امی کہا کرتی ہیں:
‘بھس میں ٹمی لگا، جمالو دور کھڑی!’
یعنی فتنہ پرداز آگ لگا کر، فساد کروا کر تماشے سے محظوظ ہوتا ہے۔
آج میں جب چیختے چنگھاڑتے میڈیا اینکرز دیکھتی ہوں جو 6مہمان بلا کر خود پارٹی بن جاتے ہیں، اُنہیں لڑوا کر خوش ہوتے ہیں، جہالت بھری، جنونی باتیں کرتے ہیں، صحافیانہ اقدار کی دھّجیاں اُڑاتے ہیں، جنگ پر اُکساتے ہیں تو امی کا کہا یہ ضرب المثل ذہن میں آتا ہے۔
اِن اسٹوڈیوز میں بیٹھے/ بیٹھی بی جمالو کو شاید اندازہ بھی نہیں کہ جنگ کسے کہتے ہیں؟
فسادات اور جھڑپوں کے شوقین اب بڑی جنگ دیکھنے کے خواہاں ہیں جیسے یہ کوئی فلم ہو جہاں آخر میں سب اچھا ہوجائے گا۔
جنگ فلم نہیں، جناب !
اس کے آخر میں سب تباہ ہوجاتا ہے۔
آج ہم سوشل میڈیا پر الزام دھرتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ‘زرد صحافت’ نے ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے جنگ کی آگ میں تیل ڈالا اکثر اوقات تو آگ اور تیل دونوں کا بندوبست خود ہی کیا۔
1898 میں اسپین اور امریکا کی جنگ غیر ذمہ دار میڈیا کے سبب ہوئی۔
اس وقت کے دو امریکی میڈیا ٹائیکون، ولیم رینڈولف ہرسٹ اور جوزف پولیٹزر، اپنی زرد صحافت کے ذریعے عوام میں جنگی ہیجان بھڑکاتے رہے۔
امریکا اور اسپین میں سخت کشیدگی کے دوران کیوبا کے ساحل پر کھڑے امریکی بیڑے “USS Maine” میں دھماکہ ہوا جس میں 250 سے زائد امریکی فوجی مارے گئے، ان دونوں اخبارات نے اس سانحے کو ایسے سنسنی خیز انداز میں پیش کیا کہ شور مچ گیا کہ اسپین نے امریکا پر حملہ کردیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر اتنا دباو ڈالا کہ امریکا نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور بغیر تحقیق کے اسپین پر حملہ کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ ہرسٹ نے اپنے رپورٹر کو کیوبا میں لکھا:
‘تم تصویریں بھیجو، جنگ ہم بنا دیں گے۔’
اور یوں میڈیا کی سرخیوں سے شروع ہونے والی یہ جنگ 3 ماہ میں ہزاروں جانیں نگل گئی بعد میں تحقیقات سے پتا چلا کہ بحری بیڑے میں اپنی ہی تکنیکی خرابی کے باعث دھماکا ہوا تھا۔
پہلی جنگ عظیم میں برطانوی اخبارات نے جرمنوں کو وحشی اور درندہ بنا کر پیش کیا۔ کارٹونوں، خبروں اور جھوٹے قصوں نے ایسا ماحول بنایا کہ برطانوی عوام کو لگا جنگ ایک مقدس فرض ہے۔
صرف 4 برسوں میں ایک کروڑ سے زائد جانیں جنگ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
جند برس پہلے کی بات کرتے ہیں، 2003 میں امریکا نے عراق پر چڑھائی کی تو وجہ تھی ‘Weapons of Mass Destruction’۔
سی این این، فاکس نیوز اور دیگر بڑے چینلز نے بغیر کسی تصدیق کے وہی بیانیہ دہرایا جو حکومت نے دیا۔ ان اداروں میں بیٹھے صحافیوں نے اپنی حکومت سے کوئی ثبوت ہی نہیں مانگا، WMD تباہ کرنے کا نعرہ لگایا اور جنگ میں کود گئے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ملک کھنڈر میں بدل گیا، لاکھوں بے گناہ مارے گئے، بعد ازاں ٹونی بلئیر نے غلط انفارمیشن کی بنیاد پر جنگ چھیڑنے کی ‘غلطی’ کا اعتراف کیا اور آج عالمی رپورٹس بھی گواہ ہیں کہ عراق میں کوئی ‘خطرناک ہتھیار’ کبھی تھا ہی نہیں۔
14 فروری 2019 کو پلوامہ حملہ ہوا۔ ابھی حملے کی دھول بھی نہیں بیٹھی تھی کہ بھارتی میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام تراشی شروع ہوگئی۔ اینکر حضرات، گویا جنگ کے نقارے بجانے لگے۔
چند دنوں میں 2ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوگئیں۔ صرف میڈیا کے جگائے جنگی جنون کو تقویت دینے کے لیے بھارتی حکومت نے بالاکوٹ میں مبینہ اسٹرائک کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے بھارتی طیارہ مار گرایا، انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے بھارتی ائیر فورس افسر ابھینندن کو پیش کیا اور انٹرنیشنل میڈیا کو بالاکوٹ میں وہ جگہ بھی دکھائی جہاں بھارتی حکومت کے جھوٹے بیانیے کا پول کھل گیا۔ یہ خبر البتہ بھارتی میڈیا میں بہت کم رپورٹ ہوئی۔
تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ پہلگام میں بھی پھر وہی بھس، پھر وہی آگ، وہی بی جمالو زرد صحافت کرنے والا میڈیا جو بھارتی چیلنز پر روز جنگ کا بگل بجاتا ہے۔
یہ تو طے ہو چکا کہ جنونی میڈیا اب خود ایک ہتھیار بن چکا ہے۔ اب ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے، عوام کو چیختے، الزام لگاتے اینکرز کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے ۔
پوچھنا چاہیے کہ کیا ریٹنگ کی دوڑ میں ہم اپنے شہروں کو قبرستانوں میں بدلنا چاہتے ہیں؟
کیا ویوز اور لائکس کی قیمت انسانی جانوں سے بڑھ گئی ہے؟
کیا ہم جان بوجھ کر آنے والی نسلوں کے لیے بارود بچھا رہے ہیں؟
جناب! جنگیں خبر نہیں ہوتیں، سانحہ ہوتی ہیں، نسلوں تک سفر کرنے والا سانحہ۔
جھوٹے بیانیے کی ایک معمولی چنگاری بھی لاکھوں جانیں نگل سکتی ہے۔
آئیں بات کریں ، بات کرنا، دلیل، ردِّ دلیل دینا انسانیت و معاشرت کی بقا کے لیے آج زیادہ ضروری ہے، بھارتی حکومت نے کئی پاکستانی یوٹیوب چینل بند کردیے۔
کیوں بھئی! دلیل کا جواب بندش نہیں، دلیل ہی ہے۔
چاہے جو مرضی ہوجائے دو طرفہ مکالمہ منقطع نہیں ہونا چاہیے۔ جب بات چیت کے دروازے کھلے ہوں، توپوں کے دہانے خاموش رہتے ہیں۔
جب اختلاف کو برداشت کیا جائے، تو لاشیں نہیں گرتیں۔
آج ہمیں گوریلوں کی طرح لڑنے والے اینکروں / یوٹیوبروں کی نہیں، سننے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔
آج ہمیں جھوٹی شان کے بیانیوں کی نہیں، سچے الفاظ کے پل بنانے والوں کی ضرورت ہے۔
سو ناکام مذاکرات بھی ایک خونریز جنگ سے بہتر ہیں۔
کیا قحط الرجال کا زمانہ ہے۔
ساحر جیسے لوگ بھی دنیا سے رخصت ہوئے جو کہتے تھے۔
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم، سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے، پارٹی میں اس پر بات کروں گا: سلمان اکرم راجہ
—فائل فوٹوپاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے؟ پارٹی میں اس پر بات کروں گا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں اور محمود اچکزئی کل رات 11 بجے تک بانی کی بہنوں کے ساتھ چکری انٹرچینج پر رہے۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی کال ہو کوئی ایم این اے بغیر معقول وجہ کیسے دور رہ سکتا ہے، احتجاج میں شامل نہ ہونے کی اگر کوئی معقول وجہ نہیں تو اس کا جواب دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ کل کے احتجاج پر میں نے کہا تھا یہ صوبائی اور مقامی سطح کا ہو گا، میں سمجھتا ہوں کل کا دن بڑی حد تک کامیاب رہا، کل کا احتجاج اسے بہتر ہو سکتا تھا اور آئندہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کل عوام نے ثابت کیا کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی اور مقامی قیادت کو بتایا گیا تھا وہ خود احتجاج ترتیب دیں، لوگ کیوں نہیں نکلے اس پر بانی سے مشاورت کریں گے، کل کا احتجاج اچھی کوشش تھی اس میں مزید بہتری آئے گی، کل کا احتجاج آخری احتجاج نہیں تھا، یہ عمل جاری رہے گا۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ توشہ خانہ ٹو کا ٹرائل مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے، سائفر کیس میں بھی فیملی، میڈیا اور وکلاء کو داخلے سے روک دیا گیا تھا، سائفر کیس کا ٹرائل ہائی کورٹ نے 2 مرتبہ کالعدم قرار دیا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کی واضح ہدایات ہیں اگر میڈیا، وکلاء اور فیملی کو داخلہ نہیں دیا جاتا تو یہ اوپن ٹرائل نہیں، 26ویں ترمیم کے بعد پھر میڈیا، فیملی اور وکلاء کو روکا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ توشہ خانہ کیس ٹو میں میرا وکالت نامہ ہے، مجھے بھی روکا گیا ہے، ہم اس غیر آئینی ٹرائل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے، جب تک قانون کی اطاعت نہیں ہوگی یہ ٹرائل نہیں چل سکتا، بیرسٹر سلمان صفدر اندر گئے ہیں وہ یہ نکتہ عدالت کے سامنے اٹھائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذاکرات کا فیصلہ بالآخر بانی نے کرنا ہے، مذاکرات ان کی اجازت سے ہوں گے، موجودہ ماحول میں کوئی مذاکرات نہیں ہوسکتے، جب ایک ایس ایچ او ہائی کورٹ کے حکم نہیں مانتا ایسے میں کیا مذاکرات ہوں گے۔