UrduPoint:
2025-04-26@19:43:06 GMT

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا نیا دور

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) ایران اور امریکہ کے مابین مذاکرت کے اس نئے دور سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نیا معاہدہ طے پانے کے حوالے سے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ کو روکا جا سکے۔

مذاکرات کے آغاز سے قبل ماہرین کی ملاقات ہوئی، جس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔

یہ بات چیت روم میں ہونے والے دوسرے دور کے بعد ہو رہی ہے، جسے دونوں فریقین نے تعمیری قرار دیا تھا۔

ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کے آغاز سے ہی دنیا کے بڑے تنازعات اور بحرانوں پر سمجھوتے کرانے کی کوشش شروع کی ہے، جن میں یوکرین جنگ، غزہ کا مسلح تنازعہ اور ایران کے جوہری پروگرام کا مسئلہ سرفہرست ہیں۔

(جاری ہے)

ایرانی حکومت نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اقتصادی پابندیوں کے اثرات کے باعث اور اسرائیل کے ہاتھوں خطے میں ایک سال سے جاری فوجی نقصانات کے بعد پابندیاں ختم کرانے کی خواہش رکھتی ہے۔

ایرانی سرکاری میڈیا نے ہفتے کو تصدیق کی کہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایرانی خبررساں ایجنسی ارنا (IRNA) کے مطابق، ''اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کے درمیان تیسرا دور مسقط میں شروع ہو گیا ہے۔‘‘ تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

ایرانی مذاکراتی ٹیم سے قریبی ذرائع کے مطابق ہفتے کو فریقین کے ماہرین کی ملاقات ہوئی۔

مذاکرات کا آغاز ماہرین کی سطح پر ہو گا، جہاں ممکنہ جوہری معاہدے کے لیے ابتدائی فریم ورک تیار کیا جائے گا، جس کے بعد سربراہ مذاکرات کاروں کے درمیان بالواسطہ ملاقات ہو گی۔ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، ''میرا خیال ہے کہ ہم ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیں گے۔

‘‘ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوئی تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی برقرار ہے۔

اگرچہ دونوں فریق سفارتی عمل کے حق میں ہیں لیکن دو دہائیوں سے جاری اس تنازعہ پر اب بھی دونوں کے مؤقف میں بڑا فرق بدستور برقرار ہے۔

ٹرمپ نے رواں سال فروری سے ایران پر ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی دوبارہ لاگو کی۔

انہوں نے سن 2018 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے سن 2015 کے جوہری معاہدے کو ختم کر کے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ایران کی ریڈ لائن کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے جوہری امور کے نگراں ادارے کے مطابق سن 2019 سے ایران نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزیاں شروع کر دی تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی 60 فیصد تک کی سطح پر لے جا چکا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسی ہفتے کہا کہ کسی بھی معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم کی افزودگی مکمل طور پر بند کرنا ہو گی اور اپنے واحد جوہری بجلی گھر 'بوشہر‘ کے لیے افزودہ یورینیم درآمد کرنا ہو گی۔

ایرانی حکام کے مطابق تہران کچھ پابندیاں قبول کرنے پر تیار ہے، بشرطیکہ ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جائیں۔

تاہم یورینیم کی افزودگی کا مکمل خاتمہ اور ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخیرے کی حوالگی ‘ریڈ لائن‘ ہے، جن پرتہران سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یورپ کی تجویز کیا ہے؟

یورپی ممالک نے امریکی مذاکرات کاروں کو تجویز دی ہے کہ کسی جامع معاہدے میں ایران کی بیلسٹک میزائل صلاحیت کو بھی محدود کیا جانا چاہیے تاکہ ایران جوہری ہتھیار میزائل کے ذریعے لے جانے کی صلاحیت حاصل نہ کر سکے۔

تاہم ایران کا مؤقف ہے کہ اس کے دفاعی اور میزائل پروگرام پر بات چیت نہیں ہو سکتی۔ ایرانی حکام کے مطابق میزائل پروگرام مذاکرات میں ایک بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔

گزشتہ سال ایران نے درجنوں بیلسٹک میزائل اسرائیل پر داغے تھے۔ اس سے قبل اسرائیل نے ایرانی کمانڈرز اور اس کے اتحادی ملیشیاؤں کے رہنماؤں کو ہلاک کیا تھا۔ یہ صورتحال غزہ جنگ کے دوران خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ تھی۔

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مذاکرات کا کے درمیان ملاقات ہو ایران اور کہ ایران ایران کے کے مطابق کے بعد

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ

گزشتہ برس اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات کے حفاظتی دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ 

اسرائیلی اخبار "یروشلم پوسٹ" کے مطابق اسرائیل کو یہ نادر موقع اُس وقت ہاتھ آیا جب اپریل 2024 کو ایران نے اسرائیل پر سیکڑوں میزائل اور ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔

ایران کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے اصفہان میں واقع ایک S-300 طرز کا ایرانی فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا۔

اسرائیل کے پاس موقع تھا تھا کہ دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے بعد جوہری تنصیبات پر بآسانی حملہ کرکے اسے تباہ کردیتا۔

تاہم اسرائیل نے صرف دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے پر اکتفا کیا اور جوہری تنصیبات کو چھوڑ دیا۔

اس دوران اسرائیل کی سیاسی و عسکری قیادت نے بند دروازوں کے پیچھے تین اہم اجلاس کیے۔

ان میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اب ہم ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں اور یہ نادر موقع ہے۔

عین ممکن تھا کہ اسرائیلی قیادت ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اجازت دیدی لیکن امریکا نے مداخلت کی اور حملہ رکوادیا تھا۔

اُس وقت کی امریکی قیادت کا خیال تھا اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو خطے میں ایک خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔

قبل ازیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری صلاحیت کو ایک سال پیچھے دھکیلنے کے لیے مئی میں حملہ کا منصوبہ بنایا تھا۔

تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔

 

متعلقہ مضامین

  • ایران-امریکہ غیر مستقیم مذاکرات کا اگلا راؤنڈ یورپ میں ہوگا، الجزیرہ
  • ہم جوہری پروگرام و پابندیوں کے خاتمے کے علاوہ کسی اور موضوع پر مذاکرات نہیں کرینگے، سید عباس عراقچی
  • جوہری مذاکرات: ایران اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور مکمل
  • مسقط، ایران اور امریکہ مذاکرات کا تیسرا دور اختتام پذیر، مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق
  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • ایران جوہری مذاکرات میں امید افزا پیش رفت
  • چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت
  • جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
  • امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"