بھارت کے  پہلگام فالس فلیگ آپریشن اور دھمکیوں کے جواب میں مسلح افواج اور عوام متحد ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی زوردار پریس کانفرنس نے بھارت کو اسی کی زبان میں جواب دیدیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاک فوج کی جنگی مشقیں پورے زور و شور سے جاری

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’ہم تیار ہیں، آزمانا نہیں، 2019 میں ہم نے یہی بتایا تھا‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے یہ الفاظ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گئے ہیں۔

یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ہم وہ نہیں جو محاذ آرائی شروع کریں، ہم ذمہ دار ملک ہیں، اگر وہ(دشمن) یہ سمجھتا ہے کہ جارحیت ہی راستہ ہے تو ہم تیار ہیں ، اس کی آزمائش نہ کریں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے  ہر ڈومین میں جوابی کارروائی کے  اقدامات مکمل کر لیے ہیں، ہم ہر وقت اور ہر جگہ تیار ہیں۔

انہوں نے واضح الفاظ میں بھارت کو پیغام دیا تھا کہ پاکستانی عوام اپنی خودمختاری اور سالمیت کا ہرقیمت پر دفاع کرے گی۔ فوجی تصادم کا راستہ بھارت نے چنا تو یہ اس کی چوائس ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آگے یہ معاملہ کدھر جاتا ہے تو یہ پھر ہماری چوائس ہے، ہم بار بار بتا رہے ہیں ہم تیار ہیں ہمیں آزمانا نہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا پیغام ’ہم تیار ہیں، ہمیں آزمانا نہیں‘ عوام کی آواز بن گیا۔تمام سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان کو راتوں رات  پاپولر ہیش ٹیگ  بنا دیا۔

سوشل میڈیا  پر ڈی  جی  آئی ایس پی آر  کا یہ بیان  پاکستان کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈیا پہلگام فالس فلیگ ڈی جی آئی ایس پی آر ہم تیار ہیں ہمیں آزمانا نہیں.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انڈیا پہلگام فالس فلیگ ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر ہم تیار ہیں ہمیں ا زمانا نہیں ڈی جی ا ئی ایس پی ا ر ا زمانا نہیں ہم تیار ہیں سوشل میڈیا تھا کہ

پڑھیں:

آج کے نوجوان

کہتے ہیں کہ بعض آوازیں وقت سے آگے نکل جاتی ہیں۔ وہ صدیوں کے سکوت کو چیرکر ایسی بازگشت بن جاتی ہیں جو دریچوں میں، آنگنوں میں اور دلوں میں دیر تک گونجتی رہتی ہیں۔

کبھی،کبھی تو ایک سادہ سا جملہ ایک تختی پر لکھا ہوا سچ، سلطنتوں کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ ہمیں 2018 کے اواخر میں ملا جب ایک پندرہ سالہ نحیف سی سویڈش لڑکی ایک ہاتھ میں کتاب تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک تختی جس پر لکھا تھاSchool Strike for Climate  یعنی ’’ ماحولیاتی انصاف کے لیے اسکول سے ہڑتال‘‘ اور وہ سویڈن کی پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھ گئی۔

یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا، بظاہر لیکن اس خاموش احتجاج نے دنیا کے ضمیرکو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ اس بچی کا نام گریٹا تھنبرگ تھا۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھے، ماتھے پر فکرکی شکن اور دل میں وہ درد جو ہر حساس روح کو تڑپا دیتا ہے، زمین مر رہی ہے، فضا زہر آلود ہو چکی ہے، دریا سوکھ رہے ہیں، برف پگھل رہی ہے، جنگلات جل رہے ہیں اور ہم اب بھی خاموش ہیں۔ انسان کی حرص نے فطرت کو ویران کر دیا ہے اور آیندہ نسلوں کو جہنم کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔

گریٹا نے سوال کیا اُس نے کہا ’’تم بڑے ہو، تم نے ہمیں سب کچھ تباہ حال دے کر جانا ہے تو ہم کیوں نہ سوال کریں؟‘‘ اُس کا ہر لفظ تاریخ کے سینے پر ایک ان کہی چٹان بن کر گرا۔ اُس کی آواز وقت کی تیز رو لہروں میں گم نہ ہوئی بلکہ ابھر کر ہر اُس جگہ پہنچی جہاں سچ دبایا جا رہا تھا جہاں طاقتور طبقات ماحولیاتی تبدیلیوں کو سرمایہ داری کی نظر سے دیکھ رہے تھے جہاں ماں دھرتی کی سسکیاں بے آواز تھیں۔ اُس نے ان سسکیوں کو آواز دی۔

پھر ایک دن اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں جب وہ عالمی رہنماؤں کے سامنے کھڑی ہوئی تو اُس کی آنکھوں میں صرف غصہ ہی نہیں تھا، ایک شکستہ سی مایوسی بھی تھی۔ وہ مایوسی جو کسی بچے کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنے والدین کو بے بس دیکھتا ہے۔ اُس نے کہا ’’How dare you!‘‘ یہ فقرہ صدیوں کی منافقت جھوٹ اور لالچ کے چہرے پر ایک طمانچہ تھا۔ اُس کی باتوں پر کسی نے ہنسی اڑائی کسی نے اسے استعمال شدہ چہرہ کہا مگر کوئی یہ نہ دیکھ سکا کہ ایک لڑکی جس کی عمر ابھی سولہ برس تھی اُس نے کرہ ارض کے لیے وہ فریاد کی جو ہمیں خود کرنی چاہیے تھی۔

وقت گزرتا رہا اورگریٹا کا سفر جاری رہا، وہ ایک مظہر بن چکی تھی۔ اب وہ صرف سویڈن کی نہیں نہ ہی یورپ کی بلکہ دنیا کے ہر اُس بچے کی نمایندہ بن چکی تھی جو اس زمین کو اپنی ماں سمجھتا ہے۔ افریقہ سے لے کر جنوبی امریکا تک ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ہر جگہ نوجوانوں کی ایک ایسی لہر ابھری جو ناانصافی ماحولیاتی بربادی اور سامراجی لوٹ مار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔

یہ بچے جنگوں کے خلاف تھے، بھوک کے خلاف تھے جنس رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہونے والے امتیاز کے خلاف تھے۔ یہ وہ نسل تھی جو فیس بُک اور انسٹاگرام سے آگے نکل کر سچائی کی تلاش میں نکل چکی تھی۔اور پھر 8 جون 2025 کا دن آیا۔ غزہ جہاں کئی دہائیوں سے ظلم کا بازار گرم ہے جہاں بچوں کے لاشے گنتی سے باہر ہو چکے ہیں جہاں مائیں اپنے جگر گوشوں کو بھوک سے مرتا دیکھ کر خود بھی سانس لینا چھوڑ دیتی ہیں وہاں کے لیے ایک کشتی نکلی امداد لے کر اور اس کشتی پرگریٹا تھنبرگ سوار تھی۔

یہ وہ لمحہ تھا جو مورخ کو رونے پر مجبورکردیتا ہے۔ ایک یورپی سفید فام لڑکی جو نہ فلسطینی ہے نہ مسلمان نہ عرب لیکن انسان ہے۔ وہ غزہ کے بچوں کے لیے پانی دوائیں خوراک اور ایک پیغامِ امن لے کر سمندر میں اتری، لیکن سامراجی قوتیں کب انسانیت کی زبان سمجھتی ہیں؟ اسرائیلی نیوی نے اس کشتی کو روکا، اسے یرغمال بنایا اورگریٹا کو اپنی تحویل میں لے لیا۔

یہ کسی فلمی کہانی کا منظر نہیں تھا۔ یہ حقیقت تھی ایک تلخ ،کرخت زخموں سے بھری حقیقت۔ گریٹا کا جرم یہ تھا کہ اس نے انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ کیا۔ وہ محض ایک ماحولیاتی کارکن نہیں رہی وہ مزاحمت کی علامت بن چکی تھی۔ وہ قید کر لی گئی لیکن اس کی آواز قید نہیں ہوئی۔ اس کی آواز دنیا کے لاکھوں دلوں میں گونج رہی ہے۔

اسرائیل کی وزارت خارجہ نے اس واقعے کو پبلک ریلشنگ اسٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا ’’ اس سفر کو سیلیبریٹی سیلفی پاٹ کیا گیا اور تصاویر جاری کی گئیں جن میں انھیں کھانا پانی دیتے دکھایا گیا اور بتایا گیا کہ تمام مسافر محفوظ ہیں اور جلد اپنے ممالک واپس جائیں گے، اگر یہ سیلیبریٹی سیلفی اسٹنٹ ہے تو کیا ضرورت تھی انھیں روکنے کی ان سب کو جانے دیا جاتا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان نسل صرف احتجاج نہیں کر رہی یہ نئی دنیا کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ ہم جو شکستہ دل تھکے ہوئے اور ماضی میں گم لوگ ہیں، ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے لیکن یہ بچے یہ نوجوان، ابھی خواب دیکھنا جانتے ہیں۔ ان کے اندر وہ طاقت ہے جو اندھیروں کو شکست دے سکتی ہے اور ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے کیونکہ یہی وہ نسل ہے جو نئی زمین نیا آسمان اور نئی روشنی لائے گی۔

کاش ! ہم میں اتنی فراست ہوتی کہ ہم گریٹا جیسے بچوں کو سمجھ پاتے۔ کاش ! ہمارے مذہبی سیاسی اور سماجی رہنما اس ننھی سی لڑکی کے سچ کو سن سکتے۔ لیکن طاقتور کانوں کو سچ کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ان کے محل آہنی دیواروں سے ڈھکے ہوتے ہیں اور ان کی آنکھیں صرف منافع دیکھتی ہیں انسان نہیں۔

گریٹا تھنبرگ نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے اور وہ آئینہ خوفناک ہے۔ وہ ہمیں ہمارے جھوٹے وعدوں کھوکھلے خوابوں اور خاموشی پر شرمندہ کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی وہ ہمیں امید بھی دیتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ سب کچھ ختم نہیں ہوا، اگر ہم جاگ جائیں، اگر ہم اٹھ کھڑے ہوں، اگر ہم ان نوجوانوں کا ساتھ دیں جن کے ہاتھوں میں کتاب آنکھوں میں سوال اور دل میں روشنی ہے تو آنے والا کل آج سے ضرور بہتر ہوگا۔

مجھے خوشی ہے کہ میری نواسی پرما جو اس ہی عمرکی ہے، کراچی پریس کلب کے باہر فلسطین کے حق میں مظاہروں میں شرکت کرتی رہی ہے اور پیرس میں Sciences Po University جہاں وہ تعلیم حاصل کر رہی ہے وہاں بھی وہ فلسطین کے حق میں ہونیوالے مظاہروں میں پیش پیش رہتی ہے۔ ہمارا کل یقینا تابناک ہے، کیونکہ نوجوان نسل باشعور اور حوصلہ مند ہے اور ہم نے اپنے خواب ان کے سپرد کیے۔

متعلقہ مضامین

  • آج کے نوجوان
  • سوشل میڈیا ایپلی کیشن انسٹاگرام میں کیمرا کے اصل سائز کی تصویر شیئر کرنا ممکن
  • جارج گیلوے کا حکومتِ پاکستان کو خراج تحسین، سوشل میڈیا پر “کمال کارکردگی” کی گونج
  • امیر مگر بے وفا مرد کا انتخاب کروں گی: کومل میر
  • سوشل میڈیا کا استعمال
  • طلاق کے کیسز کے حل کیلئے’’ سکھ دا ویلا ‘‘نئی سکیم تیار
  • ‘دعا کے پاپا’ نے سوشل میڈیا سے آمدنی کی حیران کُن تفصیلات بتادیں
  • بھارتی خاتون نجومی کی ایک ہفتہ قبل کی گئی پیشگوئی سچ ثابت
  • اداکارہ سعدیہ امام نے روتے ہوئے ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کردی، مداح پریشان
  • برازیل کی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ، سوشل میڈیا کمپنیوں کو صارفین کے مواد پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے