Express News:
2025-06-13@09:13:23 GMT

پڑوسی ممالک کی دہشت گردی و آبی جارحیت

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 54 خوارج دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ خوارج ’’ اپنے غیر ملکی آقاؤں‘‘ کے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑنے سے دریائے جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔

 اس واقعے سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان میں خارجی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں میسر ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت انھیں کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون بھی نہیں کر رہی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی دہشت گرد تنظیموں کے لیے چھتری تنظیم بن رہی ہے، دہشت گرد تنظیمیں خطے اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

ان خطرات میں القاعدہ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں شامل ہیں، یہ تنظیمیں پاکستان اور خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہیں، یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت داری بھی کررہی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے، ان حملوں میں پاکستانی فوجی، شہری اور ریاستی ادارے نشانہ بنتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔

بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی بلوچستان میں پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے، افغان عبوری حکومت خطے کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔دوسری جانب بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان، سری لنکا، چین اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے اور درپیش چیلنجز کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔

معاصر تاریخ میں اس کی دوسری مثال ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے کہ دو ہمسایہ ملک مل کر اپنے ایک ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کی اس طرح کھل کر اعانت کررہے ہوں۔ افغان طالبان اور بھارتی حکومت کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ طالبان نے کابل سنبھالنے کے بعد وہیں سے کام شروع کیا جہاں بیس برس پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ افغانستان ایک بار پھر بھارت کی جھولی میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور طالبان حکومت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہے ۔

 پاکستان کبھی بھی بھارت سے کسی اچھے معاملے کی توقع نہیں کرسکتا۔ حالیہ آبی جارحیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں جب ایک لوکل علیحدگی پسند تنظیم نے مسلح کارروائی کر کے وادی میں موجود 25 سے زائد بھارتی سیاحوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کر دیا تو بھارتی حکومت نے اس حملے کا بھی ہمیشہ کی طرح بنا تحقیق و ٹھوس ثبوت، الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے رد عمل کے طور پہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پہ معطل کرنے جیسا سنگین اقدام اٹھایا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی روح کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔

بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔ جہلم پر12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ اس معاہدے کے چند برس بعد ہی اس کے تباہ کن نتائج پاکستان میں سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ راوی دریا ایک گندے نالے کی شکل اختیار کرگیا اور جنوبی پنجاب میں بھی دریا خشک ہوتے چلے گئے۔

اس کے ساتھ ہی بھارت نے یہ کیا کہ جب بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جس سے غیر متوقع طور پر پانی کے ریلے آ کر یہاں تباہی پھیلانے لگے۔ رتل اور کشن گنگا آبی بجلی کے منصوبے ہیں ۔ اس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی رسد مزید متاثر ہو رہی ہے ۔

پاکستان کے اعتراض کے باوجود بھارت نے ان منصوبوں پر کام مکمل کیا ہے اور دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں ہے اور پاکستان پچھلے ایک دہائی سے مسلسل یہ اعتراض اٹھا رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کشن گنگا ڈیم دریائے جہلم پر پاکستان کے حصے کے پانی کو روک رہا ہے جب کہ رتل ڈیم دریائے چناب پر ہے۔

غذائی تحفظ کا سب سے بڑا تعلق پانی کی فراہمی سے ہے اگر دریاؤں میں پانی روکا جائے تو کاشت کاری شدید متاثر ہوتی ہے جس سے فصل کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہیں۔ بھارت کھلم کھلا کہہ چکا ہے کہ وہ اس معاہدے سے دست بردار ہورہا ہے ایسی صورت میں پاکستان یا عالمی بینک کچھ نہیں کرسکیں گے جیسا کہ کشمیر میں ہوا۔ سندھ طاس معاہدہ جتنا بھی بُرا سہی کم از کم اس میں کچھ ضمانتیں تو ہیں مثلاً یہ کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریاؤں پر منصوبے ایک دوسرے کی رضا مندی کے بغیر شروع نہیں کرسکتا تاکہ اگر اعتراض ہو تو اسے کسی طرح حل کیا جائے۔ سندھ طاس معاہدے سے ملنے والا پانی پاکستان کی تقریباً پانچ کروڑ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بھارت کا وہ رویہ ہے جس کے تحت وہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت جموں کشمیر اور لداخ میں دریائے سندھ پر آٹھ نئے آبی منصوبے شروع کررہا ہے جن میں سات منصوبے لداخ میں اور ایک جموں کشمیر میں ہوگا۔ تقریباً تین ارب روپے کی لاگت سے لداخ میں در بکشیو آبی بجلی کا منصوبہ صرف ڈھائی سال میں مکمل ہونا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ پاکستان کی غفلت کا دخل بھی ہے کیوں کہ ہماری حکومتیں اعتراضات بہت دیر سے کرتی ہیں۔

 سندھ اور بلوچستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کے جنوبی علاقے پانی سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں جن کے باعث ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی اوپر کی طرف آکر زمین کو شور زدہ کررہا ہے جس سے سجاول، ٹھٹھہ، بدین اور دیگر علاقوں میں کاشت کاری بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔

پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی ثالثی فورمز پر بھی لے جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متاثرہ ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی خلاف ورزیوں کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرے اور معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں پاکستان کے لیے سفارتی اقدامات بھی اہم ہیں۔

پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر دوست ممالک اور اتحادیوں کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق کرنے جیسے کسی اقدام سے باز رہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان میں میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کے اس معاہدے بھارت کی ٹی ٹی پی نہیں کر کے ساتھ رہی ہیں رہا ہے رہی ہے ہے اور کے لیے

پڑھیں:

 امریکی سینٹرل کمانڈ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا

واشنگٹن:امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل ایرک کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف مثبت اور فعال کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔
امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جنرل کوریلا کا کہنا تھا کہ داعش خراسان اس وقت عالمی سطح پر سب سے سرگرم دہشت گرد تنظیموں میں شمار ہوتی ہے، پاکستان ایک غیر معمولی انسدادِ دہشت گردی شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا  ۔
جنرل کوریلا نے اعتراف کیا کہ پاکستان کے ساتھ قریبی انٹیلی جنس تعاون کے نتیجے میں داعش خراسان کے درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا گیا، ان گرفتاریوں میں تنظیم کے کم از کم پانچ انتہائی مطلوب رہنما بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس شیئرنگ کے ذریعے امریکا کو کئی اہم کامیابیاں دلائیں، ان کامیابیوں میں ایبے گیٹ بم دھماکے کے ماسٹر مائنڈ جعفر کی گرفتاری اور اس کی حوالگی شامل ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ نے کہا کہ اس گرفتاری کے فوراً بعد چیف آف آرمی سٹاف افیلڈ مارشل عاصم منیر نے ذاتی طور پر رابطہ کر کے اطلاع دی، پاکستان محدود مگر مؤثر انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کے ذریعے داعش خراسان کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دہشت گرد گروہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدی پٹی میں سرگرم ہے، پاکستان کی شراکت داری انسداد دہشت گردی کے عالمی تناظر میں انتہائی اہم اور مؤثر ثابت ہو رہی ہے۔
امریکی جنرل نے کہا کہ 2024 کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مغربی علاقوں میں ایک ہزار سے زائد دہشت گرد حملے ہوئے، ان حملوں میں تقریباً 700 سیکیورٹی اہلکار اور شہری جاں بحق اور 2500 زخمی ہوئے ہیں، پاکستان فعال انسداد دہشت گردی کی جنگ لڑ رہا ہے۔
سربراہ سینٹرل کمانڈ رنے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش خراسان کمزور ہوچکی اور اس کی سرگرمیوں میں کمی آئی ہے، اس کی بنیادی وجہ حالیہ مہینوں میں انہیں پہنچنے والا بھاری نقصان ہے۔
سربراہ سینٹرل کمانڈ ر نے کہاکہ ہمیں پاکستان اور بھارت دنوں کے ساتھ تعلقات رکھنا ہوں گے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی ایسا دو ٹوک فیصلہ ہے کہ اگر بھارت سے تعلق ہو تو پاکستان سے نہیں ہو سکتا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری
  • بھارت کو اپنی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے پر غور کرنا چاہیے،پاکستان
  • امریکا نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا
  • دہشت گردی کیخلاف جنگ، پاکستان اور اسپین ایک پیج پر
  • بھارت الزامات لگانے کے بجائے اپنی دہشت گردی پر غور کرے،ترجمان دفتر خارجہ
  •  پاکستان کو انسدادِ دہشتگردی کمیٹی کا نائب سربراہ کیوں بنایا؟بھارت کا سلامتی کونسل سے شکوہ
  • بھارت کو اپنی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے پرغور کرنا چاہیے، دفترخارجہ
  •  امریکی سینٹرل کمانڈ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اہم شراکت دار قرار دے دیا
  • مودی حکومت پڑوسی ممالک کیساتھ بامعنی بات چیت میں ناکام ہے، شرد پوار
  • بھارت کی آبی جارحیت کے بعد پاکستان نے بجٹ میں آبی وسائل کے لیے کتنی رقم رکھی؟ حیران کن اعدادوشمار منظرعام پر