ایران اور امریکا کے درمیان جوہری مذاکرات کے لیے مذاکرات کا تیسرا دور عمان میں اختتام پذیر ہوگیا۔

غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے مسقط میں عمانی ثالثوں کے ذریعے قریباً 6 گھنٹے تک بات چیت کی۔ اور دونوں فریقین نے گفتگو کو تعمیری قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں ایران امریکا مذاکرات: فریقین کا جوہری معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کرنے پر اتفاق

عمانی وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے کہاکہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا، آئندہ کی اعلیٰ سطح میٹنگ 3 مئی کو شیڈول ہے۔

ایران اور امریکا کے اعلیٰ سطح وفد کی ملاقات سے قبل ممکنہ جوہری معاہدے کی خاطر ایک فریم ورک ڈیزائن کرنے کے لیے مسقط میں ماہرین کی سطح پر بالواسطہ بات چیت بھی ہوئی۔

مذاکرات کے بارے میں بریفنگ دینے والے ایک ایرانی اہلکار نے قبل ازیں میڈیا کو بتایا کہ ماہرین کی سطح کے مذاکرات مشکل، پیچیدہ اور سنجیدہ تھے۔

ایران نے اپنی طرف سے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ پابندیوں میں ریلیف حاصل کرنے کے خواہاں ہے کیونکہ اس کی معیشت مسلسل متاثر ہو رہی ہے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے عمان میں صحافیوں کو بتایا کہ ایران غیر منصفانہ پابندیوں کے خاتمے کی ضرورت پر اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم ہے اور اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت کے بارے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ٹرمپ نے ایک روز قبل ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ میرے خیال میں ہم ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، لیکن انہوں نے سفارت کاری میں ناکامی کی صورت میں ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی دہرائی۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اس ہفتے کہا تھا کہ ایران کو ایک معاہدے کے تحت یورینیم کی افزودگی کو مکمل طور پر روکنا ہو گا، اور اپنے واحد جوہری توانائی پلانٹ، بوشہر کو ایندھن کے لیے ضروری افزودہ یورینیم درآمد کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں مذاکرات سے قبل امریکا کا مزید ایرانی اداروں کیخلاف پابندیوں کا اعلان

یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل ہونے والے مذاکرات کے بعد ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کی امید ظاہر کی تھی، اور کہا تھا کہ روم میں ہونے والی بات چیت اچھے ماحول میں ہوئی۔ اور دونوں ممالک نے جوہری معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکا ایران جوہری مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ عمان واشنگٹن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا ایران جوہری مذاکرات ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن وی نیوز جوہری مذاکرات مذاکرات کا امریکا کے کرنے کے کے لیے

پڑھیں:

ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ

فیڈرل ریزرو چیئر کو صدر ٹرمپ نے خود تعینات کیا۔فیڈرل ریزرو چیئر جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے درآمدی محصولات سے افراطِ زر میں اضافہ ہو گا اور امریکا کے اندر معیشت کی بڑھوتی شدید متاثر ہو گی۔اس کے علاوہ عالمی معیشت سکڑے گی۔جیروم پاول نے یہ بھی کہا کہ محصولات عائد کرتے وقت اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی معاشی ایکٹوٹی کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔ صدر ٹرمپ ،پاول کے اس بیان سے ناخوش ہیں اور ان کو فیڈرل ریزرو بورڈ کی چیئر پر نہیں دیکھنا چاہتے۔

جناب ٹرمپ کے مطابق پاول کو استعفیٰ دے دینا چایئے لیکن جب پاول سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے مستعفی ہونے سے یکسر انکار کر دیا۔ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا صدر ٹرمپ انھیں ہٹا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں۔Yuval Atsmon of Mackenziنے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات سے کارپوریٹ منافع بری طرح متاثر ہو گا اور سپلائی Chainمیں تو ضرور خلل واقع ہو گا۔صدر ٹرمپ کچھ نیا نہیں کر رہے۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس پر برسوں سے یقین رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ کہتے آئے ہیں۔مشہور امریکی ٹی وی شوOprahکی میزبان کے ساتھ دسمبر 1988میں شو کے دوران بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہI will make allies pay.

ٹرمپ کی تجارتی جنگوں سے عالمی تجارت میں غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔عالمی GDPگرے گی،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک جو زرَ مبادلہ کمانے کے لیے برآمدات پر انحصار کرتے ہیں،بہت حد تک متاثر ہوں گے۔عالمی سپلائی Chainپہلے ہی متاثر ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے اشیاء کی پیداوار میں کمی آئے گی اور قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔بڑھتے ٹیرف سے Consumerکو زیادہ ادائیگی کرنی ہو گی۔ورلڈٹریڈ آرگنائزیشن WTO کا قیام ہی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا تاکہ ممالک اس پلیٹ فارم کو آپسی بات چیت کے لیے استعمال کریں اور کم سے کم ٹیرف لگائے جائیں ۔

اس معاملے میں امریکا نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب امریکا ہی اس کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔ٹرمپ کے درآمدی محصولات کا بظاہر مقصد امریکی معیشت کو تحفظ فراہم کرنا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے،مگر اس کے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ پالیسیاں،مہنگائی، عالمی تجارت میں خلل اور سفارتی تعلقات میں کشیدگی کا باعث بنتی جا رہی ہیں۔ان پالیسیوں سے عالمی معیشت ایک نئے اور مشکل دور میں داخل ہونے جا رہی ہے،جہاں تجارتی جنگیں،سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں پر بوجھ بنیں گی۔

چند ہفتے پہلے ایک کالم میں لکھا جا چکا ہے کہ امریکا کے تمام اقدامات کا اصل ہدف چین ہے۔ چین امریکا کے اعصاب پر سوار ہے۔دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر امریکا جنگ میں شریک وہ واحد ملک تھا جس کو جنگ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا،یوں امریکا ایک بڑی معیشت اور سپر پاور کے طور پر ابھرا۔تب سے اب تک امریکا کو چین جیسے حریف کا سامنا نہیں ہوا۔صدر ٹرمپ نے 2 اپریل کو کم و بیش 90ممالک پر درآمدی محصولات عائد کر دیے۔چھ اور سات اپریل کو دنیا کی تمام فنانشل مارکیٹس گر گئیں جس کے نتیجے میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔صدر ٹرمپ ٹریڈ وار کے ساتھ Stock market manipulationبھی کرتے رہے۔

جب شیئرز گر گئے تو انھوں نے کہا کہ یہ وقت ہے زیادہ سے زیادہ خریداری کا،اور اگلے روز انھوں نے عائد کردہ ٹیرف کو 90دن کے لیے Pauseکر دیا، یوں فنانشل مارکیٹس واپس اوپر اٹھیں اور خریداروں کو ایک دو دن میں بے پناہ منافع ہوا۔صدر ٹرمپ کا اصل ہدف چونکہ چین ہے اس لیے نوے دن کا Pauseکرتے ہوئے چین کے اوپر کوئی رعایت نہیں کی گئی اور چینی مصنوعات پر محصولات برقرار رکھے گئے۔ویسے لگتا ہے جناب ٹرمپ آنکھیں بند کر کے بلا سوچے سمجھے تیر چلا رہے ہیں۔انھوں نے انٹار کٹکا کے دو ایسے بے آباد جزائر پر بھی محصولات عائد کر دیے جہاں کوئی نہیں رہتا اور پچھلے دس سال میں وہاں کوئی گیا بھی نہیں۔ ہے نہ حیرت انگیز۔

صدر ٹرمپ کے عائد کردہ درآمدی محصولات کے جواب میں چین کینیڈا اور یورپی یونین نے امریکی مصنوعات پر سوچ سمجھ کر اور ہوشیاری سے جوابی ٹیرف عائد کر دیے ہیں۔البتہ ان ممالک نے امریکا کے ان سیکٹرز کو ٹارگٹ کیا ہے جہاں سے صدر ٹرمپ کو سب سے زیادہ سپورٹ ملی اور ووٹ حاصل ہوئے۔امریکی زرعی اجناس اور خاص کر مکئی ان ممالک کی منڈیوں میں بکتی ہے۔امریکی بیف بھی ان ممالک کے نشانے پر رہا۔امریکی سفید فام کسان اور کاروباری حضرات ان محصولات سے بہت متاثر ہوں گے۔

ان کو فوری طور پر نئی منڈیاں تلاش کرنی ہوں گی۔چین نے جوابی درآمدی محصولات عائد کرنے کے ساتھ ساتھ چند چبھتے اقدامات بھی اُٹھائے ہیں۔ایک خبر کے مطابق چین نے مشہور طیارہ ساز کمپنی بوئنگ سے بہت سے طیارے خریدنے تھے۔بوئنگ کمپنی میں یہ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے جب جناب ٹرمپ نے ٹریڈ وار چھیڑ دی۔چین نے اب بوئنگ کمپنی کو دیا گیا پورا آرڈر کینسل کرنے کا کہا ہے۔ یہ قدم بوئنگ کمپنی کو دیوالیہ کر سکتا ہے۔

چین نے ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہوئے بہترین انگریزی زبان میں براہِ راست امریکی صارفین تک رسائی حاصل کی ہے اور انھیں بتایا ہے کہ امریکا کے انتہائی مشہور مہنگے برانڈ،اپنا مال چین میں سستے داموں بنوا کر امریکا لے جاتے ہیں۔امریکا میں اپنا نام اور لوگو کندہ کروا کے بہت مہنگے داموں بیچتے اور امریکی و غیر ملکی عوام کو لوٹتے ہیں۔خواتین کا ایک لیدر بیگ جس کی امریکا میں کم از کم قیمت 30ہزار ڈالر سے اوپر ہے وہی بیگ چین میں بن کر امریکا صرف 1200ڈالر میں پہنچتا ہے۔

اس طرح امریکی کارپوریٹ منافع ہزاروں گنا ہے۔چین نے امریکی صارفین کو ایڈریس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انتہائی مہنگی برانڈڈ اشیاء سستے داموں آن لائن براہِ راست چین سے خریدیں اور بے بہا بچت کریں۔یوں چین نے مہنگے امریکی برانڈوں کا پول بھی کھول دیا ہے اور براہِ راست خریداری کی ترغیب بھی دی ہے۔چین نے یورپ،امریکا اور کینیڈا کے باشندوں کو ایک ہفتے کے لیے بغیر ویزا چین آنے اور خریداری کی سہولت بھی دی ہے۔یوں چین،ٹرمپ ٹریڈ وار کے جواب میں کئی اسمارٹmoves کر رہا ہے لیکن دونوں ممالک کے لیے سب سے بہترین راستہ گفت و شنید اور دوستانہ مذاکرات ہی ہیں۔اگر یہ راستہ اپنایا جائے تو ٹریڈ وار سے بچا جا سکتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کا ایٹمی پروگرام امریکی دباؤ کا بہانہ
  • ہم جوہری پروگرام و پابندیوں کے خاتمے کے علاوہ کسی اور موضوع پر مذاکرات نہیں کرینگے، سید عباس عراقچی
  • مسقط، ایران اور امریکہ مذاکرات کا تیسرا دور اختتام پذیر، مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق
  • ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور
  • دنیا کو جوہری طاقتوں کے درمیان مکمل تصادم کے امکان پر فکر مند ہونا چاہیئے، خواجہ آصف
  • بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان مکمل تصادم کا خطرہ ہے، خواجہ آصف
  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ