اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2025ء) امریکہ میں مقیم محققین کا ایک گروپ جون سے ایک فرانسیسی یونیورسٹی میں کام شروع کرنے والا ہے، کیونکہ سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے متعارف کرائی گئی بڑے پیمانے پر کٹوتیوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

فرانس کی ایکس مارسے (Aix-Marseille) یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نے ’’سائنس کے لیے محفوظ جگہ‘‘ کی جس اسکیم کا اعلان کیا تھا، وہ درخواست دہندگان سے اب پوری طرح بھر چکی ہے۔

یہ اسکیم مارچ میں ایسے امریکی سائنس دانوں کے لیے متعارف کرائی گئی تھی، جن کو امریکہ میں اعلیٰ تعلیمی شعبے میں کٹوتیوں کے سبب خطرات لاحق ہو گئے تھے۔

ٹرمپ کی پالیسیاں سائنسدانوں کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں

فرانسیسی یونیورسٹی نے کیا کہا؟

اس فرانسیسی یونیورسٹی نے ’’سائنس کے لیے محفوظ جگہ‘‘ کی اسکیم کا اعلان صحت، جنسی مطالعے، طب، وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے شعبوں کے امریکہ میں کام کرنے والے سائنسدانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کیا تھا۔

(جاری ہے)

اس اعلیٰ تعلیمی اور تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ اسے اپنے اس پروگرام کے لیے 298 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 242 کو اہل سمجھا گیا اور اب یہ درخواستیں زیر غور ہیں کیونکہ فی الحال صرف 20 آسامیاں ہی دستیاب ہیں۔ ان درخواست دہندگان میں سے 135 امریکی شہری اور 45 ماہرین دوہری شہریت کے حامل ہیں۔

امریکہ ہوا کے معیار سے متعلق معلومات بھی اب نہیں دے گا

ایکس مارسے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ایرک بیرتوں نے کہا، ’’ہمارے ساتھی خوفزدہ تھے اور اس موقع پر ان کے لیے کھڑا ہونا ہمارا فرض تھا۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ 10 دیگر یورپی یونیورسٹیوں نے بھی اسی طرح کے پروگرام شروع کرنے کے لیے ان سے رابطے کیے ہیں۔

یونیورسٹی ڈائریکٹر ایرک بیرتوں مزید امریکی محققین کو فرانس اور یورپ لانے کی اجازت دینے کے لیے ایک ’’ریفیوجی سائنسدان‘‘ نامی پروگرام متعارف کرانے کی وکالت بھی کر رہے ہیں۔ ماضی میں ایک فرانسیسی صدر، فرانسوا اولاند نے بھی اس طرح کی ایک اسکیم کی حمایت کی تھی۔

سن دوہزار پچاس تک دنیا بھر میں چالیس فیصد نوجوان نظر کی کمزوری کا شکار ہو سکتے ہیں

یورپ باصلاحیت ماہرین کو اپنی طرف راغب کرنے کا خواہاں

امریکہ میں مقیم بہت سے ماہرین تعلیم اپنے روزگار اور اپنی ریسرچ کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے تناظر میں بحر اوقیانوس کے دوسری طرف منتقل ہونے پر غور کر رہے ہیں اور یورپ بھی اس وقت اپنے لیے ایک اہم موقع کی دستیابی کو واضح طور پر محسوس کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمنی، فرانس اور اسپین سمیت کم از کم 13 یورپی ریاستوں نے مارچ میں ایک مکتوب لکھا تھا، جس میں یورپی کمیشن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ باصلاحیت اور باہنر ماہرین تعلیم کو یورپ کی طرف راغب کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھے۔

طب کے شعبے میں نوبل انعام، امریکی سائنسدانوں کی جوڑی کے نام

یورپی یونین کا ایک ادارہ ’یورپی ریسرچ کونسل‘ سائنسی تحقیق کے لیے مالی معاونت کرتا ہے۔

اس ادارے نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ اس نے یورپی یونین میں منتقل ہونے والے محققین کے لیے مختص ’نقل مکانی بجٹ‘ کو دوگنا کر دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جرمنی بھی ایک ہزار محققین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش میں

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمنی کی آئندہ مخلوط حکومت کی تشکیل سے متعلق سیاسی مذاکراتی دستاویزات کو دیکھنے کے بعد اطلاع دی ہے کہ ان دستاویزات میں ایسے 1,000 محققین کو جرمنی کی طرف راغب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

جرمنی کے ممکنہ آئندہ چانسلر فریڈرش میرس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا، ’’امریکی حکومت اس وقت امریکہ میں یونیورسٹیوں کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کر رہی ہے اور اسی وجہ سے امریکہ میں ماہرین اور محققین اب یورپ سے رابطہ کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔‘‘

کیا یورپ سائنسی مرکز کے طور پر امریکہ کی جگہ لے سکے گا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تعلیمی اور تحقیقی شعبوں میں فنڈز کی کٹوتیوں کے سبب ییل، کولمبیا اور جان ہوپکنز جیسی دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے بہت سے ماہرین تعلیم متاثر ہو رہے ہیں۔

اس وجہ سے بھی یورپ کی ان امیدوں میں اضافہ ہوا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں علم و تحقیق کے غیر یورپی ماہرین کو زیادہ بڑی تعداد میں اپنے ہاں آنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔

تاہم بہت سے حلقوں کا یہ استدلال بھی ہے کہ امریکہ میں مالی کٹوتیوں اور یورپ کی جانب سے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کے باوجود، امریکہ اور یورپ میں یونیورسٹیوں کے اخراجات کے درمیان جو بہت بڑی خلیج ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ جمود اتنی جلدی نہیں ٹوٹے گا۔

امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں جیو سائنسز اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر مائیکل اوپن ہائمر نے روئٹرز کو بتایا، ’’میں ایسی کسی اضافی سائنسی صلاحیت میں تیز رفتار اضافے کی پیش گوئی نہیں کر سکتا، جو فی الوقت امریکہ کے پاس کئی دہائیوں سے موجود صلاحیت کا مقابلہ کر سکے۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ماہرین تعلیم امریکہ میں اور یورپ رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

نسل کشی یا جنگی جرم؟ فرانسیسی عدالت میں غزہ بمباری پر تاریخی مقدمہ شروع

فرانس کے انسدادِ دہشتگردی پراسیکیوٹرز نے غزہ میں امداد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات پر "نسل کشی میں معاونت" اور "نسل کشی پر اکسانے" کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ 

ان الزامات کا تعلق مبینہ طور پر فرانسیسی نژاد اسرائیلی شہریوں سے ہے جنہوں نے گزشتہ سال امدادی ٹرکوں کو غزہ پہنچنے سے روکا تھا۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ مقدمات ہیں، جن میں انسانیت کے خلاف جرائم میں ممکنہ معاونت کے الزامات بھی شامل ہیں۔ تحقیقات جنوری تا مئی 2024 کے واقعات پر مرکوز ہیں۔

یہ پہلا موقع ہے کہ فرانسیسی عدلیہ نے غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی باقاعدہ تفتیش شروع کی ہے۔

پہلی شکایت یہودی فرانسیسی یونین برائے امن (UFJP) اور ایک فرانسیسی-فلسطینی متاثرہ شخص نے دائر کی، جس میں شدت پسند اسرائیلی حمایتی گروپوں "Israel is forever" اور "Tzav-9" کے افراد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے نیتزانا اور کیرم شالوم بارڈر کراسنگ پر امدادی ٹرکوں کو روکا۔

دوسری شکایت "Lawyers for Justice in the Middle East (CAPJO)" نامی وکلا تنظیم نے جمع کروائی، جس میں تصاویر، ویڈیوز اور عوامی بیانات کو بطور ثبوت شامل کیا گیا۔

اسی روز ایک علیحدہ مقدمہ بھی منظر عام پر آیا، جس میں ایک فرانسیسی دادی نے الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں ان کے چھ اور نو سالہ نواسے نواسی کو بمباری میں قتل کیا، جسے انہوں نے "نسل کشی" اور "قتل" قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔

واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف (ICJ) نے اپنے حالیہ فیصلوں میں اسرائیل کو پابند کیا تھا کہ وہ غزہ میں ممکنہ نسل کشی کو روکے اور امدادی سامان کی رسائی یقینی بنائے۔

 

متعلقہ مضامین

  • امریکہ میں مبینہ حملے کا منصوبہ، پاکستانی شخص کینیڈا سے امریکہ کے حوالے
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطلی درخواستوں پر سماعت کرنے والے بنچ کے جسٹس آصف رخصت پر چلے گئے
  • امریکہ میں انارکی کی اجازت نہیں دی جائے گی، صدر ٹرمپ کا دوٹوک اعلان
  • جب بھی کھانا کھانے بیٹھیں، پہلے یہ کام کرلیں، وزن کم ہوجائے گا
  • امریکی صدر کا 12 ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندی کا فیصلہ نافذ العمل
  • امریکہ اور چین کے درمیان لندن میں تجارتی مذاکرات، کشیدگی کم کرنے کی کوشش
  • چین نے تاریخی عمارت کو بخوبی دوسری جگہ منتقل کردیا، ماہرین کا اب تک کا سب سے بڑا کارنامہ
  • نسل کشی یا جنگی جرم؟ فرانسیسی عدالت میں غزہ بمباری پر تاریخی مقدمہ شروع
  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • آئی این ایف معاہدہ ختم، روس کی جانب سے میزائل پابندی ختم کرنے کا عندیہ