Express News:
2025-08-04@02:32:39 GMT

سندھ میں پانی کی قلت اور نقل مکانی کا مسئلہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

صاف پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہماری جسمانی صحت کے لیے اہم ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور صاف پانی کے بغیر صحت مند زندگی ممکن نہیں۔ پینے، کھانے پکانے، زراعت اور صفائی ستھرائی کے تمام کاموں کے لیے صاف پانی ناگزیر ہے۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں اور دیگر انفیکشنز پیدا ہوتے ہیں جو انسانی جان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

 بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقے ، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں، حکومتی غفلت اور قدرتی وسائل کے بے تحاشا ضیاع کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ پینے کے صاف پانی کی قلت ہے، جو نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ مقامی حیاتیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

پانی کی کمی کے باعث ان علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع ہو چکی ہے، جو مستقبل قریب میں ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

 سندھ کے ساحلی علاقوں جیسے کہ کیٹی بندر، جھرک، گھوڑا باری، بادین، اور ٹھٹھہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ یہ علاقے کبھی دریائے سندھ کے پانی سے بھرپور ہوا کرتے تھے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔

کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی چھوڑنے کی کمی کی وجہ سے سمندر کا کھارا پانی دریا میں داخل ہوگیا ہے، جس نے زیرِ زمین میٹھے پانی کو آلودہ کردیا ہے۔ سمندر کی سطح میں اضافہ اور زمین کا کٹاؤ ان علاقوں کی زرخیز زمینوں کو برباد کررہا ہے، جس سے زراعت اور پینے کے پانی کے ذرایع ناپید ہوگئے ہیں۔

 حکومتی سطح پر مناسب ڈیم، آبی ذخائر اور صاف پانی کی اسکیمیں نافذ نہیں کی گئیں، جس کا خمیازہ مقامی آبادی بھگت رہی ہے۔ پانی کی قلت اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے باعث ہزاروں خاندان سندھ کے ساحلی علاقوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔

یہ خاندان ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دیگر علاقوں سے اندرون سندھ ہجرت کر کے میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، نوابشاہ اور حیدرآباد جیسے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے کیونکہ وہ اپنی زمین، مویشی اور روزگار کھو چکے ہیں۔

تھرپارکر کا علاقہ بھی پانی کی کمی سے شدید متاثر ہے۔ یہاں نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اطلاعات آئی ہیں کہ تھر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے پچاس سے زائد مور مرگئے۔ مور، جو تھر کا خوبصورت اور مقدس پرندہ مانا جاتا ہے، اس سانحے سے تھر کے ماحولیاتی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایسے مشکل حالات میں فلاحی تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ جے ڈی سی اور دیگر این جی اوز جیسے کہ ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، ہینڈز اور انڈس ہاسپٹل کو چاہیے کہ وہ ان بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے خصوصی امدادی مہمات شروع کریں۔

ان خاندانوں کو رہائش، خوراک، طبی امداد اور صاف پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔جے ڈی سی اور دیگر ادارے اگر منظم انداز میں کام کریں تو وہ عارضی کیمپ قائم کر کے ان لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی طبی نگہداشت اور تعلیم کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فلاحی تنظیموں کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔

ہینڈ پمپس اور نلکوں کی تنصیب: گاؤں گاؤں میں ہینڈ پمپس اور نلکے لگائے جائیں تاکہ زیر زمین میٹھا پانی استعمال کیا جا سکے۔

ریورس آسموسز (RO) پلانٹس کی تنصیب:کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے RO پلانٹس لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کئی تنظیمیں پہلے سے یہ کام کر رہی ہیں، لیکن یہ دائرہ کار ابھی بہت محدود ہے۔

بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے: بارانی علاقوں میں پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

پانی کے ٹینکرز کی سہولت: جب تک مستقل بندوبست نہ ہو، تب تک پانی کے ٹینکرز کے ذریعے فراہمی یقینی بنائی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ صاف پانی کی اہمیت کے بارے میں ایک منظم آگاہی مہم چلائے تاکہ عوام کو صاف پانی کے استعمال، اس کی حفاظت، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا سکیں۔ گاؤں، قصبوں اور شہروں میں پینے کے پانی کے ذرایع اکثر آلودہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگر عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ صاف پانی کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے محفوظ کیسے رکھا جا سکتا ہے، تو صحت کے مسائل میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔آگاہی مہم میں میڈیا، اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پمفلٹس، اشتہارات، ڈاکیومنٹریز، اور ورکشاپس کے ذریعے ہر طبقہ فکر تک یہ پیغام پہنچائے کہ صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا تحفظ ہر شہری کی ذمے داری ہے۔

ساتھ ہی، حکومت کو پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور موجودہ واٹر سپلائی سسٹم کی بہتری پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے آگاہی کا پیغام مؤثر ہو سکے۔سندھ کے بارے لوگوں کو آگے آکر پانی کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ کے بااثر افراد، جن میں سیاستدان، جاگیردار، تاجر اور تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے، ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بحران کا ادراک کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ انھیں صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صاف پانی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، آگاہی مہمات، اور حکومتی سطح پر دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جب بااثر افراد اپنی حیثیت اور وسائل کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کریں گے تو نہ صرف لاکھوں زندگیاں بہتر ہوں گی بلکہ ایک مثبت سماجی تبدیلی کی بنیاد بھی پڑے گی۔پانی کی قلت صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، صحت، معیشت اور تعلیم کے مسائل سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کی کمی نے انسانوں، جانوروں اور فطرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ ایک قومی ایمرجنسی کی صورت اختیار کرچکی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے بلکہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر طویل مدتی پالیسی ترتیب دے۔ بصورت دیگر، آنے والے برسوں میں پانی پر جنگیں، بڑے پیمانے پر ہجرت اور انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علاقوں میں پانی سندھ کے ساحلی صاف پانی کی کہ صاف پانی کو چاہیے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے ضرورت ہے حکومت کو اور دیگر پینے کے کے پانی پانی کو پانی کے سکتا ہے کے لیے ا گاہی کی کمی

پڑھیں:

بارشیں اورسیلاب: قدرتی آفات میں تیزی

گزشتہ دہائی میں دنیا بھر میں شدید بارشوں اور تباہ کن سیلابوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہ مظاہرجو کبھی صدیوں میں ایک بار ہوتے تھے، اب ہر چند سال بعد دہرائے جا رہے ہیں۔

 کیا یہ قدرت کا معمول ہے یا موسمیاتی تبدیلی کی ہولناک حقیقت؟ پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، یورپ، کینیڈا اور افریقہ،کہیں زمین دھنس رہی ہے تو کہیں پانی سب کچھ بہا لے جا رہا ہے۔ کیا ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں ’’ قدرتی آفت‘‘ محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک مسلسل خطرہ بن چکی ہے؟عالمی سطح پر بارشوں اور سیلابوں میں ہونے والے اضافے کے بارے میںاقوامِ متحدہ کی حالیہ رپورٹ’’ اسٹیٹ آف دی کلائمیٹ 2024 کے مطابق 2023 میں دنیا بھر میں بارش کے ریکارڈ ٹوٹے۔

ورلڈ بینک کے مطابق 2020 سے 2024 کے درمیان جنوبی ایشیا میں اوسطاً ہر سال پانچ بڑے سیلاب آ چکے ہیں، جن کی شدت اور تباہی مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔بین ا لحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی چھٹی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے عالمی درجہ حرارت کو 1.2°C بڑھا دیا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہوا کے نظام، بارش کے پیٹرن اور سمندری بخارات کو متاثر کر رہا ہے، جس سے شدید بارشوں کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گرم فضا میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے، جس کے نتیجے میں تھوڑی دیر میں انتہائی شدت کی بارش ہو سکتی ہے جسے ’’ کلائوڈ برسٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

 یہ مظاہر نہ صرف ہنگامی صورتحال پیدا کرتے ہیں بلکہ زراعت، صحت اور پانی کی فراہمی جیسے شعبے بھی اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ قدرتی آفات کا سامنا دنیا بھرکو ہے، مگر ان کا بوجھ سب پر برابر نہیں پڑتا۔ افریقی ممالک، لاطینی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے غریب اور ترقی پذیر ممالک ان آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، حالانکہ ان کا کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

رواں سال بھی دنیا کے لیے موسمیاتی آفات کا ایک اور درد ناک باب ثابت ہو رہا ہے۔ شدید بارشیں، تباہ کن سیلاب،گلیشیئر پھٹنے کے واقعات اور زمین کھسکنے جیسے مظاہر اب محض علاقائی خبریں نہیں رہیں، بلکہ ایک عالمی چیلنج بن چکے ہیں۔ ایشیا ئی ممالک سے لے کر افریقا، امریکا سے چین تک، قدرتی آفات نے ہزاروں جانیں لے لی ہیں، لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے، اور اربوں ڈالرکے معاشی نقصانات کا سبب بنی ہیں۔

 ان واقعات نے ایک بار پھر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی خطرے کی حقیقت کو اجاگرکردیا ہے۔2025 کا مون سون پاکستان، بھارت اور نیپال کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔ پاکستان میں کلاؤڈ برسٹ، گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ اور تیز بارشوں نے 293 جانیں لے لیں اور 600 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب کے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

کئی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، جب کہ فصلیں، پل اور سڑکیں مکمل تباہ ہو گئیں۔ قدرتی آفات کی شدت اپنی جگہ، مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں شہری منصوبہ بندی اور واٹر مینجمنٹ کی کمزوری اس تباہی کو دوچند کر دیتی ہے۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات، لاہور میں سیوریج نظام کی تباہی، اور شمالی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی وہ عوامل ہیں جو بارش کو سیلاب میں بدل دیتے ہیں۔

 ڈھاکا، جکارتہ اور منیلا جیسے شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں آبادی کا دباؤ، ناقص ڈرینج سسٹم اور غیر رسمی آبادیاں سیلابی پانی کو تباہی میں بدل دیتی ہیں۔ لاس اینڈ ڈیمج فنڈ جیسے عالمی مالی وعدے تاحال عمل میں نہیں آ سکے، جس کی وجہ سے متاثرہ ممالک کو ریلیف اور بحالی کے لیے قرضوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔

ماحولیاتی انصاف کی غیر موجودگی اس عالمی مسئلے کو ایک اخلاقی بحران میں بدل رہی ہے۔ شدید بارشیں اور مہلک سیلاب اب محض ’’ قدرتی آفت‘‘ نہیں رہے، بلکہ یہ موسمیاتی بحران کی واضح علامت ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی، سماجی اور انسانی بحران ہے۔

 پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں پہلے ہی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، موسمیاتی تبدیلی کسی خاموش طوفان سے کم نہیں۔ سوال صرف یہ نہیں کہ اگلا سیلاب کب آئے گا، بلکہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنا تیار ہیں؟ اور کیا دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی انصاف کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داری ادا کریں گے؟

2025 کی ان آفات نے ہمیں خبردار کر دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب مستقبل کی بات نہیں بلکہ حال کا المیہ ہے، اگر عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک، اور مقامی حکومتیں فوری اور مشترکہ اقدامات نہیں کرتیں تو آنے والے برس مزید خونی اور تباہ کن ثابت ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر پانی کی سطح بلند، مزید بستیاں اور فصلیں زیر آب
  • دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ، مزید بستیاں اور فصلیں زیر آب
  • دریائے چناب اور نسھ میں نچلے درجے کا سیلاب ‘ متعدد دیہات زیرآب فصلیں تباہ
  • خلا کی فتح، زمین کی محرومی
  • بارشیں اورسیلاب: قدرتی آفات میں تیزی
  • کوئٹہ میں شدید گرمی کی لہر، سوئمنگ پولز کی مانگ میں اضافہ
  • فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پر امریکی پابندیاں حیران کن ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • وزیراعلی سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • وزیراعلیٰ سندھ نے مائی کراچی نمائش کا افتتاح کردیا؛ جشن آزادی کا پہلا ایونٹ قرار
  • دریائے چناب اور سندھ میں مختلف مقامات پر نچلے درجے کا سیلاب