اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جولائی 2025ء) عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ ایشیا اور امریکہ میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات اور ان کی زد پر موجود لوگوں کو قدرتی آفات سے بروقت آگاہی کے نظام مہیا کرنے کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔

ادارے نے کہا ہے کہ رواں ماہ دونوں خطوں میں شدید بارشوں اور سیلاب سے بڑے پیمانے پر معاشی تباہی کے علاوہ انسانی نقصان بھی ہوا۔

براعظم ایشیا میں انڈیا، نیپال، پاکستان اور جنوبی کوریا ان حالات سے بری طرح متاثر ہوئے جہاں سیکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ دوسری جانب، امریکہ میں ریاست ٹیکساس اور نیو میکسیکو میں سیلاب کے باعث 100 سے زیادہ جانوں کا ضیاع ہوا۔

آج چین کے جنوبی حصوں میں آنے والے طوفانوں کے نتیجے میں اچانک سیلاب اور پہاڑی تودے گرنے کے بارے میں انتباہ جاری کیا گیا ہے جبکہ ایک روز قبل وِپھا طوفان نے ہانگ کانگ کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا تھا۔

(جاری ہے)

بڑھتی حدت سے تباہی

'ڈبلیو ایم او' نے کہا ہے کہ اچانک آنے والے سیلاب کوئی نئی چیز نہیں تاہم شہروں کے تیزی سے پھیلنے، زمین کے استعمال میں تبدیلی اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث کئی خطوں میں ان کی رفتار اور شدت بڑھتی جا رہی ہے۔

ادارے میں آبیات، پانی اور برفانی سطح زمین سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر سٹیفن اولنبروک نے کہا ہے کہ ان حالات کو پیدا کرنے میں بڑھتی حدت کا اہم کردار ہے کیونکہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں ایک ڈگری سیلسیئس اضافے کے نتیجے میں مزید سات فیصد پانی بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اس طرح مزید شدید بارشوں کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گرم موسم کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنے اور اس طرح سیلاب آنے کے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ایسے حالات میں انسانی زندگی، بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو تحفظ دینے کے لیے قدرتی آفات سے بروقت آگاہی فراہم کرنے کے نظام کی اہمیت کہیں بڑھ گئی ہے جسے ہر جگہ دستیاب ہونا چاہیے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے نے کہا ہے کہ

پڑھیں:

ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا

ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا WhatsAppFacebookTwitter 0 2 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس )ماحولیاتی اور آفات سے متعلق صحافت کے موضوع پر دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ اتوار کے روز سی ایس ایس انسٹیٹیوٹ اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگئی۔ یہ ورکشاپ ProtectEarth Consultants کے زیر اہتمام، CSS Institute، Momentum Development Foundation اور Resilient Future International کے اشتراک سے منعقد ہوئی، جس میں ملک بھر سے سینئر صحافیوں، سرکاری نمائندوں، ماہرینِ تعلیم اور نئے ابھرتے صحافیوں نے شرکت کی۔ ورکشاپ کا مقصد صحافیوں کو ماحولیات، قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم موضوعات پر موثر اور ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لیے جدید علم و مہارت فراہم کرنا تھا۔تقریبِ افتتاح کے مہمانِ خصوصی ڈاکٹر احمد علی سیروہی، ڈائریکٹر جنرل، کرائسس مینجمنٹ یونٹ، وزارتِ خارجہ، حکومتِ پاکستان تھے۔ اپنے کلیدی خطاب میں ڈاکٹر سیروہی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی آفات دنیا بھر میں انسانی اور سکیورٹی منظرنامے کو تیزی سے بدل رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب Networks of Power: From Sindh to Silicon Valley کا بھی تعارف کرایا، جس میں انہوں نے گورننس اور ٹیکنالوجی کے باہمی تعلقات کو عالمی بحرانوں کے تناظر میں بیان کیا۔ProtectEarth Consultants کے چیف ایگزیکٹو محمد عظمت قاضی نے اپنے خیرمقدمی خطاب میں سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے ذاتی تجربات شیئر کیے۔ انہوں نے دی گارڈین (برطانیہ) کے بین الاقوامی صحافی گیڈیون مینڈل کے ساتھ اپنی شراکت داری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مقامی صحافیوں کو بحرانوں کی رپورٹنگ میں پہلا اور درست ردِعمل دینے والا بننے کے لیے اپنی صلاحیتیں بہتر بنانی چاہئیں۔ ان کی پریزنٹیشن Environmental and Disaster Journalists ke liye Taleem aur Tajurba نے قدرتی آفات، ہنگامی صورتحال اور ابتدائی ردعمل کے فرق کو واضح کیا۔ورکشاپ کے پہلے روز ڈاکٹر زاغم عباس، ڈائریکٹر، پاکستان انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (وزارتِ موسمیاتی تبدیلی) نے پلاسٹک و فضائی آلودگی اور واٹر ٹریٹمنٹ ٹیکنالوجیز پر تفصیلی لیکچر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک کچرے اور ترک شدہ مچھلی کے جالوں کی وجہ سے سمندری حیات شدید متاثر ہو رہی ہے۔ اسی روز علی جابر ملک، صدر، انورائنمنٹل جرنلسٹس فورم (EJF) نے شدید موسمیاتی تباہ کاریوں کے دوران ماحولیاتی و آفات سے متعلق رپورٹنگ پر بات کی۔

انہوں نے زور دیا کہ ہر ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافی کو تربیت یافتہ ہونا چاہیے تاکہ وہ متاثرہ علاقوں میں جذباتی استحکام اور پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ جا سکے۔سیشنز میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں سائنسی فہم، اخلاقیات اور ڈیٹا پر مبنی ماحولیاتی رپورٹنگ کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ورکشاپ کے دوسرے روز شرکا نے مستقبل کی منصوبہ بندی اور موسمیاتی ابلاغ کے سماجی پہلوں پر غور کیا۔ آفتاب عالم خان، سی ای او Resilient Future International نے کلائمیٹ چینج اور صحافیوں کے لیے چیلنجز و مواقع کے عنوان سے خطاب کیا۔ انہوں نے ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ میں درپیش مسائل کے حل کے لیے مختلف عملی حکمتِ عملیاں پیش کیں اور سوال و جواب کے سیشن میں شرکا کے تمام سوالات کے جوابات تفصیل سے دیے۔رومانہ جبین، ماہرِ عمرانیات، جامعہ کراچی نے نقشِ کمزوری کی کہانی: ماحولیاتی و آفات کی صحافت میں سماجیاتی بصیرت کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹنگ کا مرکز انسانی تحفظ ہونا چاہیے اور کسی کو بھی پیچھے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ان کا سیشن انسانی ہمدردی اور ذمہ دارانہ صحافت کے لیے نہایت اہم قرار پایا۔اختتامی اجلاس میں محمد عظمت قاضی نے مستقبل کا لائحہ عمل 2026 پیش کیا، جس میں انہوں نے پیشگی انتباہ پر مبنی صحافت (Preventive Journalism) کو فروغ دینے پر زور دیا تاکہ کسی آفت کے آنے سے پہلے ہی بروقت آگاہی اور تیاری ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا،ذمہ دار ماحولیاتی صحافت صرف حقائق بیان کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ انسانی جانیں بچانے کا فریضہ ہے۔قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ آئندہ ورکشاپ کراچی میں شراکت دار اداروں کے ساتھ منعقد کی جائے گی۔ورکشاپ کے اختتام پر نمایاں مہمانوں نے شرکا میں اسناد تقسیم کیں۔ اس موقع پر Momentum Development Foundation نے بطور میڈیا و ٹیکنالوجی پارٹنر تقریب کو عالمی سطح پر براہِ راست نشر کیا۔ غیرملکی شرکا کے لیے ای-سرٹیفیکیٹس بھی جاری کیے گئے۔تمام سیشنز کو یوٹیوب پر اوپن سورس تعلیمی مواد کے طور پر اپلوڈ کیا جائے گا تاکہ ماحولیاتی صحافت سے وابستہ افراد مسلسل استفادہ کر سکیں۔ورکشاپ نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کیا کہ پاکستان میں صحافی ماحولیاتی تبدیلی، آفات کے خطرات، اور پالیسی امور کے بارے میں عوامی شعور بیدار کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں اور یہ شعوری، ہمدردانہ رپورٹنگ ہی ملک کی پائیدار اور محفوظ مستقبل کی بنیاد ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل بین الاقوامی میڈیا کیلئے مشرف زیدی وزیراعظم کے ترجمان مقرر،نوٹیفکیشن جاری گلگت بلتستان جرنلسٹ فورم کے زیر اہتمام جی بی کے78ویں یوم آزادی کی تقریب پی پی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے، حافظ نعیم مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی اور پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی ملاقات پاکستان سے اب تک 8لاکھ 28 ہزار سے زائد افغان مہاجرین وطن واپس چلے گئے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • سعودی خواتین کے تخلیقی جوہر اجاگر کرنے کے لیے فورم آف کریئٹیو ویمن 2025 کا آغاز
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • گھر سے خاتون کی کمبل میں لپیٹی گلا کٹّی لاش برآمد
  • کراچی میں واقع گھر سے گلا کٹی لاش برآمد
  • بچوں کا ٹیلنٹ اجاگر کرنے پر  پاک فوج کو سلام: شاہد آفریدی
  • نیویارک میں طوفانی بارش سے ہلاکتیں
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے شہید عادل حسین کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، علامہ صادق جعفری
  • ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری
  • قومی ائیرلائن کے پرسیشن انجینیئرنگ شعبے کو پاک فضائیہ کے ذیلی ادارے کے حوالے کرنے کی منظوری دیدی گئی