بالی ووڈ کی نڈر اور بے باک اداکارہ شروتی ہاسن اپنی نجی زندگی کے معاشقوں کے باعث بھی خبروں کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں فلم فیئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے ان سوالوں کا بھی بڑے پر وقار انداز میں جواب دیا جن میں لوگ ان سے یہ پوچھتے ہیں: ’’اب یہ کون سے نمبر کا بوائے فرینڈ ہے؟‘‘


اداکارہ شروتی ہاسن ہمیشہ اپنی ذاتی زندگی کو لے کر کھل کر بات کرتی آئی ہیں۔ چاہے رشتوں کی اونچ نیچ ہو یا دل شکستگی کا قصہ، شروتی نے کبھی اپنے جذبات پر پردہ نہیں ڈالا۔ جب شروتی سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں اپنی زندگی میں کسی چیز پر افسوس ہے تو انہوں نے بے ساختہ جواب دیا، ’’میں نے کچھ لوگوں کو انجانے میں دکھ پہنچایا ہے، جس کا مجھے افسوس ہے۔ باقی معاملات پر میرے پاس کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں مانتی ہوں کہ میں کبھی کبھار ایک مسخرہ بنی، لیکن یہ بھی میرا سفر تھا۔ البتہ جن لوگوں کی میرے دل میں خاص جگہ تھی، انہیں تکلیف دینا میری سب سے بڑی ادھوری معافی ہے، جسے میں آج بھی دل سے مانتی ہوں۔‘‘

رشتوں، بریک اپس اور دل ٹوٹنے کے موضوع پر بات کرتے ہوئے شروتی نے اعتراف کیا کہ کاش وہ کبھی اپنے رشتوں کے اثر میں اتنی نہ آتیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم سب کی زندگی میں ایک ایسا خطرناک سابق ہوتا ہے جس کی یاد تکلیف دیتی ہے، لیکن مجموعی طور پر میں اپنے تمام پرانے رشتوں کو بغیر کسی پچھتاوے کے بند کر چکی ہوں۔‘‘

جب لوگ طنزیہ انداز میں ان سے پوچھتے ہیں کہ ’’یہ کون سے نمبر کا بوائے فرینڈ ہے؟‘‘ تو شروتی بڑی بردباری سے جواب دیتی ہیں، ’’آپ کےلیے یہ محض ایک گنتی ہوسکتی ہے، لیکن میرے لیے یہ ہر اس بار کی کہانی ہے جب میں اپنی چاہی گئی محبت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ اس لیے میں اس بات پر شرمندہ نہیں ہوتی.

.. بس کبھی کبھی انسان ہونے کے ناتے تھوڑا سا دل ضرور دُکھتا ہے۔‘‘

شروتی نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے رشتوں میں وفادار اور مخلص رہی ہیں۔ اگر کبھی کسی کو چننے سے گریز کیا تو انہیں کسی کو جوابدہ ہونے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ رشتوں کے بکھرنے پر وہ اپنے سابق ساتھیوں کو قصوروار نہیں ٹھہراتیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے

پڑھیں:

ایران کی فتح

یہ درست ہے کہ ’’اسرائیل ایران پر حملہ کرنے والا ہے‘‘کا شور پوری دنیا میں سنا جارہا تھا، اس لیے ایران کو بھی اس کی خبر ہونی چاہیے تھی۔ اگر خبر تھی تو وہ اپنی مسلّح افواج کے چوٹی کے جرنیلوں کی حفاظت کیوں نہ کرسکا۔ اور دشمن اس کے فوجی کمانڈروں اور ایٹمی سائینسدانوں کو قتل کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ یہ سوال بہت اہم ہیں مگر یہ وقت ایران سے ان سوالوں کے جواب مانگنے کا نہیں بلکہ آزمائش کی اس مشکل گھڑی میں ایران کے ساتھ کھڑا ہونے کا ہے۔

اس لیے کہ ہماری طرح ایرانی باشندوں کے سینوں میں بھی لاالہ الاللہ محمدالرسول اللہ کا مقدّس کلمہ موجزن رہتا ہے، اس لیے کہ کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ کی طرح تہران اور اصفہان کی مسجدوں سے بھی اللہ اکبر کی تکبیر یں بلند ہوتی ہیں۔

جوبھی اللہ تعالیٰ کو کائنات اور انسانوں کا خالق اور حضرت محمد ؐ کو آخری نبی مانتا ہے اور آخرت پر یقین رکھتا ہے، وہ اُمّتِ مسلمہ کا رکن ہے اور مصیبت کی گھڑی میں اس کی مدد کرنا دنیا بھرکے مسلمانوں کا فرض بن جاتا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی اپنی تقریروں میں کسی فرقے کا نہیں صرف اسلام کا نام لیتے ہیں، مخلوق سے نہیں صرف خالق سے مدد مانگتے ہیں اور قرآن سے دوری کو ہی مسلمانوں کے مسائل اور مصائب کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔

اسرائیل کا وزیرِاعظم نیتن یاہو غزہ میں جس طرح معصوم بچوں عورتوں اور نہتّے انسانوں کا قتلِ عام کررہا ہے اس سے واضح ہوچکا ہے کہ اس شخص کا انسانیّت سے کوئی واسطہ نہیں۔ خود اسرائیل کے عوام اور یہودیوں کی کئی تنظیمیں بھی اس کی مذمّت کرچکی ہیں۔ اس کے گرینڈ پلان سے سب باخبر ہیں، کیونکہ وہ اپنے مذموم عزائم کا اظہار کرتا رہتا ہے۔

پورے مڈل ایسٹ پر قبضہ کرنے کے علاوہ ایران کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنا اس کے ایجنڈے کے اہم ترین اہداف ہیں، ایسا کرکے وہ پورے خطّے کا چوہدری بننے کا خواہشمند ہے، اس لیے پاکستان ایران پر اسرائیلی حملے سے لاتعلّق نہیں رہ سکتا۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی کھلی جارحیّت اور اس سے پہلے پاکستان پر ہندوستان کا حملہ ایک گرینڈ پلان کا حصّہ ہوسکتا ہے۔ اس میں بھارت اور اسرائیل کو امریکا کی مکمل اشیرباد حاصل تھی اور ہے اور اس کا مقصد ان دونوں مسلم ممالک کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانا تھا، مگر کائناتوں کے طاقتور ترین شہنشاہ کو اپنے نام لیواؤں کی رسوائی قبول نہ تھی لہٰذا ان کے عزائم ناکام بنادیے گئے۔

 اسرائیل کے حملے سے ایران کی انٹیلیجنس کی ناکامی بہت واضح ہوئی ہے۔ موساد نے ایران کے اندر جس حد تک نیٹ ورک قائم کرلیا تھا وہ بے حد تشویشناک ہے، ایران پر لگی پابندیوں کی وجہ سے اسے بہت مشکلات کا سامنا بھی رہا ہے مگر ایران کو اپنا انٹیلی جنس سسٹم، اپنی ائرفورس، اپنا ائر ڈیفینس سسٹم اور سائبر وارفیئر سسٹم بہت جدید اور مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی ضرورت تھی جو وہ نہیں کرسکا۔ اسرائیل کو ایران میں موجود اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنی صحیح معلومات مل رہی تھیں کہ اس نے پہلے حملے میں ہی ایران کی پوری عسکری قیادت اور چوٹی کے سائینسدانوں کو قتل کردیا۔

مگر اتنے بڑے نقصان کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ایران اب اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ اسرائیل کو جواب دے سکے یا اس پر جوابی حملہ کرسکے مگر ایران کی مذہبی، سیاسی اور عسکری قیادت نے غیر معمولی resilience کا مظاہرہ کیاہے۔ بہت کم وقت میں اپنے وسائل مجتمع کیے اور پلٹ کر اسرائیل پر مسلسل حملے کرکے نہ صرف دنیا کو حیران کردیابلکہ اسرائیلی دفاعی نظام کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے myth کو توڑ کر رکھ دیا ہے ۔ پہلی بار ایران کے میزائلوں سے اسرائیل کے اندر عمارتیں تباہ ہوئی ہیں، سائرن بجے ہیں، لوگ پناہ لینے کے لیے بھاگ رہے ہیں۔

ایرانی میزائلوں کو روکنے کے لیے اگرچہ رکاوٹیں بہت ہیں مگر ان تمام رکاوٹوں اور Interceptions سے بچ کر 1500 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے کچھ میزائل اسرائیل کے اندر اپنے اہداف سے ٹکرانے میں کامیاب ہوئے جن کی وجہ سے پورے اسرائیل میں خوف و ہراس پھیل چکا ہے، اسرائیل میں ہونے والے جانی نقصان سے اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ کے ایکس پر جاری کیے گئے اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ہم ہلاک ہونے والوں کا ملکر سوگ منائیں گے‘‘ 1973کے بعد پہلی بار اسرائیل نے اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کا دکھ اور کرب دیکھا ہے، اس سے شاید اس کی درندگی میں کچھ کمی آئے۔

ایران کے ایٹمی اثاثے اور پلانٹ تباہ کرنے کے علاوہ امریکا اور اسرائیل کا مشترکہ ہدف (جس کا وہ کئی بار اعلان کرچکے ہیں) وہاں کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے اور موجودہ مذہبی اور سیاسی قیادت کو ہٹاکر ان کی جگہ مصر ، اردن یا شام کی طرح کا کوئی سیٹ اپ لانا چاہتا ہے۔ ایران کے سابق شاہ رضاشاہ پہلوی کا بیٹا بھی انٹرویو دینے کے لیے نیتن یاہو کے پاس حاضری لگا چکا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے اس ہدف کی حمایت میں کئی قلمی کارندے بھی متحرّک ہو چکے ہیں جن میں پاکستان کے بھی کئی چڑی مارکہ تجزیہ کار شامل ہیں۔

پاکستانی لبرلز دین سے بغض رکھنے کی وجہ سے ایران کی مذہبی قیادت کے خلاف ہیں ورنہ اگر کوئی بے دین حکمران اپنے ملک میں انسانی حقوق پامال کرتا رہے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مودی کی مسلم کش پالیسیوں پر کبھی شدّت سے تنقید نہیں کی اور نہ ہی غزہ میں ہونے والے مظالم کے خلاف کھل کر لکھا ہے۔

اس وقت ایران کے لیے رجیم کا تخفّظ اتنا ہی اہم ہے جتنا خود ملک کا دفاع ۔ ایران کے سپریم لیڈر سیّد علی خامینائی نے اور ان کے بعد ایران کے صدر نے قوم کو اتنے بڑے صدمے میں ہمّت اور حوصلہ دینے، فوراً اُٹھ کھڑا ہونے اور اسرائیل پر جوابی حملہ کرنے کا جذبہ اور جرأت پیدا کرنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران کے عوام اپنی موجودہ قیادت کے بارے میں تخفّظات رکھتے تھے مگر دشمن کے خلاف پوری قوم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی ہے۔ ویسے بھی ایرانی عوام اپنے دشمنوں کے اکسانے پر نہ حکومت تبدیل کریں گے اور نہ ہی کسی امریکی اور اسرائیلی پٹھوکو قبول کریں گے۔

بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی راء کا بھی ایران میں بڑا مضبوط نیٹ ورک ہے، اس نے بھی دوستی کے روپ میں یقیناً دشمنی کا کردار ادا کیا ہے اور اسرائیل کو اہم ترین معلومات فراہم کی ہیں۔ بھارت کے اس کردار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ایران کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں اور اسے ا ب دوست اور دشمن کا واضح فرق معلوم ہوجانا چاہیے ۔ ایران کو اب اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرنی چاہیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان، ترکی ، ملیشیا، ایران، افغانستان، انڈونیشیا، فلسطین (اور بھی جو ملک ساتھ شامل ہوں ) کو مشترکہ دفاعی پالیسی تشکیل دینی چاہیے اور اس ضمن میں چین اور روس کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔

مذکورہ مسلم ممالک کے وفود پوری دنیا میں جائیں اور اسرائیل کو ’’انسانوں کا سب سے بڑا دشمن‘‘ اور ’’انسانیت کے لیے سب سے بڑے خطرے‘‘ کے طور پر اس کے گھناؤنے کردار کو دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ دنیا بھر کی حکومتیں اور عوام دونوں اس سے متنفّر ہوں اور اس سے ہر قسم کا ناطہ توڑ لیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے خطرناک عزائم دیکھ کر پاکستان کو ایٹمی قوّت بنانے والے افراد کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں، اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، ڈاکٹر ثمر مبارک اور میاں نواز شریف نمایاں ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی بیشمار غیر معروف ہیرو ہیںجنھوں نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا ہے۔

اﷲ تعالیٰ پاکستان کے ان محسنوں پر اپنی رحمتیں نازل فرمائیں۔ پاکستان کو ایک جنگِ مسلسل کا سامنا ہے، اس کے لیے آنکھ جھپکنے کی سستی بھی گوارہ نہیں۔ اﷲ کا حکم ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو یعنی اپنا جنگی سازوسامان اور جنگی تیاریاں مکمل رکھو۔ مسلم دنیا کے عظیم جرنیل صلاح الدّین ایّوبی کہا کرتے تھے کہ جنگ آپڑے تو جنگ میں حصّہ لو اور جنگ ختم ہوجائے تو جنگ کی تیّاری میں لگ جاؤ۔ شاعرِ مشرق درست کہہ گئے ہیں،

؎ تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

پاکستان اور ترکی ہی نہیں تمام مسلم ممالک کو کھل کر ایران کی مدد کرنی چاہیے اگر مزید ایک ہفتے تک ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کی عمارتوں سے ٹکراتے رہے اور سپریم لیڈر اور صدر محفوظ رہے تو پھر وہ اسرائیل کی شکست اور ایران کی فتح ہوگی۔

متعلقہ مضامین

  • ججز ٹرانسفر کیس،درخواست پر دیے گئے دلائل آپس میں ٹکرا رہے ہیں،جسٹس مظہر
  • ایران کی فتح
  • دہشتگرد بلوچستان کے ساتھ رشتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر کا جناح یونیورسٹی کراچی کا دورہ
  • فتنۃ الہندوستان کے مٹھی بھر دہشت گرد بلوچستان کے ساتھ رشتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • شوہر نے کبھی کام کرنے سے نہیں روکا مگر فیشن میں حدود رکھنے کا کہتے ہیں، شنیتا مارشل
  • اسرائیلی جارحیت کیخلاف ایران نے ٹکا کر جواب دیا اور دے بھی رہا ہے، شیری رحمٰن
  • “ایسا دھماکا پہلے کبھی نہیں سنا”، تل ابیب سے اسرائیلی صحافی کا حیران کن بیان
  • ایسا دھماکا پہلے کبھی نہیں سنا، تل ابیب سے اسرائیلی صحافی کا حیران کن بیان
  • ایران کا ثالثوں کو انکار، اسرائیلی جارحیت کا مکمل جواب دیے بغیر مذاکرات نہیں ہوں گے
  • امریکا حملوں میں برابر کا شریک، خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ایران کا دوٹوک جواب