خوابوں کی تکمیل میں جہد مسلسل کا کردار
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
جرمنی کی تیار کردہ شہرہ آفاق کار مرسڈیز بینز کا شمار دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں ہوتا ہے جسے دنیا بھر میں ’سٹیٹس سمبل‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کار کے موجد برتھا بینز اور ان کے شوہر کارل بینز ہیں۔ مرسیڈیز بینز نام کی کار اس لیئے بھی بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ یہ کار پٹرول سے چلنے والی پہلی گاڑی تھی۔
اس کار کی ایجاد اور افادیت کا شروع میں کسی کو احساس نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کسی نے اس ایجاد پر کوئی خاص توجہ دی تھی، بلکہ لوگوں کی اکثریت نے کارل اور اس کی بیوی برتھا کا یہ کہتے ہوئے مذاق اڑایا تھا کہ’’تین پہیوں والی گاڑی‘‘ ایک احمقانہ خیال ہے۔ اس کے بعد کارل مایوسی اور افسردگی کی حالت میں چلے گئے تھے جس وجہ سے وہ اکثر و بیشتر شراب نوشی میں سکون ڈھونڈتے تھے۔
ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس سے اس کار کو جرمنی بھر میں شہرت ملنے لگی۔ کارل بینز کا خاندان اپنے 5 بچوں کے ساتھ منہم میں رہتا تھا جبکہ برتھا بینز کے والدین تقریباً100 کلومیٹر دور جنوب میں فورشیم میں رہتے تھے۔ یہ کافی لمبا فاصلہ تھا اور وہاں اپنے والدین سے ملنے اور اس جگہ تک پہنچنے کے لئے برتھا نے اس کار میں سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے دماغ کے کسی کونے میں یہ سوچا کہ وہ اپنی تیار کردہ گاڑی میں سفر کرنے سے اپنے شوہر کے خواب کو بھی بچا لے گی اور پھر برتھا نے ایسا ہی کیا اور وہ اپنی تین پہیوں والی گاڑی پر سفر کرنے کے لیئے نکل کھڑی ہوئی۔
برتھا کو اس سفر میں تقریباً ایک پورا دن لگ گیا، جو انیسویں صدی کے آخر میں گاڑی کی محدود طاقت کے پیش نظر قابل فہم بات ہے۔ اس سفر کے دوران برتھا کو فارمیسی سے پٹرول خریدنے کے لئےکئی باررکنا پڑا کیونکہ اس وقت پٹرول وہاں صفائی کے طور پر فارمیسیوں پر فروخت کیا جاتا تھا۔ برتھا نے گاڑی کی ٹیوننگ کرتے وقت بریکوں کی مرمت کی، موثر طریقے سے پہلا بریک پیڈ ایجاد کیا، ڈرائیو چین کی مرمت کی اور بال پن کے ساتھ ایندھن کی لائن میں کلاگ ہٹا دیا۔ اس کے علاوہ سفر شروع کرنے سے پہلے برتھا نے گاڑی کی ٹائی کے ساتھ تار کا ایک حصہ بھی الگ تھلگ کر دیا تاکہ سفر میں کار میں کوئی خرابی پیدا ہو تو وہ اس کی آسانی کے ساتھ مرمت کر سکے۔
برتھا نے فورشیم تک یہ سو کلومیٹر کا سفر آسانی کے ساتھ طے کر لیا اور وہاں پہنچنے پر برتھا نے کارل کو اس سفر کو کامیابی سے طے کرنے کی ٹیلی گرام بھیجی، جبکہ چند روز بعد برتا نے منہم واپسی کا سفر بھی کامیابی کے ساتھ مکمل کیا۔برتھا نے اس مہم جویانہ سفر کے دوران بہت سی دلچسپ نگاہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ گاڑی صرف ایک عجیب کھلونا ہی نہیں بلکہ نقل و حمل کا ایک عملی اور تیز ذریعہ بھی ہے۔ برتھا کے اس سفر کی وجہ سے کارل راتوں رات مشہور ہو گیا اور اس کار کی خریداری کے لئے اسے متعدد درخواستیں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔
مزید برآں برتھا نے بھی بہتری کی تجاویز کے لئے اپنی سواری کا استعمال کیا، انہوں نے رفتار بڑھانے، بریک کو بہتر بنانے، ایندھن کا فلٹر لگانے اور اس میں مزید استحکام کے لئے چوتھا پہیہ شامل کرنے کے لئے ایک گیئر باکس شامل کرنے کی ایک تجویز پر عمل کیا۔ برتھا کی بہادری اور بصیرت کی بدولت کارل کی ایجاد نہ صرف بچ گئی بلکہ موجودہ مرسڈیز بینز نے مہنگی اور پوش گاڑیوں کی ایک پوری سلطنت کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا۔
کہتے ہیں کہ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ انسان میں حوصلہ ہو اور وہ اپنے کسی خیال کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے ہمت نہ ہارے تو اس کا خواب ایک دن ضرور پورا ہوتا ہے۔ کارل نے گاڑی تو ایجاد کر لی مگر اسے دنیا میں اس کی بیوی برتھا نے متعارف کروایا۔ یہ ضروری ہے کہ خواب جتنے بھی عجیب و غریب ہوں ان کو ضرورت سمجھ کر پورا کرنے کے لئے جہد مسلسل کی جائے تو ایک دن وہ ضرور پورے ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: برتھا نے کے ساتھ اس کار اور اس کے لئے اور وہ
پڑھیں:
مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔
انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔
انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔