کینیا میں بدامنی عروج پر‘ مظاہرین کو گولی مارنے کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیروبی (انٹرنیشنل ڈیسک) کینیا کے صدر ولیم روٹو نے حکم جاری کیا ہے کہ مظاہرین کے پیروں میں گولی مار دی جائے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق ولیم روٹو نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کے کاروبار کو نشانہ بنانے والے مظاہرین کے پیروں میں گولی مار دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جائداد یا کاروبار کو جلانے والے شخص کی ٹانگ میں گولی مار دی جائے، اسے اسپتال لے جایا جائے اور پھر اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ فائرنگ سے مظاہرین کی جان نہ جائے اور یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ایسے افراد کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں۔ صدر ولیم روٹو نے اپنے سیاسی حریفوں کو پْرتشدد مظاہروں کی سرپرستی کرنے سے خبردار کیا ساتھ ہی پولیس کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سیکورٹی فورسز پر حملہ ملک کے خلاف اعلا جنگ تصور کیا جائے گا۔ دھمکیوں، دہشت گردی اور افراتفری کے ذریعے حکمرانی نہیں کی جاسکتی اور نہ ایسا ہونے دیا جائے گا۔ حکومت کی تبدیلی صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ممکن ہے ۔مخالفین کو 2027 ء کے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں نے پولیس پر حکومت مخالف مظاہروں پر طاقت کے بے جا استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
نیپال کی نئی عبوری وزیراعظم کا کرپشن ختم کرنے اور مظاہرین کے مطالبات پورے کرنے کا اعلان
کٹھمنڈو: نیپال کی نئی عبوری وزیراعظم اور سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی نے عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے اور "جنریشن زی" مظاہرین کے مطالبات پر عمل کریں گی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق، سابق وزیراعظم کے پی شرما اویلی نے کرپشن مخالف مظاہروں اور درجنوں ہلاکتوں کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد 73 سالہ سشیلا کارکی کو عبوری وزیراعظم مقرر کیا گیا۔
سشیلا کارکی کا کہنا ہے کہ وہ صرف 6 ماہ کے لیے یہ ذمہ داری ادا کریں گی اور ملک میں امن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ انتخابات کی تیاری پر توجہ دیں گی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان نسل کرپشن کا خاتمہ، بہتر حکمرانی اور معاشی مساوات چاہتی ہے اور حکومت ان مطالبات کو سنجیدگی سے لے گی۔
یاد رہے کہ حالیہ مظاہروں میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جبکہ بدامنی کے دوران 12 ہزار سے زائد قیدی جیلوں سے فرار ہو گئے تھے، جو سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔