امریکا چین کے ساتھ محصولات کے معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ چین کے ساتھ محصولات کا معاہدہ کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے، اور چینی صدر شی جن پنگ نے انہیں فون کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ریپبلکن صدر نے جمعے کے روز شائع ہونے والے ٹائم میگزین کو انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے کب فون کیا اور دونوں رہنماؤں نے کیا بات چیت کی، ٹرمپ نے کہا کہ وہ شی کو فون نہیں کریں گے۔
شی جن پنگ نے فون کیا ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کی طرف سے کمزوری کی علامت ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واشنگٹن میں بیجنگ کے سفارت خانے کی جانب سے اس بیان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے تازہ ترین ریمارکس شائع ہونے سے قبل واشنگٹن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دو طرفہ محصولاتی مذاکرات کے بارے میں ’عوام کو گمراہ کرنا‘ بند کرے۔
ٹرمپ نے انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے 200 ٹیرف معاہدے کیے ہیں، اور توقع ہے کہ مذاکرات تقریباً 3 یا 4 ہفتوں میں مکمل ہوجائیں گے، جس میں امریکا کو ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور سے تشبیہ دی گئی ہے، جہاں وہ قیمت مقرر کرتے ہیں، انہوں نے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کی تفصیلات نہیں دیں۔
کریمیا روس کے پاس رہے گا
ٹرمپ نے یوکرین میں روس کی جنگ سے لے کر ایران اور سعودی عرب کے ساتھ مشرق وسطیٰ تک عالمی رہنماؤں کے ساتھ مختلف معاہدے کرنے کے اپنے منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
ٹرمپ لڑائی کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں اور انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک معاہدے کے قریب ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اپنی ڈیڈ لائن ہے، جس کی تفصیلات انہوں نے نہیں بتائیں، جب کہ ان کے خصوصی ایلچی نے جمعے کے روز پیوٹن سے ملاقات کی۔
جمعے کے روز شائع ہونے والے اپنے تبصرے میں ٹرمپ نے ٹائم کو بتایا کہ کریمیا، جسے روس نے 2014 میں یوکرین سے ضبط کیا تھا، ماسکو کے ہاتھوں میں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کریمیا روس کے پاس رہے گا، اور (یوکرین کے صدر ولادیمیر) زیلنسکی اس بات کو سمجھتے ہیں، اور ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے ان کے ساتھ رہا ہے.
سعودی عرب ’ابراہام معاہدے‘ میں شامل ہوگا
مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ نے پیشگوئی کی تھی کہ سعودی عرب ’ابراہام معاہدے‘ میں شامل ہو جائے گا، یہ معاہدے ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسرائیل اور کچھ خلیجی ممالک کے درمیان کرائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں سعودی عرب ابراہام معاہدے پر عمل کرے گا، اور ایسا ہی ہوگا۔
ایران کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے نتیجے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوتا، تو امریکا ایران پر حملے کی قیادت کرے گا، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای یا صدر مسعود پیزکیان سے ملاقات کے لیے تیار ہیں، ٹرمپ نے جواب دیا کہ بالکل، وہ اگلے ماہ سعودی عرب اور خطے کا دورہ کریں گے۔
امریکا میں مقدمات
ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے عہدے کی مدت کو ’انتقام‘ کے طور پر استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے قانونی فرموں، غیر ملکی طالب علموں اور سابق امریکی عہدیداروں کو نشانہ بنانے کے لیے مقامی سطح پر صدارتی اختیارات کے استعمال کا بھی دفاع کیا۔
انہوں نے ٹائم کو بتایا کہ مجھے کچھ صحیح کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ میرے پاس بہت ساری قانونی کمپنیاں ہیں، جو مجھے بہت پیسہ دیتی ہیں۔
انہوں نے اسٹوڈنٹ ویزا کی منسوخی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن وہ اسکولوں کو تباہ نہیں کر سکتے، جیسا کہ انہوں نے کولمبیا اور دیگر کے ساتھ کیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ امریکی محکمہ انصاف کو ٹفٹس یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو عسکریت پسند گروپ حماس سے منسلک کرنے کے حوالے سے کسی ثبوت کا انکشاف کرنے کی ہدایت کریں گے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس خاص معاملے سے آگاہ نہیں ہیں لیکن وہ اس پر غور کریں گے۔
ترک شہری رومیسا اوزترک نے کہا ہے کہ امریکی امیگریشن حکام نے انہیں فلسطین کی حمایت کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر گرفتار کیا، جس میں ٹفٹس کے اسٹوڈنٹس اخبار میں ایک مضمون لکھنا بھی شامل ہے۔
Post Views: 1ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹرمپ نے کہا نے کہا کہ بتایا کہ انہوں نے کے ساتھ کریں گے بات چیت
پڑھیں:
امریکا ایٹمی دھماکے نہیں کر رہا، وزیر توانائی نے ٹرمپ کا دعویٰ غلط قرار دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع بیان کے بعد ایٹمی تجربات کے معاملے پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ نے واضح طور پر کہا ہے کہ واشنگٹن اس وقت کسی بھی قسم کے ایٹمی دھماکوں کی تیاری نہیں کر رہا۔ رائٹ کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے جن تجربات کا حکم دیا گیا ہے، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، جنہیں نان کریٹیکل یعنی غیر دھماکا خیز تجربات کہا جاتا ہے اور ان کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے دیگر حصوں کی کارکردگی کو جانچنا ہے، نہ کہ کسی نئے ایٹمی دھماکے کا مظاہرہ کرنا۔
عالمی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق فوکس نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کرس رائٹ نے واضح کیا کہ یہ تجربات دراصل ہتھیاروں کے میکانزم اور ان کے معاون سسٹمز کی جانچ کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ یقین دہانی کی جا سکے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار مستقبل میں بھی محفوظ اور مؤثر رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان تجربات کے ذریعے یہ دیکھا جائے گا کہ نئے تیار ہونے والے ہتھیار پرانے ایٹمی نظاموں سے زیادہ بہتر، محفوظ اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں یا نہیں۔
کرس رائٹ نے مزید بتایا کہ امریکا اب اپنی سائنسی ترقی اور سپر کمپیوٹنگ کی مدد سے ایسے تجربات کر سکتا ہے جن میں حقیقی دھماکے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم جدید کمپیوٹر سمیولیشنز کے ذریعے بالکل درست انداز میں یہ پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ ایٹمی دھماکے کے دوران کیا ہوگا، توانائی کیسے خارج ہوگی اور نئے ڈیزائن کس طرح مختلف نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ ہمیں زیادہ محفوظ اور کم خطرناک تجربات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل جنوبی کوریا میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات سے کچھ ہی دیر پہلے ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے امریکی فوج کو 33 سال بعد دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے دھماکے شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان نے بین الاقوامی برادری میں تشویش پیدا کر دی تھی کیونکہ امریکا نے آخری بار 1980 کی دہائی میں زیرِ زمین ایٹمی دھماکے کیے تھے۔
جب ٹرمپ سے یہ پوچھا گیا کہ آیا ان کے احکامات میں وہ زیر زمین دھماکے بھی شامل ہیں جو سرد جنگ کے دوران عام تھے، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے سے گریز کیا اور معاملہ مبہم چھوڑ دیا۔ ان کے اس غیر واضح بیان نے دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جنم دیں کہ کیا امریکا ایک نئی ایٹمی دوڑ شروع کرنے جا رہا ہے۔
اب امریکی وزیر توانائی کے تازہ بیان نے ان خدشات کو جزوی طور پر ختم کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال امریکا کی کوئی ایسی پالیسی نہیں جس کے تحت حقیقی ایٹمی دھماکے کیے جائیں۔ موجودہ تجربات صرف تکنیکی نوعیت کے ہیں، جن کا مقصد ایٹمی ہتھیاروں کے نظام کی جانچ اور مستقبل کی تیاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے ککہ صدر ٹرمپ کے بیانات اکثر سیاسی مقاصد کے لیے دیے جاتے ہیں، جن کا حقیقت سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا، لیکن اس بار معاملہ حساس ہے، کیونکہ دنیا پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی دوڑ پر فکرمند ہے۔