بارہ روزہ جنگ نے ایران کو دوبارہ متحد کر دیا، فرانسیسی ماہر
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
ایرانیات کے فرانسیسی ماہر امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر بارہ روزہ جارحیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فضول بہانوں سے ایران پر حملے نے اس ملک کے اندرونی اختلافات کو ختم کر کے ایرانیوں میں اتحاد پیدا کیا اور یوں اسلامی جمہوریہ ایران کو فائدہ پہنچایا۔ اسلام ٹائمز۔ فرانس کے ماہر ایرانیات، جغرافیہ دان اور قومی سائنس اکیڈمی (CNRS) کے سربراہ برنارڈ آورکیڈ لبنان کے اخبار "الاخبار" سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر تھونپی گئی بارہ روزہ جنگ کے حقیقی اہداف کے بارے میں کہا: "میری نظر میں رجیم چینج پہلی ترجیح نہیں تھی بلکہ اسرائیل کا مقصد ایرانی قوم کو کمزور بنانا تھا نہ کہ اسلامی جمہوریہ کو۔ اسرائیل نے اس جنگ میں کسی بھی مذہبی شخصیت یا اعلی سطحی سیاسی عہدیدار کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ اگرچہ ایران کے صدر بھی ایک حملے میں زخمی ہو گئے تھے لیکن اس کا اصل نشانہ ایرانی قوم تھی۔" انہوں نے مزید کہا: "ایران نے 2015ء میں امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) پر دستخط کیے تھے اور اس کے تحت بین الاقوامی انسپکٹرز کی نظارت قبول کی تھی۔ اس کے بعد ایران کے درمیانے طبقے نے ترقی کی اور ایران نے دنیا کے لیے اپنے دروازے کھول رکھے تھے اور یہ اسرائیل کے لیے خطرہ تھا۔" یہ فرانسیسی ماہر مزید کہتے ہیں: "خود تل ابیب کے پاس 300 ایٹم بم ہیں لہذا وہ ایران کی جوہری طاقت سے پریشان نہیں ہے اور یہ بہانہ محض ایک نظریاتی بہانہ ہے۔ دوسری طرف 92 ملین ایرانی مشرق وسطی کی تہذیب یافتہ قوم شمار ہوتے ہیں، وہ ایک طاقتور ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور مخصوص افکار و نظریات کا مالک ہونے کے ناطے عالمی برادری سے تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی پریشانی کی اصل وجہ یہی ہے۔"
فرانسیسی ماہر ایرانیات برنارڈ آورکیڈ نے مزید کہا: "چونکہ ایران کے جوہری پروگرام کو ایرانی عوام کی حمایت حاصل ہے لہذا اس پر حملہ دراصل ایرانی علم و دانش پر حملہ ہے۔ اس حملے میں نشانہ بننے والے محققین اور سائنس دانوں کی تعداد ان فوجی کمانڈرز سے کہیں زیادہ تھی جنہیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ البتہ ٹرمپ کا طریقہ کار مختلف ہے۔ وہ ایران کو کمزور کرنے کے درپے ہے لیکن اسے نابود نہیں کرنا چاہتا۔ ٹرمپ اس بات کو اہمیت نہیں دیتا کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کا نظام نافذ ہے یا کوئی اور۔ انسانی حقوق کی بھی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ ایران میں اسے سرمایہ کاری کا موقع مل سکے۔ ایران ایسا ملک ہے جو نظریاتی اور علمی لحاظ سے بہت ترقی یافتہ ہے اور اس کے پاس آئندہ دو سو برس تک تیل اور گیس موجود ہے لہذا اس کے پاس آمدن کے اچھے مواقع پائے جاتے ہیں۔ ٹرمپ کی آرزو ہے کہ وہ ایران کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرے اور اسی وجہ سے وہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں حتمی راہ حل کا خواہاں ہے تاکہ اس طرح اقتصادی مفادات حاصل کر سکے۔" انہوں نے مزید کہا: "درست ہے کہ ایران میں کچھ مذہبی اور قومی اقلیتیں بھی پائی جاتی ہیں لیکن اس ملک کا قومی تشخص بہت مضبوط ہے۔ شاید بعض طاقتیں بلوچ، کرد یا ترکمن قوموں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں لیکن وہ ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتیں اور نظام کی تبدیلی ناممکن ہے۔ اس بارے میں واضح مثال سابق سوویت یونین کی ہے۔ سوویت یونین کے زوال کی وجہ تاجک اور ازبک باشندوں کی بغاوت نہیں تھی بلکہ گورباچف کے فیصلے تھے۔"
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فرانسیسی ماہر ایران کے وہ ایران کہ ایران اور اس
پڑھیں:
ایرانی مواصلاتی سیٹلائٹ ’’ناہید 2‘‘ کامیابی سے لانچ کردیا گیا
ایران کے خلائی پروگرام کو ایک اور سنگ میل عبور کرتے ہوئے روس نے ایک ایرانی ساختہ مواصلاتی سیٹلائٹ کامیابی سے خلا میں روانہ کر دیا ہے۔
یہ مشن روس کے ووسٹوچنی کاسمودروم سے سويوز راکٹ کے ذریعے مکمل کیا گیا، جس میں ’’ناہید-2‘‘ نامی سیٹلائٹ کو مدار میں بھیجا گیا۔
سرکاری ایرانی میڈیا کے مطابق یہ سیٹلائٹ مکمل طور پر ایرانی انجینئرز کی محنت کا نتیجہ ہے اور اس کا وزن تقریباً 110 کلوگرام ہے۔
یہ کامیابی ایران کی خلائی ٹیکنالوجی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہارت کا مظہر ہے، تاہم مغربی ممالک خاص طور پر امریکا اور یورپ میں اس پیش رفت کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مغربی حکومتوں کو اندیشہ ہے کہ ایران کا خلائی پروگرام درحقیقت اس کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی ایک کوشش بھی ہو سکتی ہے، جو خطے میں عسکری توازن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سیٹلائٹ لانچ ایسے وقت میں عمل میں آیا ہے جب ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات ایک بار پھر استنبول میں شروع ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کار اس تناظر میں ایران کی خلائی سرگرمیوں کو سفارتی دباؤ کے ایک ممکنہ حربے کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ دسمبر میں بھی ایران نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ملکی سطح پر تیار کردہ سیٹلائٹ کیریئر کے ذریعے اپنی تاریخ کا سب سے بھاری پے لوڈ کامیابی سے خلا میں بھیجا ہے۔