اللہ والوں سے تعلق قائم کریں
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
حضرت مولانا جلال الدین رومی ؒفرماتے ہیں کہ ایک کانٹا روتے ہوئے اللہ سے کہہ رہا تھا ’’میں نے صلحا کی زبان سے سنا ہے کہ آپ کا نام ستار العیوب ہے یعنی عیبوں و چھپانے والا، لیکن آپ نے مجھے کانٹا بنایا ہے میرا عیب کون چھپائے گا؟‘‘ اس کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ اللہ نے اس کے اوپر پھول کی پنکھڑی پیدا کردی، تاکہ وہ پھول کے دامن میں اپنا منہ چھپا لے۔ جن کانٹوں نے پھول کے دامن میں جگہ لی ہے اس کو باغباں نہیں نکالتا۔ اسی طرح جو اللہ والوں سے جڑ جاتا ہے ان کی برکت سے وہ بھی ایک دن اللہ والا بن جاتا ہے۔ اللہ والے ایسے پھول ہیں کہ ان کی صحبت میں رہنے والے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ہمارا دین کس قدر خوبصورت ہے آپ مسکراتے ہیں تو آپ کو صدقے کا اجر ملتا ہے۔آپ بیمار ہوتے ہیں تو آپ کے گناہ جھڑ جاتے ہیں یا درجات بلند ہوتے ہیں۔آپ صبر کرتے ہیں تو صبر کے بعد آسانی ملتی ہے۔آپ نیکی کرتے ہیں تو اس کا اجر دس سے سات سو تک بڑھا دیا جاتا ہے۔تو دل سے کہیں الحمدللہ حمدا کثیرا طیبا مبارا فیہ ، گناہ بسا اوقات اعمال صالحہ کو کھا جاتے ہیں،اس لئے نیک عمل کرنا ضروری اور اسے محفوظ کر کے رکھنا ازحد ضروری ہے۔
میدان حشر میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ کتنے نیک اعمال کر کے آئے بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ کتنے نیک اعمال لے کر آئے۔دین کی محنت سے ہدایت پھیلتی ہے اور محنت کی کمی کی وجہ سے دین زندگیوں سے نکلنا شروع ہوتا ہے ،سب سے پہلے دین کاروبار سے نکلتا ہے، یعنی کاروبار سے طریقہ نبوی نکل جاتا ہے، پھر دین معاشرے سے نکلتا ہے ،پھر درجہ بدرجہ یہاں تک کہ صرف فرائض پر عمل راہ جاتا ہے (اے جی فرض پورے ہو جائیں بڑی بات ہے)پھر برائیاں داخل ہونا شروع ہوتی ہیں، یہاں تک کہ بندہ گمراہی کی طرف نکل جاتا ہے۔ نظریہ وہ مستحکم سوچ ہے جو آپ کو عملی زندگی میں قدم اٹھانے پر مجبور کرے، نظریہ کی دو قسمیں ہیں۔مذہبی نظریہ، وہ نظریہ جس کا قیام کسی مذہب کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں وجود میں آتا ہے۔سیاسی نظریہ، اس کا مقصد کسی خاص قسم کے نظام حکومت کا قیام ہوتا ہے جو اس نظرئیے کے پیروکاروں کے سوچ کے مطابق ان کی زندگی میں بہتری لا سکے،نظریہ نظر سے مشتق لفظ ہے، جس کامعنی غوروفکر کرناہے، یعنی کسی فرد یاجماعت کاغوروفکرکے بعد زندگی گزارنے اوراپنی صلاحیت کواستعمال کرنے کے لئے جواصول ضوابط طے کئے ہیں انہیں نظریہ کھاجاناچاہیے۔ میں نے جب حضرت مریم علیہ السلام کا قصہ پڑھا اور مجھے ان کی برداشت پر رشک آیا، پھر اسے اپنے اوپر سوچا کہ اگر یہ سب میرے ساتھ ہوتا؟ تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ جو لوگ ان کو باتیں کرتے تھے اگر میرے اوپر ہوتیں تو؟ ناقابلِ برداشت!میں نے حضرت آسیہ علیہ السلام کا قصہ پڑھا جو کہ فرعون کی زوجیت میں تھیں، تو ان کے صبر پر رشک آیا، اگر آج کی کسی عورت کا شوہر انہیں کچھ کہہ دے تو چیخ وپکار سے آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے،لیکن فرعون نے اپنی زوجہ حضرت آسیہ پر وہ کون سا ظلم ہے جو نہ ڈھایا ہو گا،حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہی بت تراش کے گھر ہوئی، گھر سے نکالے گئے، اپنا باپ ہی بیٹے کو جلانے کے لئے لکڑیاں اٹھا اٹھا کر لاتا تھا، لیکن امتحان میں کامیاب ہوئے تو ویران بیابان میں اکلوتی اولاد کو چھوڑا ’’اللہ اکبر کبیرا‘‘پھر قربانی دینے کا حکم۔ آج کسی مرد میں ہے اتنا حوصلہ؟ ہر گز نہیں کبھی نہیں،حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری، سب کچھ چلا گیا اولاد، مال، بیویاں، سب کچھ، لیکن آزمائش پر صبر کیا، آج ہے کسی میں اتنا صبر؟ بالکل بھی نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ان کے والد سے بھائیوں نے دور کر کے کنویں میں پھینکا، پھر غلام کے طور پر قیمت لگائی گئی، قید کاٹی، لیکن صبر کیا اور آج اگر ایسا کسی کے ساتھ ہو، تو شکوہ شروع کہ اللہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں کرتا ہے؟ حضرت محمد ﷺ نے یتیمی میں آنکھ کھولی، پھر ماں بھی ساتھ چھوڑ گئیں اور مختلف آزمائشوں سے گزرتے نبوت کے مقام تک پہنچے، غزوات، دشمنوں سے مسلسل آزمائش کی زندگی، کیا آج کوئی کر سکتا ہے یہ سب برداشت؟ بالکل نہیں۔تو کیا یہ مثالیں ہمارے لیے کافی نہیں کہ مسلمان کی زندگی آزمائش ہوتی ہے اور ہمیں بھی زندگی کا ایسے ہی امتحان دینا ہے اور اسی طرح صبر کرنا ہے، دشمنوں کو معاف کرنا ہے، صلہ رحمی کا سلسلہ جاری رکھنا ہے۔
آج ایک اسلامی نظریاتی مملکت کی باسی قوم میں اس قدر افرا تفری،آپا دھاپی،سر پھٹول اور نفرتیں کیوں؟کہ کوئی کسی کو برداشت کرنے کے لئے ہی تیار نہیں ہے ، سیکولر یا لنڈے کے لبرلز کی کیا بات کریں۔یہاں تو اپنے آپ کو مذہبی کہلانے والے ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں سے بھرے ہوئے ہیں،پرانے بزرگ ضرور جانتے ہوں گے، لیکن نئی نسل کی بلا جانے کہ قناعت پسندی،صلہ رحمی،صبر و شکر دراصل ہے کیا؟ٹچ موبائل اور سوشل میڈیائی یہ نسل دنیا کی محبت میں تقریباغرق نظر آ رہی ہے،الا ما شااللہ ،آج کی عورتیں ہوں یا مرد،جوان ہوں یا بوڑھے ،انہیں یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں سب سے بڑے مظلوم تم ہی نہیں ہو،اور نہ ہی تم آخری درجے کے غریب ہو، قناعت پسندی اور صبر کرنا سیکھو،ہاں واقعی!یہ زندگی گرم صحرا کی تپتی دھوپ کی مانند ہے، اور ہمیں گرم ریت پر لیٹ کر سینے پر بھاری بھر کم پتھر کا بوجھ اٹھا کر کبھی کچھ اس سے بڑی آزمائش ہو، سلگتے کوئلوں پر لیٹ کر چمڑی جلا کر امتحان دیتے ہوئے بس احد، احد، احد پکارنا ہے۔جنت ایسے ہی نہیں مل جانی، مومنوں کی سنت پر چلنا ہو گا، صبر کے ساتھ آزمائش پر پورا اترنا ہو گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علیہ السلام جاتا ہے ہیں تو
پڑھیں:
تجدید وتجدّْ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-9
4
مفتی منیب الرحمن
اس کائنات میں ایک اللہ تعالیٰ کا تشریعی نظام ہے‘ جس کے ہم جوابدہ ہیں اور اْس پر اْخروی جزا وسزا کا مدار ہے اور دوسرا تکوینی نظام ہے‘ جس میں بندے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کی مشِیئت کے تابع ہے اور اس پر جزا وسزا کا مدار نہیں ہے۔ تکوینی نظام سبب اور مسبَّب اور علّت ومعلول کے سلسلے میں مربوط ہے۔ ’’سبب‘‘ سے مراد وہ شے ہے جو کسی چیز کے وجود میں آنے کا باعث بنے اور اْس کے نتیجے میں جو چیز وجود میں آئے‘ اْسے ’’مْسَبَّب‘‘ کہتے ہیں‘ اسی کو علّت ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن منطق وفلسفہ میں دونوں میں معنوی اعتبار سے تھوڑا سا فرق ہے۔ اسی بنا پر اس کائنات کے نظم کو عالَم ِ اسباب اور قانونِ فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔
معجزے سے مراد مدعی ِ نبوت کے ہاتھ پر یا اْس کی ذات سے ایسے مافوقَ الاسباب امور کا صادر ہونا جس کا مقابلہ کرنے سے انسان عاجز آ جائیں۔ نبی اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر بھی معجزہ پیش کرتا ہے۔ مادّی اسباب کی عینک سے کائنات کو دیکھنے والے کہتے ہیں: قانونِ فطرت اٹل ہے‘ ناقابل ِ تغیّْر ہے‘ لہٰذا قانونِ فطرت کے خلاف کوئی بات کی جائے گی تو اْسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ منکرین ِ معجزات نے مِن جملہ دیگر معجزات کے نبیؐ کے معراجِ جسمانی کا بھی انکار کیا اور کہا: ’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبی کی بابت احادیث کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور ’’مرفوع القلم‘‘ لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ کوئی عقل مند شخص ایسی بات نہیں کر سکتا۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابل ِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو وخطا‘ دور اَز کار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیر القرآن) یہ سرسیّد احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض وہ معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور دیوانے قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحی ِ ربانی کے مقابل عقلی اْپَج کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طَعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی محبت ِ رسولؐ کا تقاضا ہے۔ ان کی فکر کا لازمی نتیجہ یہ ہے: اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق اور مختارِ کْل نہیں ہے‘ بلکہ العیاذ باللہ! وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین ِ فطرت کا پابند ہے۔
ہم کہتے ہیں: بلاشبہ اسباب موثر ہیں‘ لیکن اْن کی تاثیر مشیئتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے‘ لیکن یہ اسباب یا قانونِ فطرت خالق پر حاکم ہیں اور نہ وہ اپنی قدرت کے ظہور کے لیے ان اسباب کا محتاج ہے۔ وہ جب چاہے ان کے تانے بانے توڑ دے‘ معطَّل کر دے اور اپنی قدرت سے ماورائے اَسباب چیزوں کا ظہور فرمائے‘ مثلاً: عالَم ِ اسباب یا باری تعالیٰ کی سنّت ِ عامّہ کے تحت انسانوں میں مرد و زَن اور جانوروں میں مادہ ونَر کے تعلق سے بچہ پیدا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے‘ چنانچہ اْس نے سیدنا عیسیٰؑ کو بِن باپ کے‘ سیدہ حوا کو کسی عورت کے واسطے کے بغیر اور سیدنا آدمؑ کو ماں باپ دونوں واسطوں کے بغیر پیدا کر کے یہ بتا دیا کہ اْس کی قدرت ان اسباب کی محتاج نہیں ہے۔ لیکن غلام احمد پرویز اور مرزا غلام قادیانی وغیرہ سیدنا عیسیٰؑ کے بن باپ کے پیدا ہونے کو تسلیم نہیں کرتے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بیشک (بن باپ کے پیدا ہونے میں) عیسیٰؑ کی مثال آدم کی سی ہے‘ اللہ نے انہیں مٹی سے پیدا فرمایا‘ پھر اْس سے فرمایا: ہو جا‘ سو وہ ہوگیا‘‘۔ (آل عمران: 59) الغرض یہود کی طرح انہیں عفت مآب سیدہ مریمؑ پر تہمت لگانا تو منظور ہے‘ لیکن معجزات پر ایمان لانا قبول نہیں ہے۔
قرآنِ کریم کی واضح تعلیم ہے کہ کسی کو دین ِ اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 256) مگر جو دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہو اْسے مسلمان رہنے کا پابند کیا جائے گا‘ اسی لیے اسلام میں اِرتداد موجب ِ سزا ہے‘ جبکہ موجودہ متجددین کے نزدیک ارتداد اور ترکِ اسلام کوئی جرم نہیں ہے۔ جمہورِ امت کے نزدیک کتابیہ عورت سے مسلمان مرد کا نکاح جائز ہے‘ لیکن مسلمان عورت کا کتابی مرد سے نکاح جائز نہیں ہے‘ مگر متجددین ائمۂ دین کے اجماعی موقف سے انحراف کرتے ہوئے اس نکاح کے جواز کے قائل ہیں۔
اگر آپ اس تجدّْدی فکر کی روح کو سمجھنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ جمہور امت وحی ِ ربانی کو حتمی‘ قطعی اور دائمی دلیل سمجھتے ہیں‘ جبکہ یہ حضرات اپنی عقلی اْپَج کو وحی کے مقابل لاکھڑا کرتے ہیں اور عقلی نتیجہ ٔ فکر کے مقابل انہیں وحی کو ردّ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وحی بتاتی ہے کہ عاقل مومن کو وحی اور خالق کی مرضی کے تابع رہ کر چلنا ہے‘ جبکہ تجدّْد کے حامی کہتے ہیں: ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ بعض متجدِّدین حدیث کو تاریخ کا درجہ دیتے ہیں‘ جو رَطب ویابس کا مجموعہ ہوتی ہے‘ اْن کے نزدیک حدیث سے کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا‘ ماضی میں ایسے نظریات کے حامل اپنے آپ کو اہل ِ قرآن کہلاتے تھے۔ اگر حدیث سے مطلب کی کوئی بات ثابت ہوتی ہو تو اپنی تائید میں لے لیتے ہیں اور اگر اْن کی عقلی اْپج کے خلاف ہو تو انہیں حدیث کو ردّ کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔ جبکہ احادیث ِ مبارکہ کی چھان بین اور صحت کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ علوم اصولِ حدیث و اسمائْ الرِّجال وضع کیے گئے ہیں‘ جبکہ تاریخ کی چھان پھٹک اس طرح نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذِکر (قرآنِ کریم) اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کو وہ احکام وضاحت کے ساتھ بتائیں جو اْن کی طرف اُتارے گئے ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر کریں‘‘۔ (النحل: 44) الغرض قرآنِ کریم کی تبیِین کی ضرورت تھی اور اْس کے مْبَیِّن (وضاحت سے بیان کرنے والے) رسول اللہؐ ہیں۔ اگر شریعت کو جاننے کے لیے قرآن کافی ہوتا تو مزید وضاحت کی ضرورت نہ رہتی‘ اسی لیے قرآنِ کریم نے ایک سے زائد مقامات پر فرائضِ نبوت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ اکثر مفسرین کے نزدیک حکمت سے مراد سنّت ہے۔
ایک صحابیہ اْمِّ یعقوب تک حدیث پہنچی‘ جس میں سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے بعض کاموں پر لعنت فرمائی ہے۔ وہ عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ’’میں نے دو جلدوں کے درمیان پورا قرآن پڑھا ہے‘ مجھے تو اس میں یہ باتیں نہیں ملیں‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’اگر تْو نے توجہ سے قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ باتیں مل جاتیں‘ کیا تم نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دیں‘ اْسے لے لو اور جس سے وہ روکیں‘ اْس سے رک جائو‘‘۔ (الحشر: 7) اْمِّ یعقوب نے کہا: ’’کیوں نہیں! میں نے یہ آیت پڑھی ہے‘‘ تو ابن مسعودؐ نے فرمایا: رسول اللہؐ نے ان باتوں سے منع فرمایا ہے۔ اْس نے کہا: ’’میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی اہلیہ یہ کام کرتی ہیں‘‘۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’جائو دیکھو‘‘۔ وہ گئی اور دیکھا کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتیں‘ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا: ’’اگر میری اہلیہ ایسے کام کرتیں تو میں اْن سے تعلق نہ رکھتا۔ (بخاری)۔
(جاری)