سپریم کورٹ نے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور کرلی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر کے وکیل نے بتایا کہ اعجاز چودھری 11 مئی 2023ء سے گرفتار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعجاز چودھری کی ضمانت منظور کر لی۔ سپریم کورٹ میں جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی، جسٹس ہاشم کاکڑ اور جسٹس اشتیاق ابراہیم بنچ کا حصہ تھے۔ اپنے مؤقف میں سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعجاز چودھری نے لوگوں کو اکسایا اور سازش کا بھی حصہ رہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ اعجاز چودھری کے خلاف کیس اتنا ہی مضبوط تھا تو فوجی عدالت میں لے جاتے، ویسے بھی تو 600 لوگ فوجی عدالتوں میں لے کر گئے ہیں، ضمانت کو بطور سزا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر کے وکیل نے بتایا کہ اعجاز چودھری 11 مئی 2023ء سے گرفتار ہیں۔
علاوہ ازیں اسی عدالت میں 9 مئی واقعات کے مقدمہ میں پی ٹی آئی راہنما حافظ فرحت عباس کی ضمانت قبل از گرفتاری بھی منظور کر لی گئی۔ دورانِ سماعت وکیل لطیف کھوسہ نے مؤقف اپنایا کہ شریک ملزم امتیاز شیخ کی ضمانت بھی ہوئی ہے۔ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ حافظ فرحت عباس پر 9 مئی کی سازش کا بھی الزام ہے، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ سازش کا الزام تو امتیاز شیخ پر بھی تھا، سپیشل پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ فرحت عباس کو ٹرائل کورٹ مفرور قرار دے چکی ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ مفرور ہے یا نہیں یہ معاملہ متعلقہ عدالت دیکھ لے گی، تفتیش مکمل ہوچکی، چالان بھی جمع ہوچکا، اب گرفتاری کیا کرنی ہے۔؟ سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کروا دیں گے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اللہ کرے آپ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کروا دیں، بس کر دیں اب کتنا گھسیٹنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جسٹس نعیم اختر افغان سپیشل پراسیکیوٹر نے پی ٹی ا ئی کے سینیٹر کی ضمانت منظور کر کہ اعجاز چودھری سپریم کورٹ نے سینیٹر اعجاز نے کہا کہ
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔