چیف جسٹس نے ججز کے تبادلوں پر رضامندی ظاہر کی تھی: رجسٹرار سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں آئینی بینچ کے روبرو رجسٹرار سپریم کورٹ کی جانب سے جواب جمع کروادیا گیا۔
ڈان نیوز کے مطابق جواب میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کی شق ایک کے تحت صدر مملکت جج کا تبادلہ کرسکتا ہے۔رجسٹرار سپریم کورٹ کے جواب میں آئینی بینچ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وزارت قانون کی جانب سے ٹرانسفر سے پہلے یکم فروری کو چیف جسٹس سے رائے طلب کی گئی تھی، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے ججز ٹرانسفر پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
رجسٹرار سپریم کورٹ کے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے یکم فروری کو چیف جسٹس کی رضامندی طلب کی تھی، چیف جسٹس نے اسی روز ججز ٹرانسفر پر رضامندی کا جواب بھیجا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کیس میں جوڈیشل کمیشن نے بھی اپنا جواب سپریم میں جمع کروا دیا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا مینڈیٹ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں دیا گیا ہے، جوڈیشل کمیشن کی بنیادی ذمہ داری سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور فیڈرل شریعت عدالتوں میں ججز کی تقرری ہے۔
جوڈیشل کمیشن کے جواب میں کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس ججز کے تبادلے سے متعلق ہے، ججز کے تبادلوں میں آئین کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا کوئی کردار نہیں۔
سیکرٹری جوڈیشل کمیشن نیاز محمد کی جانب سے جواب جمع کروایا گیا ہے۔
گندم کی فصل میں حصہ کم ملنے پر بیوی نے تشدد کر کے شوہر کو قتل کردیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: رجسٹرار سپریم کورٹ جواب میں کہا گیا جوڈیشل کمیشن اسلام آباد گیا ہے کہ چیف جسٹس ججز کے
پڑھیں:
نور مقدم قتل کیس: مجرم ظاہر جعفر نے نظرثانی درخواست دائر کردی
فوٹوفائلنور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کردی۔
مجرم ظاہر جعفر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے ظاہر جعفر کی ذہنی حالت کا تعین نہیں کرایا، سزائے موت دینے کے لیے ویڈیو ریکارڈنگ پر انحصار کیا گیا۔
درخواست کے مطابق ویڈیوز ٹرائل کے دوران درست ثابت بھی نہیں کی گئیں حتیٰ کہ ملزم کو ویڈیو ریکارڈنگ فراہم بھی نہیں کی گئی۔
اسلام آباد کی نور مقدم کو ہم سے بچھڑے 4 برس بیت گئے۔ تاہم نور مقدم قتل کیس کے مجرم کو اب بھی سزا نہیں دی گئی۔
دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ ٹرائل کے دوران کبھی وہ ویڈیوز چلا کر بھی نہیں دیکھی گئیں، فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا، فیصلے پر نظرثانی کی ٹھوس وجوہات ہیں۔
سزا یافتہ مجرم کی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست دی لیکن عدالت نے متفرق درخواست پر فیصلہ نہیں دیا۔