وزیراعظم آزاد کشمیر کی میزبانی میں آل پارٹیز کشمیر کانفرنس
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل اجلاس کے فیصلوں کی مکمل تائید کی۔ ہندوستان کو یہ قانونی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کی میزبانی میں آزاد جموں و کشمیر کی سیاسی و دینی جماعتوں، آل پارٹیز حریت کانفرنس آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدور اور وزرائے اعظم پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس مظفرآباد میں منعقد کی گئی۔ آل پارٹیز کشمیر کانفرنس میں اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق، صدر مسلم لیگ (ن) شاہ غلام قادر، سپیکر آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری لطیف اکبر، ممبر قانون ساز اسمبلی و سینئر رہنما پیپلز پارٹی چوہدری محمد یاسین، سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار قیوم نیازی، موسٹ سینئر وزیر وقار احمد نور، سابق وزیراعظم سردار یعقوب خان، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ و ممبر اسمبلی سردار حسن ابراہیم، کنوینئر آل پارٹیز حریت کانفرنس غلام محمد صفی، صدر لبریشن لیگ منظور قادر ڈار، وزرائے حکومت، دیوان علی خان چغتائی، سردار عامر الطاف، میاں عبدالوحید، عبدالماجد خان، چوہدری اظہر صادق، پروفیسر تقدیس گیلانی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
کانفرنس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال بالخصوص 22 اپریل 2025ء کو پہلگام مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی طرف سے فالس فلیگ آپریشن اور اس کے فوری بعد پاکستان پر بے بنیاد الزامات اور ہندوستانی میڈیا کی طرف سے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے، 5000 سے زائد عام بے گناہ شہریوں کی بلاجواز گرفتاریوں، گھروں کو بلڈوز کرنے، دیگر ظالمانہ اقدامات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے مسئلہ کشمیر پر مضمرات کے تناظر میں بذیل امور زیر بحث لائے گئے۔ کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے سیاسی مفادات کے لیے ہمیشہ کی طرح اب بھی کشمیر میں حالات کو مزید خراب کرنے پر تُلا ہوا ہے تاکہ دنیا کی نظروں سے اصل حقائق چھپائے جا سکیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ پہلگام ڈرامہ کا رخ مقامی کشمیریوں کی طرف موڑ کر بین الاقوامی دباؤ سے بچا جا سکے اور کشمیریوں کو اپنی جائیدادوں سے بیدخل کیا جائے۔ بھارت اپنے ہی شہریوں پر حملے کروا کر ”فالس فلیگ آپریشنز“ کے ذریعے پاکستان اور کشمیری مسلمانوں کو بدنام کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں ملوث رہا ہے، ماضی کے درجنوں واقعات اس حقیقت کی تصدیق کر چکے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے فالس فلیگ آپریشنز کی تاریخ شرمندگی سے بھری پڑی ہے اور وہ ہر اوچھی حرکت میں وہ خود ہی اپنی قوم اور دنیا بھر میں بےنقاب ہوتا رہا ہے۔ کانفرنس کے شرکاء بھارت کے اس فالس فلیگ آپریشن کی مذمت کرتے ہیں اور بھارتی دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ پہلگام فائرنگ بالکل سکھوں کا چھٹی سنگھ پورہ قتلِ عام جیسا واقعہ ہے، بھارت نے سال 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے دورے کے موقع پر 35 سکھوں کو قتل کر کے کشمیریوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی تھی، مقبوضہ کشمیر کے مسلمان پاکستان کی محبت سے سرشار ہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں، بھارتی ناکام ایڈونچر کے بعد خطے کے امن کو تباہ کرنے کی دھمکیوں پر پاکستان کے عوام اور مسلح افواج دندان شکن جواب دینے کیلئے تیار ہیں، بھارت کی جانب سے اس قسم کی حرکتوں کا تسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ بھارت میں موجود قدیمی رہائش پذیر مسلمانوں پر زمین کو تنگ کیا جا رہا ہے، بھارت میں مسلمانوں کی وقف املاک اور عمارتوں پر قبضہ کرنے کیلئے مودی حکومت نے اپنے ناجائز قوانین سے توجہ ہٹانے کیلئے فالس فلیگ آپریشن کا ڈرامہ رچایا ہے تاکہ وہ اس عمل کو جواز بنا کر مسلمانوں کو ظلم و ستم کے ساتھ بھارتی سرزمین سے بے دخل کر سکے۔
بھارت دنیا کو مظلوم بن کر دکھا رہا ہے مگر دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کا مستقبل غیر محفوظ ہے۔ بھارت کی فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں آبی جارحیت بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے کیونکہ بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کے 24 گھنٹے کے اندر سندھ طاس معاہدے کو یکدم سے غیر قانونی طور پر اس انداز میں معطل کر دیا ہے کہ جیسے بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے لیے بہانہ بنایا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء کی شق (4)12 کے تحت یکطرفہ طور پر ختم نہیں ہو سکتا، اس معاہدے کے مطابق دونوں ممالک باہمی رضامندی کے بغیر سندھ طاس معاہدہ ختم نہیں کر سکتے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت کی صورت میں پوری قوم مسلح افواج پاکستان کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے، مسلح افواج پاکستان مادرِ وطن کی ناقابلِ تسخیر ڈھال ہیں، جو دشمن کے ناپاک ارادوں کے سامنے فولادی عزم بن کر کھڑی ہیں۔ پاکستان کی مسلح ا فواج صرف زمین کی محافظ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعتماد کی علامت ہے، اگر عالمی برادری نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کی فوری اور مؤثر روک تھام کا اہتمام نہ کیا تو مقبوضہ ریاست میں ایک عظیم انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے، کشمیریوں کی نسل کشی اور قتل عام کے علاوہ لاکھوں کو ہجرت پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور آبادیاتی تناسب (Demographic) تبدیلی سے کشمیریوں کا بنیادی حق خودارادیت غیر ریاستی باشندوں کے ہاتھوں منتقل کرنے کی گھنائونی سازش ہو گی۔
یہ کانفرنس ہندوستان کی سکیورٹی پر اس کی کابینہ کمیٹی کے فیصلہ جات کی مذمت کرتی ہے کیونکہ یہ فیصلہ جات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہندوستان نے ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت بغیر کسی تحقیق پر اقدامات کر کے پاکستان اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری حق خودارادیت کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے، ہندوستان کو یہ قانونی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ کرے، اس معاہدے میں ورلڈ بینک ایک ضامن کے طور پر موجود ہے، ہندوستان کی طرف سے یہ اعلان اس خطہ کو بدامنی اور جنگ میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔ کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق رائے سے پاکستان کی قومی سلامتی کونسل اجلاس کے فیصلوں کی مکمل تائید کی اور پاکستان کے دلیرانہ مؤقف کو جموں و کشمیر کے عوام نے بے حد سراہا، پاکستان کی قومی سلامتی کونسل کے فیصلے ہندوستان کے توسیع پسندانہ، جارحانہ اقدامات کا مؤثر جواب دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔
کانفرنس ہندوستان کی قابض افواج کی طرف سے سیز فائر لائن کی خلاف ورزیوں اور بلااشتعال فائرنگ کی مذمت کرتی ہے اور پاکستان کی بہادر افواج کی طرف سے ہندوستان کو بھرپور جواب دینے پر ان کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کی طرف سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حوالہ سے دو ٹوک موقف اپنانے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنے اور ہندوستان کے ہندوتوا ایجنڈا کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ کانفرنس کے شرکاء قرار دیتے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حق خودارادیت کی جدوجہد عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔ ہندوستان کا کوئی بھی اقدام کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم نہیں کر سکتا اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے ہندوستان کو مجبور کریں اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔
کانفرنس پاکستان کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو خراج تحسین پیش کرتی ہے کہ انہوں نے بھارتی بیانیہ کو شکست دی۔ یہ کانفرنس حکومت پاکستان کے سلامتی کونسل میں مستقل مندوب اور عوامی جمہوریہ چین کی سلامتی کونسل میں مشترکہ کاوشوں کی تحسین کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ کانفرنس اپنی اس توقع کا بھی اظہار کرتی ہے کہ دونوں ممالک مستقبل میں بھی اسی طرح مل کر کام کرتے رہیں گے۔ OIC کشمیریوں کے اصولی موقف کی مسلسل حمایت کرتی رہی ہے، او آئی سی کا بھی خصوصی سربراہی اجلاس حکومت پاکستان کے اہتمام سے فی الفور طلب کیا جائے۔ کانفرنس میں یقین دہانی کروائی گئی کہ آزاد جموں و کشمیر کے باسی دنیا بھر میں موجود کشمیری اور پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ ہیں، منزل کے حصول تک کسی قربانی سے دریغ نہ کریں گے۔ شرکاء نے بروقت آل پارٹیز کشمیر کانفرنس منعقد کرنے پر وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوارالحق کا شکریہ ادا کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کانفرنس کے شرکاء سندھ طاس معاہدہ جموں و کشمیر کے خراج تحسین پیش حق خودارادیت سلامتی کونسل ہندوستان کی ہندوستان کو کانفرنس میں پاکستان کے پاکستان کی فالس فلیگ آل پارٹیز کی طرف سے بھارت کی کہ بھارت کشمیر کی کرنے کی کی کوشش کرتی ہے رہا ہے کیا جا
پڑھیں:
پاک بھارت اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کا ذمے دار کون؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251107-03-7
شاہنواز فاروقی
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی اسلام، مسلمانیت اور اسلامی پاکستان سے اتنے متغیّر ہیں کہ ان کو پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان اور ہندو مسلم تعلقات کی خرابی کے ذمے دار مسلمان نظر آتے نہیں۔ ایاز امیر ایک سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی ہیں روزنامہ دنیا میں انہوں نے اس حوالے سے کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’ایک خطہ ٔ زمین پر دو قوموں کا تشکیل پانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اور اس امر کی بنیاد پر اس خطہ ٔ زمین کا بٹوارا ہو جانا یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایسی کتنی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا پیدا ہونا‘ یہ منفرد بات ضرور ہے۔ بابائے قوم نے تو کہا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایسے دیکھتے ہیں جیسا کہ امریکا اور کینیڈا کے آپس میں۔ تقسیم ہو گئی‘ دو مختلف ممالک معرضِ وجود میں آ گئے اور بابائے قوم کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا‘ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھنے میں۔ پنجاب لہو لہان ضرور ہوا لیکن اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ تقسیم ِ ہند کا فیصلہ ہوا تو دونوں طرف سے لیڈر تقسیم ِ پنجاب کے لیے تیار نہ تھے اور حالات ایسے بنے کہ دونوں طرف سے قتل ِ عام ہونے لگا۔
وجہ عناد تو کچھ سمجھ میں آئے۔ تقسیم ہو گئی تو وجہ عناد رہنی نہیں چاہیے تھی۔ یہ کہنا کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہم نے بنگلا دیش کے قیام کو دل سے قبول کیا تھا؟ لیکن بنگلا دیش معرضِ وجود میں آگیا اور آج تک قائم ہے۔ جب اس ملک کے باسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی پر سوال اٹھتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ذکر کرنا بھی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ کشمیر دو قومی نظریے کی بنیاد نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بعد میں اٹھا‘ دو قومی نظریے کا تصور ہندوستانی تاریخ کے نشیب و فراز میں پنہاں ہے۔ پاکستان تحریک جب اپنے زوروں پر تھی کشمیر کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تو ایک تقریر میں کشمیر اور حیدرآباد دکن کے تبادلے کی بات کی تھی لیکن اس وقت کے ہمارے قائدین کی دلچسپی حیدرآباد دکن میں زیادہ تھی۔ کشمیر کا مسئلہ تو ذرا بعد میں پیدا ہوا۔
سارا مسئلہ 1965ء کی جنگ سے شروع ہوا۔ کوئی خاص وجہ نہ تھی اور دونوں ممالک آنکھوں پر پٹی باندھے برسرِپیکار ہو گئے۔ 17 دن بعد سکت ِ جنگ ٹھنڈی پڑ گئی اور روس کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی۔ لیکن نفرت کے بیج ایسے بوئے گئے کہ دشمنی اٹل ہو گئی۔ یہاں کے لیے میڈم نور جہاں کے نغمے ہی کافی تھے‘ سحر اتنا کہ یہ سوال ہی نہ اْٹھا کہ پہل کس کی تھی۔ حملے کی صورت میں ہندوستانی واردات ستمبر میں ہوئی لیکن اس سے پہلے کا بھی ایک سلسلہ تھا جس کے بارے میں پاکستان میں زیادہ سوال نہیں اٹھتے۔ بہرحال جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی پر گرفت کمزور ہوئی۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پبلک ہیرو کے طور پر ابھرے۔‘‘ (روزنامہ دنیا، 2 نومبر 2025ء)
ہندو ازم اور ہندوئوں کے بالادست طبقات کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتاب وید میں صاف لکھا ہوا ہے کہ کائنات کا خالق اور مالک ورا الوریٰ ہے اور اس کی کوئی شبیہ نہیں بنائی جاسکتی مگر برہمنوں شتریوں اور ویشوں نے خدا کی مورتیاں بنا کر مورتی پوجا شروع کردی۔ ہندوئوں کی ایک اور مقدس کتاب مہا بھارت ہے۔ مہا بھارت میں صاف لکھا ہوا ہے کہ ایک برہمن کے گھر شودر اور ایک شودر کے گھر میں برہمن پیدا ہوسکتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ ہندو ازم میں ذات پات کا نظام اپنی اصل میں روحانی، اخلاقی اور علمی ہے۔ جو شخص زیادہ روحانی، اخلاقی اور علمی استعداد رکھتا ہے وہ برہمن ہے۔ جو شخص جسمانی طور پر طاقت ور ہے اور ریاست کی حفاظت کرسکتا ہے وہ ’’شتریہ‘‘ ہے۔ جو شخص ’’عقل معاش‘‘ زیادہ رکھتا ہے وہ ’’ویش‘‘ ہے اور جو شخص صرف ’’جسمانی محنت‘‘ کرسکتا ہے وہ ’’شودر‘‘ ہے۔ اصل ہندو ازم کی تعلیم یہ ہے۔ لیکن برہمنوں نے ہندوازم میں انسانوں کی تقسیم کے نظام کو صرف ’’پیدائشی‘‘ بنادیا ہے۔ چنانچہ برہمن کے گھر میں پیدا ہونے والا برہمن ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا شیطان کیوں نہ ہو اور شودر کے گھر میں پیدا ہونے والا ’’اچھوت‘‘ ہے خواہ وہ پیدائشی برہمن سے ایک لاکھ گنا اچھا کیوں نہ ہو۔ چنانچہ ہندوستان میں ہزاروں سال سے برہمن، شتریہ اور ویش عیش کررہے ہیں اور 50 کروڑ سے زیادہ شودر اور دلت جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوازم کی تشریح اور تعبیر حق کی بنیاد پر کرنے کے بجائے اپنے مفاد کے مطابق کرتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیوں نہیں کریں گے؟ جو ہندو شودروں اور دلتوں کو جانور بنائے ہوئے ہیں وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا انصاف کریں گے؟ بدھ ازم کا معاملہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بدھ ازم ہندوستان میں پیدا ہوا مگر چونکہ وہ برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا اس لیے اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے بدھ ازم کو یوپی اور بہار میں قدم نہ جمانے دیے۔ انہوں نے بدھ ازم کو ہندوستان کے مضافات میں دھکیل دیا چنانچہ بدھ ازم نے پاکستان میں ٹیکسلا اور افغانستان میں بامیان کو اپنا مرکز بنایا۔ سوال یہ ہے کہ جو ہندو ہندوستان کے ’’مقامی مذہب‘‘ کو گلے نہ لگا سکے وہ ہندو مسلمان اور پاکستان کے ساتھ کیا اچھا سلوک کریں گے؟ سکھ ازم ہندو ازم سے الگ ہے مگر ہندوئوں نے سکھ ازم کو اتنا بدل دیا ہے کہ سکھ ہندوئوں کی توسیع محسوس ہوتے ہیں۔ مگر جب 1984ء میں اندرا گاندھی کے دو سکھ باڈی گارڈز نے اندرا گاندھی کو ہلاک کیا تو اعلیٰ ذات کے ہندوئوں نے سکھوں اور ہندوئوں کے قدیم تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے دلی میں ایک دن میں تین ہزار سکھوں کو ہلاک کیا۔ اس سے قبل اندرا گاندھی سکھوں کے خانہ کعبہ ’’گولڈن ٹیمپل‘‘ پر ٹینک چڑھا چکی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے جو ہندو سکھوں کے ساتھ وفا نہ کرسکے وہ مسلمانوں اور پاکستان کے ساتھ کیا بہتر سلوک کریں گے؟
پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش وروں اور صحافیوں کا خیال ہے کہ ساری خرابی مسلمانوں کے دو قومی نظریے اور اس کی بنیاد پر ہونے والی سیاست سے پیدا ہوئی لیکن یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کی پوری تاریخ پر نظر نہ ہو۔ 1930ء میں جب دو قومی نظریے کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ’’شدھی‘‘ کی تحریک چلا کر مسلمانوں کو لالچ اور دبائو کے تحت دوبارہ ہندو بنانے کی کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ مولانا محمد علی جوہر نے ایک تقریر میں گاندھی کو مخاطب کرکے کہا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنارہے ہیں اور آپ خاموش ہیں۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی اردو میں ناول اور افسانے لکھے۔ وہ اسلامی تہذیب سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس کا ثبوت ان کا معرکہ آرا افسانہ عید گاہ ہے۔ لیکن گاندھی کے زیر اثر آتے ہی پریم چند نے اردو میں افسانے لکھنے چھوڑ دیے اور وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے حالانکہ اردو اور ہندی جڑواں بہنوں کی طرح ہیں۔ اردو کا 30 فی صد سے زیادہ ذخیرہ الفاظ ہندی سے آیا ہے۔ اردو نے ہندی کی ایک درجن سے زیادہ اصوات یا آوازوں کو قبول کیا ہے مگر گاندھی کی سیاست نے پریم چند کو کچھ بھی یاد نہ رہنے دیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔
گاندھی کو اس کا علم ہوا تو وہ وجے لکشمی پر بہت ناراض ہوئے۔ کہنے لگے کہ تمہیں کروڑوں ہندو نوجوانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ملا جس سے تم شادی کرتیں۔ گاندھی نے وجے لکشمی پر اپنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مسلمان کے ساتھ اپنی شادی ختم کردی۔ یہ باتیں دو قومی نظریے کے ظہور اور تحریک پاکستان سے بہت پہلے کی ہیں۔
پاکستان ایک پرامن اور جمہوری جدوجہد کا حاصل تھا۔ 1940 سے 1947ء تک کہیں مسلمانوں نے ہندوئوں سے تصادم کی کوشش نہیں کی۔ مگر ہندو قیادت نے قیام پاکستان کے بعد دلی، یوپی اور پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کراکے پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کو خون آشام کردیا۔ ایسا نہ ہوتا تو پاک بھارت تعلقات بڑی حد تک ’’نارمل‘‘ رہ سکتے تھے۔ ہندو قیادت نے تنگ نظری اور تھڑدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کے مالی اثاثے روک لیے۔ یہ اتنی بڑی ناانصافی تھی کہ گاندھی تک کو ہضم نہ ہوئی اور گاندھی نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردی۔ چنانچہ ہندو قیادت کو طوعاً وکرہاً پاکستان کے حصے کے اثاثے پاکستان کو دینے پڑے۔ بدقسمتی سے بھارت کی ہندو قیادت نے تقسیم کے فارمولے کی روح کی بھی سنگین خلاف ورزیاں کیں۔ حیدر آباد دکن نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا تھا مگر بھارت نے وہاں فوج کشی کرکے حیدر آباد کو پاکستان کے ساتھ الحاق سے روک دیا۔ کشمیر کے عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے مگر ہندو سامراج نے کشمیر پر بھی فوج کشی کے ذریعے قبضہ کرلیا۔ بھارت ایسا نہ کرتا تو پاک بھارت تعلقات معمول کے تعلقات ہوسکتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1962ء کی بھارت چین جنگ کے وقت ہندوستان اپنی ساری فوجی طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا تھا۔ چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ آپ اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور بھارت سے اپنا کشمیر لے لیں مگر جنرل ایوب امریکا کے دبائو میں آگئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی اس رعایت کو کبھی رعایت نہ گردانا اور اسے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں گھس کر اسے بنگلا دیش بنانے کا موقع ملا تو بھارت نے یہ موقع ضائع نہ کیا۔
یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ مسئلہ کشمیر کو بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا چنانچہ اصولاً بھارت کو کشمیر کے لوگوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کرنا چاہیے تھا مگر بھارت نے آج تک ایسا نہیں کیا۔ بھارت پاکستان کے حکمرانوں پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ’’جنگ پرست‘‘ ہیں مگر پاکستانی حکمرانوں کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ انہوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیاقت علی خان نے لیاقت نہرو پیکٹ پر دستخط کیے۔ جنرل ایوب نے تاشقند میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کیے۔ بھٹو نے بھارت کے ساتھ شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کے 9 ادوار ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف کارگل کے ہیرو تھے مگر اس ’’ہیرو‘‘ نے کشمیر کے حوالے سے آگرہ میں ایسے مذاکرات کیے جو کشمیر اور پاکستان کے مفاد سے غداری کے مترادف تھے مگر بھارت نے ان مذاکرات کو بھی سبوتاژ کردیا۔ میاں نواز شریف تو تھے ہی بھارت کے آدمی۔ وہ نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں اس طرح شریک ہوئے جیسے وہ مودی کے غلام ہوں۔ جنرل عاصم منیر کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روز تک جنگ ہوئی مگر اس جنگ کے خاتمے پر جنرل عاصم منیر کے غلام میاں شہباز شریف نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی۔ اس تاریخ کے باوجود بھی اگر کوئی پاکستانی سیکولر اور لبرل دانش ور یہ کہتا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار دو قومی نظریہ یا خود پاکستان ہے تو اس سے زیادہ جاہل اور بے ایمان کوئی نہیں ہے۔