Express News:
2025-04-25@02:41:24 GMT

ڈیتھ بیڈ

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اﷲ تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر رکھی تھی‘ وہ جس سے بات کرتا تھا‘ وہ اپنااکاؤنٹ اس کی کمپنی کے حوالے کر دیتا تھا‘ ٹام روز کمپنی کے سرمائے میں ایک دو ملین ڈالر کا اضافہ کر تا تھا‘ کمپنی اس سے خوش تھی اور وہ کمپنی سے بہت خوش تھا۔ 

ٹام کا لنچ فائیو اسٹار فرنچ‘ اٹالین اور مراکو ریستورانوں میں ہوتا تھا‘ لنچ کا بل کمپنی ادا کرتی تھی‘ کمپنی نے اس کے دوسرے اخراجات بھی اٹھا رکھے تھے‘ گاڑی کمپنی نے دی‘ مین ہیٹن میں تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی کمپنی نے دیا تھا‘ وہ کمپنی کا جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتا تھا‘ کمپنی فرسٹ کلاس فضائی ٹکٹ بھی دیتی تھی‘ تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی اور ٹام کے پورے خاندان کی میڈیکل انشورنس بھی کمپنی کے ذمے تھی۔ 

شام چھ بجے اس کی ذاتی مصروفیات شروع ہو جاتی تھیں‘ وہ کلب جاتا تھا‘ وہاں نئے دوست بناتا تھا‘ یہ نئے دوست آنے والے دنوں میں اس کے کلائنٹ بنتے تھے‘ وہ ڈنر بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کسی فائیو اسٹار بزنس مین کے ساتھ کرتا تھا‘ دس بجے کے بعد وہ کسی اعلیٰ درجے کے پب یا رقص گاہ میں چلا جاتا تھا‘ وہ دو گھنٹے وہاں رہتا تھا‘ بارہ بجے واپس آتا تھا تو اس کی بیگم اور تینوں بچے سو چکے ہوتے تھے‘ وہ بھی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ جاتا تھا‘ اگلی صبح آٹھ بجے پھر کام شروع ہو جاتا تھا۔ 

یہ سلسلہ جمعہ تک چلتا تھا‘ وہ جمعہ کی شام کمپنی کا جیٹ جہاز لے کر نیویارک سے باہر چلا جاتا تھا‘ کبھی شکاگو‘ کبھی آرلینڈو‘ کبھی میامی‘ کبھی سان فرانسسکو اور کبھی ہونولولو۔ وہ مہینے میں ایک بار یورپ‘ مڈل ایسٹ یا مشرق بعید کا چکر بھی لگا تا تھا‘ مارتھا اس کی بیوی یورپ اور فارایسٹ کی وزٹس میں اس کے ساتھ ہوتی تھی‘ یہ اس کے معمولات تھے‘ اﷲ نے جوانی ہی میں اسے نعمتوں سے نواز دیا تھا‘ پیسہ تھا‘ دوست تھے‘ توانائی تھی‘ فیملی تھی اور نصف درجن کریڈٹ کارڈ ۔ ٹام کی زندگی شاندار تھی لیکن پھر اسکو نظر لگ گئی۔

 ٹام ایک صبح اٹھا تو اس کا سر بھاری تھا‘ اس نے اس بھاری پن کو رات کی شراب نوشی کے کھاتے میں ڈال دیا‘ اس نے ’’ہینگ اوور‘‘ سمجھ کر اپنا سر جھٹک دیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھاری پن درد بن گیا‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے اسے درد کش گولیاں دیں اور گھر بھجوا دیا لیکن درد میں افاقہ نہ ہوا‘ وہ رات بے چینی اور بے آرامی میں گزری‘ وہ اگلی صبح دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ 

ڈاکٹر نے خون چیک کرانے کا مشورہ دیا‘ وہ لیبارٹری چلا گیا‘ بلڈ رپورٹس آئیں توڈاکٹر نے خون کے مزید دو نمونے لیے اور یہ دو مختلف لیبارٹریوں میں بھجوا دیے‘ ہفتے بعد رپورٹس آ گئیں‘ تینوں لیبارٹریوں کی رپورٹ ایک جیسی تھیں‘ ڈاکٹر نے اس سے مزید دو دن مانگے اور اسکی رپورٹس ملک کے تین بڑے اسپیشلسٹس کو بھجوادیں‘ تینوں کا ایک ہی جواب تھا‘ معجزے کے علاوہ مریض کا کوئی علاج نہیں‘پھر ڈاکٹر نے اسے بلایا‘ کرسی پر بٹھایا‘ پانی کا گلاس اسکے ہاتھ میں دیا اور سرجھکا کر بولا ’’ٹام تمہارے پاس صرف تین ماہ ہیں‘‘۔

ٹام کے طوطے اڑ گئے‘ اس نے گھبرا کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ ڈاکٹر نے بتایا ’’تم بلڈ کینسر کی آخری اسٹیج پر ہو‘ اس اسٹیج کا معجزے کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا‘ تمہارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ تم یہ تین مہینے مختلف ڈاکٹروں اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگا کر گزار دو یا پھر ان تین ماہ کو اپنی زندگی کے بہترین دن رات بنا لو‘ چوائس از یورز‘‘۔

یہ لفظ بم تھے اور ان بموں نے ٹام کی بنیادیں ہلا دیں‘ وہ اٹھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا‘ وہ دماغی طور پر غائب ہو چکا تھا‘ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن اسے نظر کچھ نہیں آ رہا تھا‘ وہ کانوں سے سن رہا تھا لیکن اسے سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چل رہا تھا لیکن اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے‘ وہ دس منٹ میں کامیاب لوگوں کی فہرست سے ناکام ترین لوگوں میں شامل ہو چکا تھا‘ وہ چلتا رہا‘ صبح تک پیدل چلتا رہا‘ اگلے دن کے سورج نے آنکھ کھولی تو ٹام کی آنکھ بھی کھل گئی۔ 

وہ بیخودی میں چلتے چلتے نیویارک سے باہر آ گیا‘ وہ نیویارک کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہ گاؤں کی مصنوعی جھیل کے کنارے کھڑا تھا‘ اس نے جھرجھری لی‘ ایک لمبا سانس لیا‘ اپنی ٹائی کھولی‘ اوورکوٹ کی جیب سے میڈیکل رپورٹس نکالیں‘ پھاڑیں‘ ڈسٹ بین میں پھینکیں اور ڈیتھ بیڈ کے تین ماہ کو آئیڈیل بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ فیصلے کے اس لمحے نے ٹام کی زندگی بدل دی۔

ٹام روز آسمان دیکھتا تھا‘ وہ زندگی میں سیکڑوں جھیلوں کے کناروں پر گیا‘ اس نے زندگی میں ہزاروں پھول بھی دیکھے اور اس نے کم وبیش اتنے ہی پرندوں کی آوازیں بھی سنی تھیں لیکن فیصلے کے اس ایک لمحے نے ان تمام آوازوں‘ پھولوں‘ جھیلوں اور آسمانوں کا رنگ بدل دیا‘ آسمان‘ جھیل‘ پھول اور آوازیں‘ کائنات کی ہر چیز خاص ہو گئی۔

اس کے حلق میں چالیس برس سے درج ذائقے زندہ ہو گئے‘ وہ ماں کے دودھ سے پچھلی رات کی شراب تک ہر نگلی چکھی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے لگا‘ وہ چالیس برس سے گھروں کی چمنیاں اور ان چمنیوں سے ابلتا دھواں دیکھ رہا تھا لیکن دھوئیں میں تین رنگ ہوتے ہیں‘ یہ اسے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا‘ وہ روز سانس لیتا آیا تھا‘ اس کے پھیپھڑے روزانہ سکڑتے اور پھیلتے تھے لیکن اس نے ہوا کے ذائقے‘ ہوا کی خوشبو کو پہلی بار محسوس کیا تھا۔ 

شبنم جب پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے تو وہ ایک خاص آواز میں احتجاج کرتی ہے‘ شبنم کا وہ احتجاج بھی اس نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا‘ آبی پرندے جب جھیل سے جدا ہوتے ہیں تو یہ جھیل کو بوندوں کی سلامی پیش کرتے ہیں‘ جدائی کی یہ سلامی بھی اس نے پہلی بار محسوس کی‘ وہ ہمیشہ فراری اور لیموزین میں سفر کرتا تھا۔ 

وہ طویل عرصے بعد بس اور ٹرین میں سوار ہوا‘اس نے پہلی بار ٹرین کی ٹک ٹک ٹھک ٹھک محسوس کی‘ وہ بچپن سے کافی پی رہا تھا لیکن کافی کا ذائقہ اسے پہلی بار محسوس ہوا‘ ہوا میں نمی بھی ہوتی ہے‘ اس کا احساس اسے پہلی بار ہوا‘ چلتے ہوئے قدموں کی آواز میں ایک ردھم‘ ایک موسیقی ہوتی ہے‘ یہ بھی اسے پہلی بار محسوس ہوا اور موبائل فون‘ نیوز چینلز‘ مہنگی گاڑیاں اورتعلقات یہ دنیا کی واہیات ترین چیزیں ہیں۔

یہ بھی اسے پہلی بار پتا چلا‘ وہ گھر پہنچا‘ اس نے بچوں کے چہرے دیکھے‘ اپنے کتے جیری کو غور سے دیکھااور بیوی کو نظر بھر کر دیکھا تو معلوم ہوا اصل خوشی تو یہ ہیں‘ اس نے اپنے بینک اکاؤنٹس دیکھے‘ کریڈٹ کارڈ کے بل پڑھے اور قسطوں پر خریدی چیزوں کا ڈیٹا دیکھا تو پتا چلا وہ آج تک بینکوں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور الیکٹرانکس بنانے والی کمپنیوں کے لیے پیسہ کماتا رہا تھا‘ اسے زندگی میں پہلی بار اپنے لان میں کھلے پھول اور میز پر پڑے سنگترے کی خوشبو محسوس ہوئی‘ اسے پہلی بار اپنی وارڈروب کے کپڑے اور جوتے اضافی لگے اور اسے گھر کی گراسری فضول خرچی محسوس ہوئی ۔

ٹام کی زندگی کا اگلادن بظاہر موت کی طرف ایک اور قدم تھا لیکن عملاً وہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا‘ اس نے زندگی کے اس پہلے دن جاب سے استعفیٰ دے دیا‘ کریڈٹ کارڈ توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے‘ بینک میں پڑی ساری دولت نکال لی‘ آدھی پر اپرٹی بیچ کر آدھی کی قسطیں ادا کر دیں‘پراپرٹی کو کرائے پر چڑھا دیا‘ بچوں کو اسکول سے چھٹی کرائی اور فیملی کو ساتھ لے کر لانگ ہالیڈیز پر نکل گیا۔ 

اس نے اپنے تمام مخالفوں‘ تمام دشمنوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی اور وہ لوگ جنھوں نے اس کا دل دکھایا تھا‘ ان سب کو صدق دل سے معاف کر دیا‘ اس نے وہ سو کتابیں بھی خرید لیں جنھیں وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا‘ ٹام نے اس دن ہر ملنے والے کو مسکرا کر ملنا شروع کر دیا‘ سوری اور تھینک یو اس کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔

وہ لوگوں کو کم اور فیملی اور دوستوں کو زیادہ وقت دینے لگا‘ وہ شام ساڑھے سات بجے ڈنر کرنے لگا‘ وہ نو بجے سو جاتا تھا‘ ساڑھے چار بجے اٹھ جاتا تھا اور صبح تین گھنٹے جنگلوں‘ جھیلوں اور پارکوں میں گھومتا تھا‘ موبائل اس نے بند کر دیا‘ فلمیں وہ دیکھنے اور میوزک سننے لگا‘ ٹام کی اس نئی زندگی نے ٹام کو بتایا‘ اصل زندگی تو ڈیتھ بیڈ کی زندگی ہے‘ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کر لیتے ہیں‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے‘ ہم انسان جسے زندگی سمجھتے ہیں‘ وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

ٹام نے اپنی زندگی کے شاندار دن ڈیتھ بیڈ پر گزارے‘ اصل زندگی کے اصل دن لیکن ہم یہ اصل زندگی کب شروع کرینگے؟ اس دن جب ہمیں بھی ڈاکٹر یہ بتائے گا ’’آپ کے پاس صرف ایک مہینہ بچا ہے‘‘۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پہلی بار محسوس اسے پہلی بار رہا تھا لیکن ٹام کی زندگی زندگی میں اصل زندگی محسوس کی کرتا تھا جاتا تھا ڈاکٹر نے زندگی کے لیکن اس اور وہ بھی اس

پڑھیں:

شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔

شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔

یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔

پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔

شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔

مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔

شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔

یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔

زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔

مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔

ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔

کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔

ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔

زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے انتہا پسندوں نے ملک میں موجود کشمیری طلبا کی زندگی اجیرن کردی
  • شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • ’تعلیم، شعور اور آگاہی کی کمی پاکستانی ماؤں کی صحت مند زندگی کی راہ میں رکاوٹ ہے’
  • پوپ فرانسس ۔۔عالمی امن کا داعی
  • ’تارک مہتا کا الٹا چشمہ‘ کے اداکار نے زندگی کا خاتمہ کر لیا
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ
  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
  • وہ بالی ووڈ اداکار جو اربوں روپوں کے ذاتی جیٹ کے مالک ہیں
  • غیر مسلم آبادی والے ملک میں اسلامی تدفین کا قانون نافذ