈی میں واقع ہولی فیملی اسپتال کے میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ عید کے دوران گوشت کی زیادتی سے معدے کی بیماریاں، متلی، اسہال اور بلڈ پریشر میں اضافہ ہو سکتا ہے، عوام کلیجی، دل، گردے جیسے اعضا کی مقدار بھی بہت زیادہ بڑھا دیتے ہیں جبکہ اسے بھی محدود رکھنا چاہیے کیونکہ ان میں یورک ایسڈ اور کولیسٹرول زیادہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: افغان ‘چائینکی گوشت’ کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
’صرف گوشت کھانے کے بجائے اسے سبزیوں، دالوں، سلاد اور دہی کے ساتھ کھائیں تاکہ فائبر اور ہاضمے میں مدد دینے والے اجزا بھی شامل ہوں، اس کے علاوہ کھانے میں لیموں، ادرک، پودینہ جیسے قدرتی اجزا شامل کرنا ہاضمے کو بہتر بناتا ہے۔‘
ماہر غذائیت ڈاکٹر آمنہ فرحان کا کہنا ہے کہ ہر انسان کو مکمل غذائیت سے بھرپور بیلنس ڈائیٹ کا استعمال کرنا چاہیے، چاہے کوئی تہوار ہو یا پھر کسی بھی قسم کا کوئی ایسا موقع جب مرغن کھانوں کی تعداد میز پر زیادہ ہو۔ ’صحت مند زندگی کا یہی اصول ہے، کسی بھی چیز کی زیادتی یا کمی دونوں انسانی جسم کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔‘
ڈاکتر آمنہ فرحان کے مطابق عید الاضحیٰ پر ہمارے ہاں یہ بہت ہی عام بات ہے کہ لوگ گوشت کا استعمال اتنا زیادہ بڑھا دیتے ہیں کہ ان کا پورا نظام ہی درہم برہم ہوجاتا ہے، اس لیے چند چیزوں کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے۔
مزید پڑھیں:کیا کافی عرصہ چھوڑ دینے کے بعد گوشت دوبارہ کھانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟
روزانہ گوشت کی مقدار: ایک صحت مند فرد کو روزانہ 60 سے 100 گرام گوشت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ مقدار تقریباً 143 کیلوریز، 3 سے 5 گرام چکنائی، 26 گرام پروٹین اور ضروری وٹامنز اور معدنیات فراہم کرتی ہے۔
گوشت کی اقسام: بڑی عمر کے جانوروں کا گوشت زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول پر مشتمل ہوتا ہے، جو دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔
پکانے کے طریقے: تلنے کے بجائے گوشت کو اُبالنا، بھوننا یا بھاپ میں پکانا صحت مند طریقہ ہے، جس سے غیر صحت بخش چکنائی کی مقدار کم ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب: حج کے بعد کی گئی قربانی کا گوشت کہاں جاتا ہے؟
سبزیوں اور سلاد کا استعمال: گوشت کے ساتھ سبزیوں، سلاد اور دہی کا استعمال ہاضمہ بہتر بناتا ہے اور جسم کو ضروری فائبر فراہم کرتا ہے۔
پانی کی مقدار: عید کے دوران پانی کا استعمال بڑھانا چاہیے تاکہ جسم ہائیڈریٹڈ رہے اور ہاضمہ بہتر ہو۔
سافٹ ڈرنکس اور کولڈ ڈرنکس: تمام سافٹ اور کولڈ ڈرنکس سے پرہیز کریں کیونکہ یہ وقتی تسکین تو دیتے ہیں لیکن ہائی شوگر کونٹینٹ رکھنے کی وجہ سے ہاضمے کے مسائل کو بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ادرک اسہال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پودینہ ڈاکٹر آمنہ فرحان ڈاکٹر حیدر عباسی ڈاکٹر فضل الرحمان عید الاضحی فائبر کولیسٹرول گوشت گیسٹرو اینٹرولوجسٹ لیموں ماہر غذائیت نظام انہضام ہائی بلڈ پریشر ہاضمے ہولی فیملی اسپتال