سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے پر عمل درآمد کو فعال جنگ سمجھا جائیگا؛ بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
ویب ڈیسک : چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت کہہ چکی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے پر عمل درآمد کو فعال جنگ سمجھا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پر ماضی میں بھی الزامات عائد کیے گئے، پاکستان نے ماضی سے سبق سیکھا ہے اور آگے بڑھ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا گیا، گرے لسٹ سے نکالنے کا مطلب عالمی برادری تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان کا دہشت گرد گروپوں سے کوئی تعلق نہیں۔
بس سٹاپس پر پنکھوں، الیکٹرک واٹر کولر کی چوری کو روکنے کا نیا حل
بلاول بھٹو کے مطابق وزیرِ اعظم کہہ چکے ہیں کہ پہلگام واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر بھارتی حکومت پاکستان کے خلاف پانی کی بندش کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے تو اس کا مطلب اعلان جنگ ہو گا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پاکستان کومقبوضہ کشمیرمیں دہشتگرد حملے یا ایل اوسی پرفائرنگ شروع کرنےسےکیا فائدہ ہوگا؟ پاکستان ایل او سی پر بھارتی فائرنگ کا جواب دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ چکی ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کے فیصلے پر عمل درآمد کو فعال جنگ سمجھا جائے گا، جنگ ہوتی ہے تو خون بہتا ہے، پاکستان کے پاس ایسے دریا نہیں جن کو ہم جوابی طور پر بھارت کے خلاف روکیں۔
پاکستان ائیر فورس کی بروقت کارروائی،بھارتی رافیل طیارے راہ فرار اختیار کر گئے
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو کہ پاکستان نے کہا کہ
پڑھیں:
اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ
ہندوستان ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں منتخب کشمیر حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں قائم بھارتی قابض انتظامیہ کے اختیارات کی یک طرفہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کو اپنے افسران کا انتخاب کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں حکمرانی اور اہم انتظامی اختیارات پر بھارتی حکومت کے کنٹرول کی وجہ سے منتخب حکومت کو اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمر عبداللہ نے ہندوستان ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں منتخب کشمیر حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں قائم بھارتی قابض انتظامیہ کے اختیارات کی یک طرفہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کو اپنے افسران کا انتخاب کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی اے ایس، آئی پی ایس اور جے کے اے ایس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار بھی راج بھون (گورنر ہائوس) کو حاصل ہے جس سے کشمیر حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ منتخب کشمیر حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے پر افسران کو جبری طور پر سزا کے طور پر لداخ ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اپنے دفتر کو بھی اس طرح کی کارروائیوں کی دھمکی دی گئی تھی۔
انہوں نے محکمہ اطلاعات جیسے محکموں کو منتخب حکومت کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے لیے انتظامی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ عمر عبداللہ نے کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "بھارتی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے کیا گیا ایک خودمختار وعدہ” قرار دیا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس عمل کو جس میں حلقہ بندیاں اور انتخابات کے بعد ریاستی حیثیت کی بحالی شامل ہونی چاہیے تھی، تاہم ریاستی حیثیت کی بحالی کو مناسب وقت کی مبہم یقین دہانیوں کے تحت جان بوجھ کر طول دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مسلسل حق رائے دہی اور جبری طرز حکمرانی مقبوضہ علاقے میں عوام کی مایوسی کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔