پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ، ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار اسپتال لے جایا جاتا ہے، وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑتا ہے، وہ پوپ فرانسس ہے۔ ویٹیکن کے عالی شان محل میں رہنے والا لیکن دل سے فقیروں کا ساتھی، زبان سے مظلوموں کی آواز اور عمل سے ایک نئی روایت کا آغازکرنے والا۔
اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ جنگ نہیں قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے۔ یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔
پوپ فرانسس کا اصل نام خورخے ماریو بیرگولیو ہے۔ وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوا۔ کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آیا جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔ اُس نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا۔ اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔
وہ ایک ایسی دنیا کا داعی ہے جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں، وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔
جب وہ پوپ منتخب ہوا تو اس نے اپنا لقب’’ فرانسس‘‘ رکھا جو سینٹ فرانسس آف اسّیسی کی یاد میں تھا، وہ درویش پادری جو فقیری میں جیتا تھا، پرندوں سے بات کرتا تھا اور جنگ کے خلاف کھل کر بولتا تھا۔ پوپ فرانسس نے اسی روایت کو اپنایا۔ اس نے ویٹیکن کے محلات میں رہنے سے انکار کیا، ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام کیا، عام گاڑی استعمال کی اور قیمتی جوتوں، گھڑیوں اور زیورات سے گریزکیا۔ اس نے نہ صرف کہا بلکہ عمل سے دکھایا کہ مذہب کی اصل طاقت اخلاقی سچائی میں ہے نہ کہ شان و شوکت میں۔
پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب اسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے۔ اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتلِ عام ہے۔ یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘
جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاعِ اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں،جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے، تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا۔وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔
وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے، لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے۔ یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔
ہم مسلم دنیا میں اکثر خود کو مظلوموں کا وکیل سمجھتے ہیں لیکن جب وقت آتا ہے تو ہماری زبانیں سوکھ جاتی ہیں۔ ہم اپنے تجارتی معاہدے اپنے خارجہ تعلقات اور اپنی کرسیوں کو مظلوموں کے خون پر ترجیح دیتے ہیں۔ پوپ فرانسس ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ مذہب کا اصل جوہر کیا ہے۔ وہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم ظالم کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو ہمارا ایمان محض رسم ہے روح نہیں۔
پوپ فرانسس کی اپنی صحت بھی ان دنوں کمزور ہے۔ اسے کئی بار سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا ،اسپتال میں داخل کیا گیا، آپریشن ہوئے لیکن جیسے ہی وہ اسپتال سے باہر نکلا ،اس نے دنیا کے زخموں کو اپنی صحت پر ترجیح دی۔ وہ پھر سے کیمروں کے سامنے آیا اور کہا کہ ہمیں غزہ کے بچوں کے لیے دنیا کے مظلوموں کے لیے اور انسانیت کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔
انھیں زندہ رہنا چاہیے کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز ہے۔ ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں۔ ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد۔ جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔
اس دنیا میں جہاں ہر دوسرا مذہبی پیشوا سیاست دانوں کا ترجمان بنا ہوا ہے، جہاں روحانیت طاقت کی غلامی بن چکی ہے، وہاں پوپ فرانسس ایک مختلف روایت کا پرچم بردار ہے۔ وہ جس سوچ کا حامی ہے، اس میں وہ تنہا نہیں ہے مگر وہ سوچ بہت سوں کی نہیں ہے۔
وہ جو ویٹیکن کی دیواروں سے نکل کر مہاجر کیمپوں میں جاتا ہے، وہ جو عبادت گاہوں سے نکل کر میدانِ سچ میں آتا ہے، وہ جو خاموشی کو توڑتا ہے۔اس کی زندگی اس کی زبان اس کا طرزِ قیادت ہمیں بتاتا ہے کہ انسانیت اب بھی زندہ ہے اگر ہم اسے سننا چاہیں اگر ہم اسے اپنانا چاہیں۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر ہمارے مذہبی رہنماؤں کے لیے پوپ فرانسس کی زندگی ایک سبق ہے۔ وہ سبق جو ہمیں مذہب کی اصل روح سے جوڑتا ہے اور بتاتا ہے کہ اگر دل زندہ ہو تو ضمیر بولتا ہے اور جب ضمیر بولتا ہے تو دنیا کی خاموشی ٹوٹتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پوپ فرانسس کے لیے ا کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
صرف 22 سال کی عمر میں 3نوجوانوں کو دنیا کے کم عمر ترین ارب پتی بننے کا اعزاز حاصل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا بھر میں نوجوانوں کے لیے یہ خبر کسی خواب کی تعبیر سے کم نہیں کہ صرف 22 سال کی عمر میں تین دوستوں نے اپنی ذہانت، محنت اور ٹیکنالوجی کے شوق سے ارب پتی بننے کا ریکارڈ قائم کر دیا۔
ان تینوں نے امریکی شہر سان فرانسسکو میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متعلق اپنی کمپنی Mercor کی بنیاد رکھی، جو چند ہی برسوں میں دنیا کی معروف اے آئی ریکروٹنگ کمپنیوں میں شمار ہونے لگی۔
فوربز کی تازہ رپورٹ کے مطابق Mercor کے شریک بانی برینڈن فوڈی، آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ اب دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئرز بن چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان تینوں کی عمر صرف 22 برس ہے، یعنی اس عمر میں جب زیادہ تر لوگ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرتے ہیں، یہ تینوں نوجوان اپنے خوابوں کی سلطنت قائم کر چکے ہیں۔
Mercor نے حال ہی میں 35 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کی ہے، جس کے بعد کمپنی کی مجموعی مالیت 10 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کمپنی کی اس زبردست ترقی نے نہ صرف ٹیکنالوجی کی دنیا کو حیران کیا بلکہ ان تینوں بانیوں کو براہِ راست ارب پتیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
آدرش ہیرمیت اور سوریا مدھیہ کی دوستی سان فرانسسکو کے Bellarmine College Preparatory میں ہوئی تھی، جہاں دونوں نے تقریری مقابلوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ سوریا کے والدین بھارت سے امریکا منتقل ہوئے تھے جب کہ ان کی پیدائش امریکا میں ہوئی۔ دوسری جانب آدرش تعلیم کے لیے بھارت سے امریکا گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ان دونوں کی ملاقات بعد میں برینڈن فوڈی سے اس وقت ہوئی جب آدرش ہارورڈ یونیورسٹی اور سوریا جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہے تھے۔ تینوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ کر Mercor کی بنیاد رکھی اور چند ہی برسوں میں اپنی محنت سے دنیا کو حیران کر دیا۔
انہیں معروف سرمایہ کار پیٹر تھیل نے اپنی فیلوشپ کے ذریعے مالی معاونت فراہم کی، جس کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم کے بجائے عملی اختراع کی ترغیب دینا تھا۔ آدرش کے مطابق میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چند ماہ قبل میں محض ایک طالب علم تھا اور آج میری زندگی مکمل طور پر بدل چکی ہے۔
ان سے پہلے 27 سالہ پولی مارکیٹ کے بانی شین کوپلن دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ بلینئر قرار پائے تھے جب کہ اس سے قبل اسکین اے آئی کے بانی الیگزینڈر وانگ یہ اعزاز 18 ماہ تک سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی شریک بانی لوسی گیو 30 سال کی عمر میں دنیا کی کم عمر ترین سیلف میڈ خاتون ارب پتی بنی تھیں۔
کامیابیوں کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ تخلیقی سوچ، ٹیکنالوجی اور جرات مندانہ فیصلے نوجوان نسل کے لیے دنیا کے دروازے کھول سکتے ہیں ۔