WE News:
2025-09-18@17:15:23 GMT

بھارت پاکستان کے خلاف کیا کرسکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

بھارت پاکستان کے خلاف کیا کچھ سوچے بیٹھا ہے، اس کا حتمی اندازہ تو ہم نہیں لگا سکتے مگرجس طرح بھارت میں نریندر مودی کا حامی میڈیا جنگی جنون پیدا کر رہا ہے اور پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگا رہا ہے، اس سے یہ ضرور پتہ لگ رہا ہے کہ بھارتی حکومت کچھ بڑا کرنے کا سوچ رہا ہے۔ اس پر بات کرتے ہیں مگر سردست تو یہ دیکھنا ہے کہ جو بھارت نے اعلانات کیے ان کے اثرات کیا پڑیں گے؟

بھارت نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود سطح پر رکھنے، ڈیفنس اتاشیوں کو واپس بھیجنے، واہگہ اٹاری سرحدی راستہ بند کرنے کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹرٹریٹی ) معطل کرنا ایک بڑا اور غیر معمولی اقدام ہے۔ اس لیے کہ 65سال قبل یہ معاہدہ ہوا اور اس کے بعد پاکستان اور بھارت دو تین جنگوں میں انوالو ہوئے، جنگ 65 اور 71 کے علاوہ کارگل کا فوجی ٹکراؤ۔ ان جنگوں کے باوجود انڈیا یا پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل یا ختم کرنے کی کبھی بات نہیں کی۔

کیا سندھ طاس معاہدہ ختم ہوسکتا ہے؟

اب بھارت نے یہ بات کہہ تو دی ہے مگر کیا واقعی کوئی ایک فریق اپنی مرضی سے یہ معاہدہ ختم کر سکتا ہے؟ قانونی ماہرین اس کی شدت سے نفی کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ پڑھا جائے تو اس میں واضح ہے کہ کوئی فریق یک طرفہ طور پر اسے ختم نہیں کرسکتا اور جو کچھ بھی ہو، وہ دوطرفہ ہونا ضروری ہے۔

اس معاہدہ کا ثالث عالمی بینک تھا، پاکستان کی قانونی پوزیشن مضبوط ہے اور پاکستان عالمی عدالت انصاف کے علاوہ دیگر عالمی فورمز میں بھی جا سکتا ہے۔ غالباً اسی لیے بھارت نے بھی یہ معاہدہ معطل کرنے کا کہا ہے، اسے ختم نہیں کیا۔

سفارتی تعلقات کا خاتمہ بھی معاہدہ ختم نہیں کرے گا

بی بی سی کے مطابق 2سال قبل جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔ ویانا کنونشن کے تحت معاہدے ختم کرنے یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہوگا۔ ‘ڈاکٹر امت رنجن کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت میں سفارتی تعلقات ختم ہوجائیں، تب بھی سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں ہوسکتا۔

بھارت کیا کرسکتا ہے؟

ماہرین کے مطابق سندھ طاس معاہدے کی بعض خلاف ورزیاں بھارت پہلے سے کر رہا ہے۔ دونوں ممالک کے انڈس واٹر کمشنرز کا ہر سال اجلاس ہونا ضروری ہے، بھارت نے ایسا 4سال سے نہیں کیا۔ دریاؤں میں بہتے پانی کے ڈیٹا کے بارے میں اطلاعات دینا ضروری ہے، مگر اطلاعات کے مطابق بھارت یہ کام پوری طرح نہیں کر رہا، صرف تیس چالیس فیصد ڈیٹا کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح دریاؤں پر بنائے جانے والے پراجیکٹس کی تفصیل بروقت بتانا ضروری ہے، مگر بھارت ایسا نہیں کر رہا۔ یہ سب چیزیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ معاہدہ معطل ہوجانے کے بعد بھارت جو تیس چالیس فیصد عمل کر رہا تھا، اب وہ صفر ہوجائے گا۔

کیا بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے؟

یہ ملین ڈالر سوال ہے۔ گزشتہ روز ایک بزرگ لکھاری دوست کا میسج آیا، انہیں کسی نے غلط اطلاع دی کہ بھارت نے پاکستانی دریاؤں کا پانی روک دیا ہے۔ وہ مجھ سے تصدیق کرنا چاہ رہے تھے۔ اتفاق سے میں اس وقت مختلف بھارتی اخبارات اور ویب سائٹس کھنگال رہا تھا، مقصد یہی دیکھنا تھا کہ خود بھارتی ماہرین کے مطابق بھارت پاکستان کے خلاف کیا کیا کرسکتا ہے؟

میں نے محترم بزرگ کو تسلی دی کہ بھارت چاہے تب بھی فوری طور پر پاکستان کے حصے میں آنے والے تینوں دریاؤں کا پانی نہیں روک سکتا۔ اس لیے کہ دریاؤں کا پانی بہت زیادہ ہے اور بھارت کے پاس سردست اتنے بڑے ڈیمز نہیں ہیں کہ وہ پانی روک سکے یا اس کا ایک بڑا حصہ ہی روک پائے۔ مستقبل میں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے، آج کی تاریخ میں ممکن نہیں۔

یہ غلط فہمی پاکستان میں بہت سے لوگوں کو لاحق ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے مغربی دریائوں سندھ، چناب اور جہلم کا اسی فیصد پانی پاکستان کو دینا لازم ہے۔ بھارت اس کے پانچویں حصے(19.

8فیصد)کو روک سکتا ہے، وہ ان دریاؤں کے پانی پر رن آف ریور ڈیم بھی بنا سکتا ہے مگر پانی ذخیرہ نہیں کرسکتا۔

یاد رہے کہ رن آف ریور ڈیم میں پانی اسٹورکرنے کے بجائے ٹنل وغیرہ کے ذریعے اس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے اور پانی آگے جانے دیا جاتا ہے، جیسے پاکستان کا نیلم جہلم پراجیکٹ ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بہتے ہوئے دریائے سندھ نسبتاً چھوٹا دریا ہے تاہم چناب اور جہلم بڑے دریا ہیں۔ مجموعی طور پر ان تینوں دریاؤں سے پاکستان کو سالانہ ایک سو پینتیس (135) ایم اے ایف یعنی ملین ایکڑ فیٹ آتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ پانی ہے کہ اسے جمع کرنے کے لیے بہت بڑے درجن سے بھی زیادہ ڈیمز درکار ہوں گے۔ اندازہ لگا لیں کہ بھاشا ڈیم اور کالا باغ ڈیم دونوں اگر بنے ہوں تو ان کی مکمل اسٹوریج کیپیسٹی 18ملین ایکڑفیٹ ہوگی۔ اتنا بڑا ایک ڈیم بنانے میں بھی کئی سال لگتے ہیں، آٹھ دس سال تو کم از کم ہیں۔

انڈیا نے چناب پر متنازع بگلہیار ڈیم بنا رکھا ہے جو 7لاکھ ایکڑزمین کو پانی دے سکتا ہے، اس کی مکمل اسٹور کیپیسٹی تین اعشارہ چھ (3.6)ملین ایکڑ فٹ ہے۔ معاہدے کے قانونی پہلوؤں کے مطابق بھارت اس پانی کو اپنے پاس ذخیرہ نہیں کرسکتا، وہ صرف بجلی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ تاہم موجودہ صورتحال میں اس کا مفروضے کے طور پر امکان موجود ہے کہ بھارت اس ڈیم کے ذریعے کچھ پانی اپنے پاس روک لے اور پاکستان کو تنگ کرے۔

بھارت کی تکنیکی مشکلات کیا ہیں؟

معروف بھارتی ویب سائٹ وائر کی رپورٹ کے مطابق، ‘فی الحال ہندوستان کے پاس جموں و کشمیر میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہے، اس لیے زیادہ پانی ذخیرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ بگلیہار ڈیم میں صرف 1.5 ایم اے ایف تک ذخیرہ ممکن ہے۔ ہندوستان صرف اتنا ہی پانی روک سکتا ہے جتنا اس کے پاس ترقی یافتہ ڈھانچے میں ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کے بعد اس پانی کوچھوڑنا ہی پڑے گا۔ اگر ہندوستان بگلہیار ڈیم میں 3.6 ایم اے ایف کی مکمل صلاحیت پیدا کرتا ہے تو وہ پاکستان کو پانی کی فراہمی کو عارضی طور پر کنٹرول کرسکتا ہے، خاص طور پر کھیتی کے سیزن میں۔ لیکن وہ اس پانی کو مستقل طور پر ذخیرہ یا خود استعمال نہیں کرسکتا۔ تاہم باقی 131ملین ایکڑ فیٹ پانی کو وہ نہیں روک سکتا۔’

پاکستان کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ چناب، جہلم، سندھ میں 60-70 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے اور 30-40 فیصد مون سون سے آتا ہے، جس پر ہندوستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ مون سون کےدنوں میں پانی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے، اس لیے اس پانی کو بھارت ڈیمز میں بھی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے حق میں یہ نکتہ بھی جاتا ہے کہ ڈھلان ہماری طرف ہے اور پانی نے ادھر آنا ہی آنا ہے۔

پانی روکنا آج ممکن نہیں، کل کے لیے ہوشیار رہنا ہوگا

انڈین ماہرین کے مطابق، ‘قدرتی جغرافیہ، نامکمل ڈھانچے اور معاہدوں کی شرائط کی وجہ سے ہندوستان کے لیے پاکستان کو پانی سے محروم کرنا مشکل ہے۔ انڈس سسٹم کا زیادہ تر پانی پاکستان کو ملتا رہے گا۔ ہندوستان کسی حد تک کنٹرول شدہ بہاؤ (3.6 ایم اے ایف) کو کنٹرول کرسکتا ہے، لیکن 131.4ایم اے ایف قدرتی بہاؤ ہندوستان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ ہندوستان کے لیے اس وقت تک پانی کے اس بہاؤ کو مکمل طور پر روکنا ممکن نہیں جب تک وہ بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر نہیں بنا لیتا۔’

نتیجہ یہ نکلا کہ سردست شارٹ ٹرم میں پاکستان کو زیادہ خطرہ نہیں، تاہم چونکہ آب پاشی کے لیے پانی کا ہر قطرہ اہم ہے، اس لیے پاکستانی حکومت نے بہت سخت وارننگ دی ہے کہ اگر سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد نہ ہوا اور پاکستانی حصے کا پانی روکا گیا، بے شک وہ ایک دو ملین ایکڑ فیٹ ہی کیوں نہ ہو، تو اسے ایکٹ آف وار سمجھا جائے گا۔

پاکستان کو لانگ ٹرم میں بھی ہوشیار رہنا ہوگا کہ عین ممکن ہے کہ جب حالات پرامن ہوجائیں تو بھارت چپکے سے مزید بڑے ڈیم وہاں بنانا شروع کر دے تاکہ مستقبل میں کبھی پاکستانی پانی کو روکنا اس کے لیے عملی طور پر ممکن ہوسکے۔

بھارت مزید کیا کر سکتا ہے؟

جو پاکستانی اور عالمی ماہرین بھارتی اقدامات اور وہاں چلتی ہنگامہ خیزی پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وہ خطرے کا پیغام دے رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کو جس طرح ہائپ دی جا رہی ہے، اس سے یہ خدشہ تو موجود ہے کہ مودی حکومت کچھ بڑا کرنا چاہ رہی ہے۔ 2016 یا 2019کی طرح کی کوئی حماقت، اگرچہ ابھیینندن والا واقعہ ان کے لیے سخت شرمندگی کا باعث بنا تھا۔ دراصل پاکستان کے خلاف کوئی بھی ایڈونچر بھارتی حکومت کو سیاسی فوائد پہنچائے گا۔ حالیہ واقعات کے نتیجے میں بھی یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی اب بہار میں آسانی سے ریاستی اسمبلی کا الیکشن جیت جائے گی۔

دفاعی ماہرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ اگلے دو تین دنوں میں کوئی سرجیکل اسٹرائیک کا امکان بہرحال موجود ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔ یہ بات بھارتی حکومت بھی جانتی ہے۔ ایسے میں پھر بھی وہ کوئی ایڈونچر کرے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ بھارتی حکومت کوئی محفوظ کیلکولیٹڈ رسک لے۔

کسی سرحدی علاقے میں غیر معروف جگہ پر اسٹرائیک کرکے اسے جنگجوئوں کا اڈہ قرار دے دے۔ بے شک وہاں پر صرف درخت ہی کیوں نہ ہوں۔ دو ہزار سولہ میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔

دیکھیں اگلے چند دنوں میں کیا سامنے آتا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے بہرحال بہت سنجیدہ اور گمبھیر صورتحال ہے۔ ہمیں اندرون ملک استحکام اور اتحاد رکھنا ہوگا۔ اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہونے اور اپنے جانبازوں کو مکمل اسپورٹ دینے کا وقت ہے۔ پاکستانی قوم نے اس حوالے سے ماضی میں کبھی مایوس کیا ہے اور نہ ان شااللہ اب کرے گی۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان کے خلاف سندھ طاس معاہدے سندھ طاس معاہدہ دریاؤں کا پانی بھارت پاکستان بھارتی حکومت معاہدہ معطل نہیں کرسکتا ہندوستان کے اور پاکستان پاکستان کو معاہدہ ختم ایم اے ایف اس پانی کو ملین ایکڑ اس معاہدہ کرسکتا ہے یہ معاہدہ ممکن نہیں ان کے لیے بھارت نے ضروری ہے موجود ہے ختم نہیں کہ بھارت کے مطابق روک سکتا پانی روک کے ساتھ نہیں کر میں بھی سکتا ہے اس لیے آتا ہے کیا کر رہا ہے کر رہا ہے اور

پڑھیں:

بھارت کا ڈرون ڈراما

ریاض احمدچودھری

بھارت میں مودی سرکار آپریشن سندور میں پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کے بعد نیا محاذ کھولنے کی تیاری کررہی ہے۔بی جے پی حکومت کا ڈرون ڈراما شروع ہوگیا۔ بھارتی عوام کو خوفزدہ کر کے پاکستان مخالف جنگی جنون بھڑکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ بھارتی عوام کو پاکستان کے خلاف بھڑکا کر جنگی جنون کو ہوا دینا مودی سرکار کا وتیرہ بن چکا ہے۔بی جے پی اور بھارتی فوج مشترکہ طور پر پروپیگنڈا مہم چلا کر اندرونی ناکامیاں چھپانے میں مصروف ہیں۔ گودی میڈیا ایک مرتبہ پھر جعلی خبریں پھیلا کر فالس فلیگ آپریشن اور پاکستان مخالف محاذ تیار کرنے میں سرگرم ہوگیا۔
پونچھ میں پاکستانی ڈرونز کی موجودگی کے بعد سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ حکام کے مطابق ڈرونز نگرانی کے لیے لانچ ہوئے اور پاکستانی حدود میں 5 منٹ میں واپس چلے گئے۔ پاکستان سے آنے والے نصف درجن ڈرونز جموں و کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں سرحدی علاقوں پر منڈلاتے دیکھے گئے۔ ڈرونز کی سرگرمی مینڈھر سیکٹر میں بالاکوٹ، لنگوٹ اور گرسائی نالہ میں اتوار رات 9 بج کر 15 منٹ پر بھی دیکھی گئی۔ ڈرونز کو بہت اونچائی پر پرواز کرتے دیکھا گیا اور وہ فوراً پاکستانی علاقے کی طرف واپس لوٹ گئے۔
لائن آف کنٹرول پر ڈرونز کا من گھڑت پروپیگنڈا بی جے پی سیاسی مقاصد کے تحت استعمال کر رہی ہے۔ اندرونی انتشار کی شکار بی جے پی سرکار سیاسی دباؤ سے نکلنے کے لیے جنگی ماحول پیدا کررہی ہے۔ ڈرونز کا پروپیگنڈا بھارت میں پاکستان دشمنی بڑھا کر عوام کو جنگی ایجنڈے پر آمادہ کرنے کی سازش ہے۔ مودی نے خطے کے امن کو اپنی فسطائیت اور جنگی جنون کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی پاکستان سے حالیہ جنگ میں عبرتناک شکست اور عالمی سطح پر جگ ہنسائی کے باوجود باز نہ آئے اور ایک بار پھر گیڈر بھبکیاں دیتے ہوئے پاکستان کو برہموس میزائل حملے کی دھمکی دے ڈالی۔ اتر پردیش کے شہر وارانسی میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ اگر پاکستان نے دوبارہ کوئی گناہ کیا، تو یوپی میں بننے والے میزائل دہشت گردوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔مودی نے دعویٰ کیا کہ برہموس میزائل اب لکھنؤ میں تیار کیے جائیں گے، اور پاکستان میں صرف ان کا نام سن کر ہی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق مودی کا حالیہ بیان بھارت کے اندرونی سیاسی دباؤ کو پاکستان دشمن بیانیے سے چھپانے کی ایک اور کوشش ہے۔پاکستان کی جانب سے اب تک کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ماضی کی طرح اس طرح کی دھمکیوں کو غیر سنجیدہ اور انتخابی فائدے کے لیے دی گئی بیانات قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ پہلگام واقعے کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان کے خلاف نام نہاد ‘آپریشن سندور’ شروع کیا تھا، جس کا جواب پاکستان کی جانب سے ‘آپریشن بْنیان مرصوص’ کی صورت میں دیا گیا۔اس چند روزہ چنگ کے دوران بھارت کو اپنے رافیل طیاروں سے محروم ہونے اور کئی ایئربیسز پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت میں انتخابات کے قریب آتے ہی ایسے بیانات عام ہو جاتے ہیں، تاکہ شدت پسند بیانیے کے ذریعے ووٹرز کو متحرک کیا جا سکے۔
خطے میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے باعث بین الاقوامی حلقے ایک بار پھر جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اشتعال انگیز بیانات کی بجائے دونوں ممالک کو سفارتی چینلز کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے پہلگام حملے میں مبینہ سکیورٹی غفلت، پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں انڈین طیاروں کے نشانہ بنائے جانے کی خبروں اور جنگ بندی کروانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں سے متعلق اپوزیشن کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے۔اپنی ایک گھنٹہ 40 منٹ طویل تقریر میں انھوں نے پاکستان سے زیادہ اپوزیشن جماعت کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ‘کانگریس پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے’۔ انڈیا میں دہشت گردی اور پاکستان اور چین سے متعلق سارے مسائل نہرو، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی کمزور اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پیدا ہوئے۔اگرچہ انھوں نے اہم سوالوں کا جواب دینے سے تو گریز کیا مگر ‘آپریشن سندور’ میں اپنے ملک کی فوجی کامیابیوں سے متعلق بہت سے پرانے دعوؤں کو دہرایا اور چند نئے دعوے بھی کیے۔مودی کا کہنا تھا کہ آپریشن سندور نے پاکستان کی فوجی طاقت کو نیست و نابود کر دیا۔ ‘اب پاکستان کو پتہ چل چکا ہے کہ اگر اس کی جانب سے دوبارہ کوئی دہشت گردانہ کاروائی ہوئی تو اسے منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اِسی لیے آپریشن سیندور کو ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے صرف روکا گیا ہے۔پاکستان کو اب انڈیا کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ ‘فوج نے آپریشن سندور کے دوران 22 منٹ کے اندر اندر سارے طے شدہ مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ پہلی بار پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جوہری دھمکیوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔مودی نے اس سوال پر کہ انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر حمایت نہیں ملی، کہا کہ دنیا کے سبھی ملکوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی تھی اور تین ممالک کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔ کسی بھی ملک نے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کو روکنے کے لیے نہیں کہا۔اگرچہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہا کہ انھیں کسی بھی عالمی رہنما نے جنگ بندی کے لیے نہیں کہا لیکن انھوں نے اتنا ضرور بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر نے انھیں نو مئی کی رات کو فون کیا تھا۔مودی کا دعویٰ تھا کہ اگر نہرو نے 1948 میں جب انڈین افواج نے پاکستانی فوج پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اپنی فوج کو پیچھے ہٹانے کا حکم نہیں دیا ہوتا تو کشمیر کا مقبوضہ حصہ اسی وقت واپس مل گیا ہوتا۔ اکسائی چن کا حصہ نہرو کی وجہ سے چین کے پاس چلا گیا کیوںکہ نہرو نے اسے یہ کہ کر واپس لینے کی کوشش نہیں کی کہ سنگلاخ بنجر زمینوں کے لیے تنازع پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں 38 ہزار مربع کلومیٹر کھونے پڑے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • بھارت کا ڈرون ڈراما
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • ریفری اینڈی پائی کرافٹ پاکستان کے خلاف بھارت کا ہتھیار، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے سب راز کھول دیئے
  • پاک بھارت ٹاکرے میں میچ ریفری کا تنازع، قومی ٹیم نے دبئی میں شیڈول پریس کانفرنس ملتوی کر دی
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے،اسحق ڈار
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • ہمارے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیار موجود ہیں، کسی کو سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دینگے: اسحاق ڈار
  • پاکستان کے خلاف بھارتی جارحانہ عزائم