پاک امریکا تعلقات کا نیا موڑ
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
موجودہ حالات اور سیاسی تناظر میں پاکستان امریکا تعلقات میں کافی سنگین مسائل ہیں۔اصل مسئلہ دونوں اطراف کی سیاسی ترجیحات میں فرق اور اعتماد سازی کا فقدان ہے۔ایک بار سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت ساس اور بہو کے رشتے کی طرح ہے جس میں بہتری اور بگاڑ دونوں پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔
امریکا میں نئے انتخابات اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی قیادت کے منتخب ہونے کے بعد عالمی اور علاقائی سیاست سمیت پاکستان اور امریکا تعلقات میں بہت سی نئی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔اسی تناظر میں حالیہ دنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی اور امریکی کانگریس کا ایک تین رکنی وفد پاکستان کے دورے پر آیا ۔اس وفد میں امریکی کانگریس کے نمایاں اراکین شامل ہیں جن کی قیادت کانگریس مین جیک برگمین کر رہے ہیں جب کہ دیگر ارکان میں ٹام سوزی اور جو نتھن جیکسن شامل ہیں۔ٹام سوزی اور جیک برگمین پاکستان کاکس کے ممبران کی حیثیت سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
اس دورے کا مقصد پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا اور مختلف صوبوں میں تعاون کے نئے امکانات کو تلاش کرنا ہے۔یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ امریکی کانگریس میں یہ کاکس گروپ ایک غیر رسمی گروپ ہے جو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے خواہش مند ہوتے ہیں۔اسی ماہ میں اب تک دو امریکی وفوداسلام آباد کا دورہ کرچکے ہیں۔پہلا دورہ امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور مرکزی ایشیا کے امور کے سینیٹرابلکارمائر کا تھا جس میں انھوں نے منرلزسرمایہ کاری فورم کا دورہ سمیت عسکری قیادت سے ملاقات کی۔
امریکا کے اس حالیہ تین رکنی وفد نے اپنے دورے میں پاکستان کی سیاسی اور سول قیادت سمیت پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات کی۔ان ملاقاتوں میں علاقائی سلامتی کی صورتحال،دفاعی تعاون کو مزید وسعت دینے، اقتصادی تعاون اور تجارت کو فروغ دینے، سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنے،تجارتی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے جیسے امور سمیت دہشت گردی سے جڑے مسائل بھی سرفہرست تھے۔امریکی کانگریس کے ان اراکین کا دورہ ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب بہت سے لوگوں کا خیال ہے امریکا کی موجودہ سیاسی ترجیحات میں پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہے اور امریکا کی بڑی ترجیح بھارت ہے۔اسی طرح امریکا کو پاک چین تعلقات میں بڑھتے ہوئے نئے امکانات پر بھی تحفظات ہیں۔
اس وقت امریکا افغانستان کے حوالے سے براہ راست پاکستان پر انحصار کرنے کی بجائے خود طالبان سے رابطوں میں ہے۔پاکستان کا ایک بڑا چیلنج موجودہ حالات میں امریکا وچین کے ساتھ توازن پر مبنی تعلقات ہیں۔پاکستان کے جہاں امریکا کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں وہیں اس کا انحصار چین پر بھی ہے۔اسی طرح یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان کو علاقائی سطح پر بھارت و افغانستان کے تناظر میں کافی سنگین مسائل کا سامنا ہے جن میں سیکیورٹی اور دہشت گردی جیسے مسائل بھی سرفہرست ہیں۔
پاکستان امریکا سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ وہ خطے کی سیاست میں پاکستان کے مفادات کو اہمیت دے اور خاص طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں موجود بد اعتمادی کو کم کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرے۔مگر ان معاملات میں امریکا کسی بڑے کردار کے لیے تیار نہیں۔ لیکن جس انداز میں امریکا بھارت پر انحصار کر رہا ہے یا اس کی توجہ کا مرکز بھارتی ریاست ہے وہ خود پاکستان کے لیے کافی تشویش کا پہلو ہے۔کیونکہ اگر پاکستان کو نظر انداز کر کے یا پاکستانی مفادات کو پشت ڈال کر امریکا بھارت کی جانب آگے بڑھتا ہے تو اس سے پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا۔خاص طور پر ایک ایسے موقع پر جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سخت ڈیڈ لاک اور بات چیت کے دروازے بند ہیں امریکا کابھارت کی طرف جھکاؤ کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میںنہیں ہوسکتا۔
اس لیے امریکا پر لازم ہے وہ اس خطہ کی سیاست میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کرے بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کوبھی یقینی بنائے ۔اسی طرح امریکا کو افغانستان میں چھوڑے گئے اربوں ڈالر کے اسلحے کے دہشت گردی میں استعمال کو روکنے کے لیے بڑی سطح کا کردار ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے اور اس میں جہاں ٹی ٹی پی کی کالعدم تنظیم ملوث ہے وہیں ان دہشت گردوں کو افغان طالبان حکومت اور پس پردہ بھارت کی سہولت کاری بھی حاصل ہے۔لیکن اس اہم اور سنگین مسئلہ پر امریکا پاکستان کے تحفظات کو نظر انداز کررہا ہے۔
پاکستان کو جہاں امریکا سمیت چین اور خطہ کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر اور موثر بنانا ہے وہیں اسے جیو تعلقات ، جیو اسٹرٹیجک یا جیو معیشت سے جڑے معاملات پر بھی توجہ دینی ہے۔ اس لیے علاقائی ممالک بشمول بھارت اور افغانستان سے تعلقات کی بہتری اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب علاقائی ممالک سمیت بڑے عالمی ممالک کا بڑا ایجنڈا علاقائی سیاست کا استحکام اور معاشی ترقی ہوگا۔اسی طرح تمام بڑے اور چھوٹے ممالک اپنے سیاسی خسارہ کو کم کریں عملی طور پر ایک دوسرے پر اعتماد کرکے آگے بڑھنے کا کوئی مشترکہ فریم ورک یا حکمت عملی کو ترتیب نہیں دیں گے حالات میں بہتری کا عمل کسی بھی طور پر ممکن نہیں ہوگا ۔
اسی طرح پاکستان کو امریکا سے تعلقات بہتر بنانے ہیں تو اس کی اپنی داخلی ترجیحات پر توجہ دینا بھی شامل ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی مسائل پر توجہ نہیں دیں گے اور ملک کا سیاسی ،جمہوری،آئینی اور قانونی تشخص سمیت انسانی حقوق سے جڑے معاملات کی بہتر تصویر پیش نہیں کریں گے امریکا ان معاملات کو بنیاد بنا کر ہم پر یک طرفہ دباو ڈالنے کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔
ہمیں اپنے داخلی مسائل کا بھی درست ادراک ہونا چاہیے اور درست تجزیہ کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی داخلی ترجیحات کا بھی تعین کرنا ہوگا۔نئے عالمی اور علاقائی بلاکس اور نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ایسے میں ہمارا داخلی سیاسی خسارہ اور حالات کا درست تجزیہ نہ کرنا یا اپنی ترجیحات کے تعین میں مختلف نوعیت کی داخلی سطح کی کمزوریاں ہمارا مقدمہ خراب کرسکتی ہیں۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ایسی عالمی یا علاقائی پالیسیوں سے گریز کیا جائے جو ہمیں داخلی سیاست میں اور زیادہ کمزور کرنے کا سبب بن سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: امریکی کانگریس میں پاکستان تعلقات میں پاکستان کو پاکستان کے کے ساتھ ہیں اس
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
لاہور:سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ سویلینز پر جو حملہ ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے، میں شہریوں کہ مرنے پر ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کو دیکھنا یہ پڑے گا کہ پاکستان میں شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کیا اسی طرح انڈین فارن آفس نے مذمت کی ہے؟، پاکستان کی وزارت خارجہ نے تو مذمت کی ہے تو ایک فرق ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں جب ٹرین سے اتارے گئے تھے لوگ، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر ان کو مارا گیا تھا تو دنیا سے تعزیت کے پیغامات آئے، میرا خیال تھا کہ بھارت سے بھی آئیں گے مجھے یا د نہیں آپ کو یاد ہے تو مجھے یاد کرا دیں،
تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ کئی لحاظ سے بڑا سادہ اور کئی لحاظ سے بڑا پیچیدہ موضوع ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کی مقبولیت جو ہے اس کی بنیاد کیا ہے، اس کی بنیاد یہ تو نہیں ہے کہ جس پر ہم سارے کم و بیش متفق ہیں کہ عمران خان سیاسی طور پر پاکستان کے انتہائی مقبول رہنما ہیں تو کیا انھوں نے کشمری فتح کیا تھا؟،کشمیر تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے دے دیا تھا 5 اگست 2019 کو، عمران خان کے پاس سمجھ بوجھ کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں لیکن سیاسی داؤ پیچ، سیاسی حکمت عملی میں وہ صفر بٹا صفر ہیں۔
تجزیہ کار محسن بیگ مرزا نے کہا کہ بیسیکلی آپ نے جو کرائم کیا ایکٹ کیا وہ سب کے سامنے ہے اس میں یہ کہناکہ پروف لائیں وڈیو لائیں تو نیچرلی جب کیس چلیں گے تو پروف بھی آجائیں گے اور جو ایویڈنس ہے وہ بھی مل جائے گی لیکن بیسک چیز یہ ہے کہ اگر آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے اس لیول پر جو اپنے آپ کو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاکستان کے بڑے ہی پاپولر لیڈر ہیں تو آپ کو ایڈمٹ کرنا چاہیے کہ آپ نے اداروں کیخلاف ایسا ماحول یونیورسٹیوں اور کالجوں میں جا کر بنایا نوجوان نسل کو اتنا ورغلایا کہ شاید کوئی دشمن بھی یہ کام نہ کر سکے تو اس پر آپ کو ریلائز کرنا چاہیے یہ ملک آپ کو ملا پونے چار سال، آپ اس کو نہیں چلا سکے۔
تجزیہ کار نصر اللہ ملک نے کہا کہ میں پہلے دن سے سمجھتا ہوں میری یہ رائے ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست مذاکرات کا آغاز کبھی نہیں ہوا، کبھی کبھی کچھ باتیں سامنے آ جاتی ہیں علی امین گنڈاپور پیغام لیکر گئے اعظم سواتی پیغام لیکر گئے اس میں حقیقت ایسی نہیں ہے خواہشات کا اظہار ضرور ہوتا رہا ہے، پیغامات بھجوائے جاتے رہے ہیں ابھی بھی جو ڈیلیگیشن ملا، اس نے جا کر جو بات چیت کی، یہی کہا کہ عمران خان صاحب کے ساتھ مذاکرات ہونے چاہییں پھر جو پیغامات بجھوائے گئے عمران خان صاحب نے بھی پیغامات بجھوائے ہیں۔