روس نے ایرانی سیٹلائٹ خلا میں بھیج دیا
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
مشرقی روس کے ووسٹونی خلائی مرکز سے سویوز راکٹ کے ذریعے ایرانی مواصلاتی سیٹلائٹ ’ناہید-2‘ کو مدار میں داخل کیا گیا
روس نے جمعے کے روز ایک سویوز راکٹ کے ذریعے ایرانی مواصلاتی سیٹلائٹ کو خلا میں روانہ کیا، جس کی تصدیق روسی خلائی ایجنسی ’روسکوسموس‘ نے کی۔
Iran’s Nahid-2 telecom satellite launched into orbit aboard Russian Soyuz rocket
A major leap for Tehran’s space ambitions — boosting its communications and tech capabilities pic.
— RT (@RT_com) July 25, 2025
یہ راکٹ روس کے مشرقی علاقے میں واقع ووسٹونی کاسموڈروم سے روانہ ہوا، جسے براہِ راست نشر بھی کیا گیا۔
اس راکٹ میں مجموعی طور پر 20 سے زائد مشن سوار تھے، جن میں 2 روسی سائنسی سیٹلائٹ، 18 چھوٹے تجارتی سیٹلائٹ اور ایران کا ’ناہید-2‘ شامل ہیں۔
’ناہد-2‘ سیٹلائٹ ایرانی خلائی تحقیقاتی مرکز نے تیار کیا ہے اور یہ سیٹلائٹ ایران کی خلائی ایجنسی کے ساتھ کمرشل معاہدے کے تحت لانچ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:خلیج عمان میں ایرانی ہیلی کاپٹر نے امریکی بحری جہاز کو وارننگ کیوں دی؟
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق یہ سیٹلائٹ کم مدار (Low-Earth Orbit) میں کام کرے گا، یہ ایران کی بڑھتی ہوئی خلائی صلاحیتوں کا حصہ ہے۔
یہ مشن روس اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے خلائی تعاون کا تسلسل ہے، جس میں زمین کی نگرانی اور مواصلاتی سیٹلائٹ کے شعبے شامل ہیں۔
رواں سال جنوری میں ماسکو اور تہران کے درمیان 20 سالہ جامع اسٹریٹیجک شراکت داری کا معاہدہ بھی ہوا، جس میں خلائی تحقیق کے پُرامن استعمال، توانائی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔
روسی خلائی ایجنسی وقتاً فوقتاً غیر ملکی صارفین کے لیے کمرشل سویوز مشن کے ذریعے سیٹلائٹ لانچ کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ نومبر میں روس نے ووسٹونی سے ریکارڈ 53 سیٹلائٹ خلا میں بھیجے تھے، جن میں ایران، زمبابوے اور روس-چین کا مشترکہ منصوبہ بھی شامل تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایران ایرانی راکٹ خلا خلائی اسٹیشنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران ایرانی راکٹ خلا خلائی اسٹیشن
پڑھیں:
اسرائیل کیساتھ جنگ کیلئے تیار، پر امن مقاصد کیلئے جوہری پروگرام جاری رہے گا، ایرانی صدر
تہران(انٹرنیشنل ڈیسک)ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں، انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ تہران اپنے جوہری پروگرام کو پرامن مقاصد کے لیے جاری رکھے گا۔
قطری نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر پزشکیان نے کہا کہ ہم کسی بھی نئے اسرائیلی فوجی اقدام کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور ہماری مسلح افواج ایک بار پھر اسرائیل کے اندر گہرائی میں حملہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ایرانی صدرنے کہا کہ وہ اس جنگ بندی پر انحصار نہیں کر رہے جو 12 روزہ جنگ کے اختتام پر ہوئی تھی۔
مسعود پزشکیان نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں زیادہ پُرامید نہیں ہیں، اسی لیے ہم نے خود کو ہر ممکنہ منظرنامے اور کسی بھی ممکنہ ردعمل کے لیے تیار کیا ہے، اسرائیل نے ہمیں نقصان پہنچایا، اور ہم نے بھی اسے شدید ضربیں لگائی ہیں، لیکن وہ اپنے نقصانات کو چھپا رہا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ اسرائیل کے حملوں (جن میں اعلیٰ فوجی شخصیات اور جوہری سائنسدانوں کی اموات اور جوہری تنصیبات کو نقصان شامل تھا) کا مقصد ایران کی قیادت کو ختم کرنا تھا، لیکن وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
جون کے مہینے میں اسرائیل کے حملوں میں ایران میں 900 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جب کہ اسرائیل میں کم از کم 28 افراد مارے گئے اس سے پہلے کہ 24 جون کو جنگ بندی عمل میں آئی۔
افزودگی کا پروگرام جاری رہے گا
صدرپزشکیان نے کہا کہ ایران بین الاقوامی مخالفت کے باوجود یورینیم کی افزودگی کا پروگرام جاری رکھے گا، اور اس کی جوہری صلاحیتوں کی ترقی بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں کی جائے گی۔
ایرانی صدرنے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں اور ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں، ہم جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ہمارا سیاسی، مذہبی، انسانی اور تذویراتی مؤقف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سفارت کاری پر یقین رکھتے ہیں، اس لیے مستقبل کے کسی بھی مذاکرات ’ون-ون‘ منطق کے مطابق ہونے چاہئیں، اور ہم دھمکیوں یا جبر کو قبول نہیں کریں گے۔
پزشکیان نے کہا کہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ایران کا جوہری پروگرام ختم ہو چکا ہے، محض ایک فریب ہے، ہماری جوہری صلاحیتیں ہمارے سائنسدانوں کے ذہنوں میں ہیں، تنصیبات میں نہیں۔
صدرپزشکیان کے بیانات ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ان بیانات سے بھی ہم آہنگ تھے جو انہوں نے پیر کے روز امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں دیے۔
عراقچی نے کہا تھا کہ تہران کبھی بھی یورینیم کی افزودگی کا پروگرام ترک نہیں کرے گا، لیکن وہ ایک ایسے مذاکراتی حل کے لیے تیار ہے، جس میں وہ اس پروگرام کو پرامن ثابت کرنے کی ضمانت دے گا اور اس کے بدلے پابندیاں ہٹائی جائیں گی۔
اسرائیل نے ایرانی قیادت کو نشانہ بنایا
پزشکیان نے 15 جون کو تہران میں سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران اسرائیل کی جانب سے خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے پر بھی بات کی، جس میں انہیں معمولی زخم آئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی کمانڈرز کا ایک حصہ تھا تاکہ ایرانی قیادت کو نشانہ بنا کر ملک میں افراتفری پھیلا دی جائے اور حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، لیکن یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکی حملوں کے جواب میں ایران کی جانب سے قطر کے العدید اڈے پر کیے گئے حملے قطر یا اس کے عوام پر حملہ نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ذہن میں کبھی یہ تصور بھی نہیں آیا کہ قطر اور ہمارے درمیان کوئی دشمنی یا رقابت ہو، اور یہ بھی بتایا کہ انہوں نے حملوں کے دن قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کو فون کر کے اپنی پوزیشن واضح کی تھی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ میں صاف اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ ہم نے قطر پر حملہ نہیں کیا، بلکہ اس امریکی اڈے پر حملہ کیا، جس نے ہمارے ملک پر بمباری کی، جبکہ قطر اور اس کے عوام کے لیے ہمارے جذبات ہمیشہ مثبت رہے ہیں۔
یورپی طاقتوں سے مذاکرات بحال ہوں گے
عباس عراقچی نے پیر کو کہا تھا کہ ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اب بھی یہ جائزہ لے رہی ہے کہ گزشتہ ماہ کے حملوں نے ایران کے افزودہ مواد کو کس حد تک متاثر کیا، اور تہران جلد ہی اس کی تفصیلات عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو دے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایران نے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون بند نہیں کیا، اور اگر ایجنسی دوبارہ معائنہ کار بھیجنے کی درخواست کرے گی تو اسے پرکھا جائے گا۔
آئی اے ای اے کے معائنہ کار اس ماہ کے آغاز میں ایران چھوڑ گئے تھے، جب پزیشکیان نے ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے والا قانون منظور کیا تھا۔
دریں اثنا، ایران، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کے درمیان مذاکرات جمعہ کو ترکی میں ہونے والے ہیں۔
یورپی فریقین، جو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے (جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن) کا حصہ تھے، کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران نے مذاکرات دوبارہ شروع نہ کیے تو اس پر بین الاقوامی پابندیاں دوبارہ عائد کی جائیں گی۔
Post Views: 4