امریکی کانگریس مین کا ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
جیگ برگمین کا تعلق امریکی صدر ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے ہے
کانگریس مین نے اسی ماہ آرمی چیف اور محسن نقوی سے ملاقاتیں بھی کی تھیں
پاکستان کا دورہ کر کے واپس جانے والے امریکی کانگریس مین جیک برگمین نے ایک بار پھر بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی کامطالبہ کیا ہے ۔منگل کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں جیک برگمین نے پاکستان کے دورے کے دوران وہاں رہنماؤں اور مختلف برادریوں سے روابط قائم کرنے کے بعد میں عمران خان کی رہائی کے مطالبے کو دہرا رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان شراکت ایک جیسی اقدار جیسے جمہوریت، انسانی حقوق اور معاشی خوشحالی سے مضبوط ہوتی ہے ۔جیک برگمین نے مزید کہا کہ آئیے آزادی اور استحکام کے لیے ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔’امریکی میرین کور کے ریٹائرڈ جنرل، جیک برگمین ان دنوں ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔جیگ برگمین کا تعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت رپبلکن پارٹی سے ہے اور اپریل کے میں انھوں نے اپنے دورکے دوران پاکستانی قیادت بشمول آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات کی تھیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: جیک برگمین
پڑھیں:
اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے حوالے سے امریکی سفیر نے حماس سے کیا مطالبہ کیا ؟
اسرائیل میں امریکہ کے نئے سفیر مائیک ہکابی نے فلسطینی تنظیم “حماس” پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کرے جس کے تحت تباہ حال غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل ممکن ہو سکے۔
ہکابی نے پیر کے روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ “ہم حماس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا معاہدہ کرے تاکہ انسانی بنیادوں پر امداد ان لوگوں تک پہنچائی جا سکے جنہیں اس کی شدید ضرورت ہے”۔
انھوں نے مزید کہا کہ “جب ایسا ہو جائے گا، اور یرغمالیوں کو رہا کر دیا جائے گا ، جو کہ ہمارے لیے ایک فوری اور اہم معاملہ ہے، تو ہم امید رکھتے ہیں کہ امداد کی ترسیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے گی، اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ حماس اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرے”۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب “حماس” نے جمعرات کو اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ ایک عبوری جنگ بندی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس تجویز میں قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ اور امداد کی فراہمی شامل تھی۔ “حماس” کے ایک اعلیٰ مذاکرات کار کے مطابق، ان کی تنظیم صرف مکمل اور جامع معاہدے کی حامی ہے، جس میں جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلا اور تعمیر نو شامل ہو۔
قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی سے جنوری 2024 میں ایک عبوری جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جس نے اکتوبر 2023 میں حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہونے والی پندرہ ماہ سے زائد طویل جنگ کو وقتی طور پر روک دیا تھا۔
معاہدے کا پہلا مرحلہ تقریباً دو ماہ جاری رہا، جس میں اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ ہوا۔ تاہم دوسرے مرحلے پر اختلافات کے باعث یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔ اسرائیل اس کی توسیع چاہتا تھا، جب کہ حماس چاہتی تھی کہ بات چیت اگلے مرحلے میں داخل ہو، جس میں مستقل جنگ بندی اور فوجی انخلا شامل ہو۔
18 مارچ کو اسرائیل نے دوبارہ سے غزہ کی پٹی پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے اور امداد کی ترسیل روک دی۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ حماس امداد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے، جب کہ حماس نے یہ الزام مسترد کر دیا۔ اقوامِ متحدہ نے گذشتہ ہفتے خبردار کیا کہ غزہ اس وقت جنگ کے آغاز سے بد ترین انسانی بحران سے گزر رہا ہے۔
اس سے قبل امریکی نیوز ویب سائٹ axios یہ بتا چکی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وزیراعظم نیتن یاہو سے رابطہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ جنگ بندی، یرغمالیوں کے معاہدے اور ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات پر گفتگو کی جا سکے۔
یہ فون رابطہ ایسے وقت متوقع ہے جب “حماس” نے اسرائیل کی ایک اور عارضی جنگ بندی تجویز کو رد کر دیا ہے … اور ایران و امریکہ کے درمیان روم میں نئی جوہری بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔
Post Views: 1