Express News:
2025-07-26@14:03:05 GMT

پنکج ترپاٹھی کے مداحوں کیلیے بڑی خوشخبری! انتظار ختم

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

’اوہ مائی گاڈ اور اس کے سیکوئل کو بنانے والے ہدایتکار نے نئی فلم بنا رہے ہیں جس میں پنکج ترپاتھی کے لیے مرکزی کردار رکھا گیا ہے۔

او ایم جی کے سیکوئل میں پنکج ترپاتھی نے اپنی جاندار اداکاری کے جوہر دکھائے تھے اور اب ایک بار پھر ’او ایم جی 2‘ کے ہدایتکار امیت رائے کے ساتھ ایک اور اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں۔

 فلم کے نام کا تاحال طے نہیں کیا گیا لیکن اس فلم کی شوٹنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ جو ایک مضبوط سماجی اور جذباتی پہلو رکھنے والی فلم ہوگی جس میں انسانی پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔

فلم میں پنکج ترپاٹھی کے ساتھ پون ملہوترا، گیتا اگروال، راجیش کمار اور بھوجپوری فلم انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے متعدد فنکار بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

پنکج ترپاٹھی نے فلم سے متعلق بتایا کہ او ایم جی 2 میرے لیے ایک خاص فلم تھی کیونکہ یہ میری پہلی 180 کروڑ سے زائد کمائی والی سولو فلم تھی، اور سب سے بڑھ کر اس فلم نے انسانی اور جذباتی سطح پر لوگوں کے دلوں کو چھوا۔

اداکار نے بتایا کہ او ایم جی 2 کے ہدایتکار امیت رائے کے جو بانڈنگ بنی تھی وہ اب دوبارہ مضبوط ہونے جا رہی ہے۔

پنکج ترپاتھی نے ڈائریکٹر امیت رائے کی تعریف کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی کہانیوں میں سچائی، گہرائی اور ایک مقصد ہوتا ہے جو میرے دل کے قریب ہے۔

اداکار نے کہا کہ یہ نئی فلم ریاست بہار کی سرزمین سے جڑی ہوئی ہے، جو میرا گھر ہے، میری شناخت ہے۔

ہدایتکار امیت رائے نے بھی اس پراجیکٹ پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنکج ترپاٹھی کے ساتھ دوبارہ کام کرنا ایسا ہے جیسے ایک ایسی تخلیقی دنیا میں واپس آنا جہاں سچائی اور اداکاری ہم آہنگی سے ملتی ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ فلم انسانی رشتوں، مزاحمت اور اس سماجی تانے بانے کی خلوص بھری عکاسی ہے جو ہمیں جوڑتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امیت رائے او ایم جی کہا کہ

پڑھیں:

دنیا مضر ماحول گیسوں کا اخراج روکنے کی قانونی طور پر پابند، عالمی عدالت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے قرار دیا ہے کہ کرہ ارض کے ماحول کو گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) سے تحفظ دینا، اس معاملے میں ضروری احتیاط سے کام لینا اور باہمی تعاون یقینی بنانا تمام ممالک کی اہم ذمہ داری ہے۔

عدالت نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں اپنی مشاورتی رائے میں کہا ہے کہ پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت میں اضافے کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد میں رکھنا ضروری ہے۔

ایسا نہ کرنے والے ممالک پر قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں اپنے طرزعمل کو تبدیل کرنا، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ضمانت دینا یا ماحول کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

عدالت سے یہ رائے بحرالکاہل میں واقع جزائر پر مشتمل ملک وینوآتو نے مانگی تھی اور اس کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے والے طلبہ کے ایک گروہ نے کام شروع کیا تھا جن کا تعلق الکاہل میں جزائر پر مشتمل ممالک سے ہے۔

ان طلبہ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے اور اس حوالے سے جزائر پر مشتمل چھوٹے ممالک کے لیے خاص طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وینوآتو کی جانب سے اقوام متحدہ کے دیگر رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں 29 مارچ 2023 کو جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں عدالت سے دو سوالات پر قانونی مشاورتی رائے دینے کو کہا گیا۔

پہلے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ تحفظ ماحول یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت ممالک کی ذمہ داریاں کیا ہیں جبکہ دوسرے سوال میں عدالت سے رائے لی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کے اقدامات سے ماحول کو نقصان پہنچے تو ان ذمہ داریوں کے تحت اس کے لیے کون سے قانونی نتائج ہو سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کا مسئلہ

عدالت نے یہ فیصلہ ماحول اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا ہے۔

رکن ممالک متعدد ماحولیاتی معاہدوں کے فریق ہیں جن میں اوزون کی تہہ سے متعلق معاہدہ، حیاتیاتی تنوع کا کنونشن، میثاق کیوٹو، پیرس معاہدہ اور دیگر شامل ہیں۔ یہ معاہدے انہیں دنیا بھر کے لوگوں اور آنے والی نسلوں کی خاطر ماحول کی حفاظت کا پابند کرتے ہیں۔

عدالت نے کہا ہے کہ صاف، صحت مند اور پائیدار ماحول بہت سے انسانی حقوق سے استفادے کی پیشگی شرط ہے۔

چونکہ رکن ممالک حقوق کے بہت سے معاہدوں کے فریق ہیں اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے اقدامات کے ذریعے اپنے لوگوں کو ان حقوق سے استفادہ کرنے کی ضمانت مہیا کریں۔مشاورتی رائے کی اہمیت

اقوام متحدہ کا چارٹر جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کو 'آئی سی جے' سے کسی مسئلے پر مشاورتی رائے طلب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اگرچہ رکن ممالک پر عدالتی آرا کی پابندی کرنا قانوناً لازم نہیں تاہم ان کی قانونی اور اخلاقی اہمیت ضرور ہوتی ہے اور ان آرا کے ذریعے متنازع معاملات کی وضاحت اور ممالک کی قانونی ذمہ داریوں کے تعین کے لیے بین الاقوامی قانون تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ 'آئی سی جی' کے روبرو آنے والا اب تک کا سب سے بڑا معاملہ ہے جس پر 91 ممالک نے تحریری بیانات داخل کیے ہیں اور 97 زبانی کارروائی کا حصہ ہیں۔

عالمی عدالت انصاف

'آئی سی جے' نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے شہر دی ہیگ میں واقع امن محل میں قائم ہے۔ اس کا قیام 1945 میں ممالک کے مابین تنازعات کے تصفیے کی غرض سے عمل میں آیا تھا۔ عدالت ایسے قانونی سوالات پر مشاورتی رائے بھی دیتی ہے جو اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی جانب سے اسے بھیجے جاتے ہیں۔

اسے عام طور پر 'عالمی عدالت' بھی کہا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے چھ بنیادی اداروں میں سے ایک ہے۔

دیگر میں جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، معاشی و سماجی کونسل (ایکوسوک)، تولیتی کونسل اور اقوام متحدہ کا سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ یہ عدالت ان میں واحد ادارہ ہے جو نیویارک سے باہر قائم ہے۔

یورپی یونین کی عدالت انصاف سے برعکس 'آئی سی جے' دنیا بھر کے ممالک کی عدالتوں کے لیے اعلیٰ ترین عدالت کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس کے بجائے یہ صرف اسی وقت کسی تنازع پر سماعت کر سکتی ہے جب ایک یا زیادہ ممالک کی جانب سے اس بارے میں درخواست کی جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • صارفین کے لیے خوشخبری، اسٹیٹ بینک نے بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے عمل میں اہم تبدیلیاں کردیں
  • رائے عامہ
  • آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے
  • فلسطینی ریاست سے متعلق فرانسیسی اعلان پر عالمی رائے منقسم
  • بی ایم ڈبلیوگاڑیوں کے خریداروں کے لیے خوشخبری! قیمتوں میں لاکھوں کی کمی
  • شائقین کرکٹ کا انتظار ختم، ایشیا کپ 2025 کی ممکنہ تاریخیں اور مقام آشکار
  • پاکستانی معیشت کیلئے ایک اور خوشخبری، عالمی ریٹنگ ایجنسی نے ایک درجہ بہتر کردیا
  • پاکستان سے امریکا جانے والوں کیلئے خوشخبری
  • بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا: وزیرِاعلیٰ بلوچستان
  • دنیا مضر ماحول گیسوں کا اخراج روکنے کی قانونی طور پر پابند، عالمی عدالت