پڑوسی ممالک کی دہشت گردی و آبی جارحیت
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 54 خوارج دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق یہ خوارج ’’ اپنے غیر ملکی آقاؤں‘‘ کے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے دراندازی کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسری جانب بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑنے سے دریائے جہلم میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
اس واقعے سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ افغانستان میں خارجی دہشت گردوں کو پناہ گاہیں میسر ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت انھیں کنٹرول کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے تعاون بھی نہیں کر رہی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی دہشت گرد تنظیموں کے لیے چھتری تنظیم بن رہی ہے، دہشت گرد تنظیمیں خطے اور دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔
ان خطرات میں القاعدہ، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی تنظیمیں شامل ہیں، یہ تنظیمیں پاکستان اور خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہی ہیں، یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت داری بھی کررہی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سرحدی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کرتی ہے، ان حملوں میں پاکستانی فوجی، شہری اور ریاستی ادارے نشانہ بنتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں کے نتیجے میں ہزاروں جانیں ضایع ہو چکی ہیں۔
بی ایل اے اور مجید بریگیڈ بھی بلوچستان میں پاک چین اقتصادی تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہی ہے، افغان عبوری حکومت خطے کو لاحق خطرات سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔دوسری جانب بھارت کی عالمی دہشت گردی صرف بلوچستان، پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ پورے خطے کو نشانہ بنا رہا ہے۔ عالمی شواہد اور اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ ایک طرف وہ مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے تو دوسری طرف اس نے خود اپنے ملک کے اندر اقلیتوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھوٹان، سری لنکا، چین اور پاکستان میں بھارتی دراندازی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھارتی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، ماورائے عدالت قتل اور دوست ممالک کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اس کی شریک کار بن چکی ہے۔اس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے اور درپیش چیلنجز کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
معاصر تاریخ میں اس کی دوسری مثال ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے کہ دو ہمسایہ ملک مل کر اپنے ایک ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کی اس طرح کھل کر اعانت کررہے ہوں۔ افغان طالبان اور بھارتی حکومت کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ طالبان نے کابل سنبھالنے کے بعد وہیں سے کام شروع کیا جہاں بیس برس پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ افغانستان ایک بار پھر بھارت کی جھولی میں جاکر بیٹھ گیا ہے اور طالبان حکومت پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کررہی ہے ۔
پاکستان کبھی بھی بھارت سے کسی اچھے معاملے کی توقع نہیں کرسکتا۔ حالیہ آبی جارحیت بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے۔ چند دن پہلے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں جب ایک لوکل علیحدگی پسند تنظیم نے مسلح کارروائی کر کے وادی میں موجود 25 سے زائد بھارتی سیاحوں کو ہلاک اور 10 کو زخمی کر دیا تو بھارتی حکومت نے اس حملے کا بھی ہمیشہ کی طرح بنا تحقیق و ٹھوس ثبوت، الزام پاکستان پہ لگاتے ہوئے رد عمل کے طور پہ دونوں ممالک کے درمیان موجود سندھ طاس معاہدے کو یک طرفہ طور پہ معطل کرنے جیسا سنگین اقدام اٹھایا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان موجود معاہدے کی روح کے خلاف ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے اور یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی سالمیت پہ آبی جارحیت سے کم کچھ نہیں۔
بھارت دریائے سندھ میں گرنے والے ندی نالوں پر بھی 14چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہار سے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جارہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔ جہلم پر12اور چناب پر مزید 20چھوٹے ڈیم بنائے جانے کے منصوبوں پر بھی کام جاری ہے اور یہ تمام آبی تجاوزات ان دریاؤں پر ہورہی ہیں جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ اس معاہدے کے چند برس بعد ہی اس کے تباہ کن نتائج پاکستان میں سامنے آنا شروع ہوگئے تھے۔ راوی دریا ایک گندے نالے کی شکل اختیار کرگیا اور جنوبی پنجاب میں بھی دریا خشک ہوتے چلے گئے۔
اس کے ساتھ ہی بھارت نے یہ کیا کہ جب بھی سیلابی کیفیت پیدا ہوئی ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جس سے غیر متوقع طور پر پانی کے ریلے آ کر یہاں تباہی پھیلانے لگے۔ رتل اور کشن گنگا آبی بجلی کے منصوبے ہیں ۔ اس سے پاکستان کی طرف آنے والے پانی کی رسد مزید متاثر ہو رہی ہے ۔
پاکستان کے اعتراض کے باوجود بھارت نے ان منصوبوں پر کام مکمل کیا ہے اور دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ بھارت کو پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے کی اجازت نہیں ہے اور پاکستان پچھلے ایک دہائی سے مسلسل یہ اعتراض اٹھا رہا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی۔ کشن گنگا ڈیم دریائے جہلم پر پاکستان کے حصے کے پانی کو روک رہا ہے جب کہ رتل ڈیم دریائے چناب پر ہے۔
غذائی تحفظ کا سب سے بڑا تعلق پانی کی فراہمی سے ہے اگر دریاؤں میں پانی روکا جائے تو کاشت کاری شدید متاثر ہوتی ہے جس سے فصل کم یا بالکل ختم ہوسکتی ہیں۔ بھارت کھلم کھلا کہہ چکا ہے کہ وہ اس معاہدے سے دست بردار ہورہا ہے ایسی صورت میں پاکستان یا عالمی بینک کچھ نہیں کرسکیں گے جیسا کہ کشمیر میں ہوا۔ سندھ طاس معاہدہ جتنا بھی بُرا سہی کم از کم اس میں کچھ ضمانتیں تو ہیں مثلاً یہ کہ کوئی بھی فریق تقسیم شدہ دریاؤں پر منصوبے ایک دوسرے کی رضا مندی کے بغیر شروع نہیں کرسکتا تاکہ اگر اعتراض ہو تو اسے کسی طرح حل کیا جائے۔ سندھ طاس معاہدے سے ملنے والا پانی پاکستان کی تقریباً پانچ کروڑ ایکڑ اراضی کو سیراب کرتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی بھارت کا وہ رویہ ہے جس کے تحت وہ دریائے ستلج میں پانی چھوڑتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت جموں کشمیر اور لداخ میں دریائے سندھ پر آٹھ نئے آبی منصوبے شروع کررہا ہے جن میں سات منصوبے لداخ میں اور ایک جموں کشمیر میں ہوگا۔ تقریباً تین ارب روپے کی لاگت سے لداخ میں در بکشیو آبی بجلی کا منصوبہ صرف ڈھائی سال میں مکمل ہونا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ پاکستان کی غفلت کا دخل بھی ہے کیوں کہ ہماری حکومتیں اعتراضات بہت دیر سے کرتی ہیں۔
سندھ اور بلوچستان پہلے ہی پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ کے جنوبی علاقے پانی سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں جن کے باعث ساحلی علاقوں میں سمندر کا پانی اوپر کی طرف آکر زمین کو شور زدہ کررہا ہے جس سے سجاول، ٹھٹھہ، بدین اور دیگر علاقوں میں کاشت کاری بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔
پاکستان اس مسئلے کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا بین الاقوامی ثالثی فورمز پر بھی لے جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہوئے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو متاثرہ ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے حقوق کا تحفظ کرے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی خلاف ورزیوں کے ٹھوس شواہد اکٹھے کرے اور معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں بھی لے جائے۔ اسی طرح اس ضمن میں پاکستان کے لیے سفارتی اقدامات بھی اہم ہیں۔
پاکستان اس معاملے کو اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اٹھا کر دوست ممالک اور اتحادیوں کی جانب سے بھارت پر دباؤ بڑھا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ لاحق کرنے جیسے کسی اقدام سے باز رہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی پاکستان میں میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کے اس معاہدے بھارت کی ٹی ٹی پی نہیں کر کے ساتھ رہی ہیں رہا ہے رہی ہے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-01-21
پشاور(خبرایجنسیاں) پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی، اسے سیاست سے دور رکھا جائے اور غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔پشاور میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھاکہ بس بہت ہوگیا افغانستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرے، افغان طالبان سے سیکورٹی کی بھیک نہیں مانگیں گے، طاقت کے بل بوتے پر امن قائم کرینگے، افغانستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے یا ہمارے حوالے کرے جب کہ افغانستان میں نمائندہ حکومت نہیں، ہم افغانستان میں عوامی نمائندہ حکومت کے حامی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ بھارت اس بار سمندر کے راستے کارروائی کی تیاری کر رہا ہے تاہم مکمل الرٹ اورنظر رکھے ہوئے ہیں اور بھارت کوجو بھی کرنا ہے کرلے، اگر دوبارہ حملہ کیا تو پہلے سے زیادہ شدید جواب ملے گا۔ان کاکہنا تھاکہ افغانستان سے کوئی حملہ ہوا تو جنگ بندی ختم تصور کی جائے گی اور دراندازی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں افغانستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے سوال پر کہا کہ ہمارا امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔انہوں نے امریکی ڈرونز کے پاکستان سے افغان فضائی حدود میں جانے کے الزام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم نے خود اب تک کوئی باضابطہ شکایت بھی نہیں کی ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز ہے، افغانستان میں ہرقسم کی دہشت گرد تنظیم موجود ہے اور افغانستان دہشت گردی پیدا کررہا ہے اور پڑوسی ممالک میں پھیلا رہا ہے۔فوجی ترجمان نے کہا کہ افغانستان کی طرف سے رکھی گئی شرائط کی کوئی اہمیت نہیں، اصل مقصد دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سلامتی کی ضامن پاک فوج ہے، افغانستان نہیں اور یہ بھی واضح کیا کہ اسلام آباد نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ استنبول میں افغان طالبان کو واضح طور پر کہا گیا کہ وہ دہشت گردی کو کنٹرول کریں، یہ ان کا کام ہے کہ وہ کیسے کریں۔ان کا کہنا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی آپریشن کے دوران دہشت گرد افغانستان بھاگ گئے، انہیں ہمارے حوالے کریں، ہم آئین و قانون کے مطابق ان سے نمٹیں گے۔ ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کا نارکو اکنامی سے تعلق ہے، جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان گٹھ جوڑ موجود ہے، خیبرپختونخوا میں 12 ہزار ایکڑ پر پوست کاشت کی گئی ہے، فی ایکڑ پوست پر منافع 18 لاکھ سے 32 لاکھ روپے بتایا جاتا ہے،مقامی سیاستدان اور لوگ بھی پوست کی کاشت میں ملوث ہیں، افغان طالبان اس لیے ان کو تحفظ دیتے ہیں کہ یہ پوست افغانستان جاتی ہے، افغانستان میں پھر اس پوست سے آئس اور دیگر منشات بنائی جاتی ہیں، تیراہ میں آپریشن کی وجہ سے یہاں افیون کی فصل تباہ کی گئی، وادی میں ڈرونز، اے این ایف اور ایف سی کے ذریعے پوست تلف کی گئی۔ایک سوال کے جواب میں ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ میں پبلک سرونٹ ہوں کسی پر الزام نہیں لگا سکتا، سہیل آفریدی خیبرپختونخوا کے چیف منسٹر ہیں، ان سے ریاستی اور سرکاری تعلق رہے گا، کورکمانڈر پشاور نے بھی ریاستی اور سرکاری تعلق کے تحت ملاقات کی جب کہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا فیصلہ تصوراتی ہے، یہ فیصلہ ہمیں نہیں وفاقی حکومت کوکرنا ہے۔ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ ملک میں 2025ء کے دوران 62 ہزار سے زاید آپریشنز کیے گئے، اس دوران آپریشنز میں 1667 دہشت گرد مارے گئے جب کہ دہشت گرد حملوں میں 206 سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے، سیکورٹی فورسز نے جھڑپوں میں 206 افغان طالبان اور 100 سے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔