Express News:
2025-06-19@05:17:23 GMT

سندھ میں پانی کی قلت اور نقل مکانی کا مسئلہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT

صاف پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہماری جسمانی صحت کے لیے اہم ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور صاف پانی کے بغیر صحت مند زندگی ممکن نہیں۔ پینے، کھانے پکانے، زراعت اور صفائی ستھرائی کے تمام کاموں کے لیے صاف پانی ناگزیر ہے۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں اور دیگر انفیکشنز پیدا ہوتے ہیں جو انسانی جان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

 بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقے ، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں، حکومتی غفلت اور قدرتی وسائل کے بے تحاشا ضیاع کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ پینے کے صاف پانی کی قلت ہے، جو نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ مقامی حیاتیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔

پانی کی کمی کے باعث ان علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع ہو چکی ہے، جو مستقبل قریب میں ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔

 سندھ کے ساحلی علاقوں جیسے کہ کیٹی بندر، جھرک، گھوڑا باری، بادین، اور ٹھٹھہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ یہ علاقے کبھی دریائے سندھ کے پانی سے بھرپور ہوا کرتے تھے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔

کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی چھوڑنے کی کمی کی وجہ سے سمندر کا کھارا پانی دریا میں داخل ہوگیا ہے، جس نے زیرِ زمین میٹھے پانی کو آلودہ کردیا ہے۔ سمندر کی سطح میں اضافہ اور زمین کا کٹاؤ ان علاقوں کی زرخیز زمینوں کو برباد کررہا ہے، جس سے زراعت اور پینے کے پانی کے ذرایع ناپید ہوگئے ہیں۔

 حکومتی سطح پر مناسب ڈیم، آبی ذخائر اور صاف پانی کی اسکیمیں نافذ نہیں کی گئیں، جس کا خمیازہ مقامی آبادی بھگت رہی ہے۔ پانی کی قلت اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے باعث ہزاروں خاندان سندھ کے ساحلی علاقوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔

یہ خاندان ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دیگر علاقوں سے اندرون سندھ ہجرت کر کے میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، نوابشاہ اور حیدرآباد جیسے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے کیونکہ وہ اپنی زمین، مویشی اور روزگار کھو چکے ہیں۔

تھرپارکر کا علاقہ بھی پانی کی کمی سے شدید متاثر ہے۔ یہاں نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اطلاعات آئی ہیں کہ تھر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے پچاس سے زائد مور مرگئے۔ مور، جو تھر کا خوبصورت اور مقدس پرندہ مانا جاتا ہے، اس سانحے سے تھر کے ماحولیاتی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایسے مشکل حالات میں فلاحی تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ جے ڈی سی اور دیگر این جی اوز جیسے کہ ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، ہینڈز اور انڈس ہاسپٹل کو چاہیے کہ وہ ان بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے خصوصی امدادی مہمات شروع کریں۔

ان خاندانوں کو رہائش، خوراک، طبی امداد اور صاف پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔جے ڈی سی اور دیگر ادارے اگر منظم انداز میں کام کریں تو وہ عارضی کیمپ قائم کر کے ان لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی طبی نگہداشت اور تعلیم کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فلاحی تنظیموں کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔

ہینڈ پمپس اور نلکوں کی تنصیب: گاؤں گاؤں میں ہینڈ پمپس اور نلکے لگائے جائیں تاکہ زیر زمین میٹھا پانی استعمال کیا جا سکے۔

ریورس آسموسز (RO) پلانٹس کی تنصیب:کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے RO پلانٹس لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کئی تنظیمیں پہلے سے یہ کام کر رہی ہیں، لیکن یہ دائرہ کار ابھی بہت محدود ہے۔

بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے: بارانی علاقوں میں پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

پانی کے ٹینکرز کی سہولت: جب تک مستقل بندوبست نہ ہو، تب تک پانی کے ٹینکرز کے ذریعے فراہمی یقینی بنائی جائے۔

حکومت کو چاہیے کہ صاف پانی کی اہمیت کے بارے میں ایک منظم آگاہی مہم چلائے تاکہ عوام کو صاف پانی کے استعمال، اس کی حفاظت، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا سکیں۔ گاؤں، قصبوں اور شہروں میں پینے کے پانی کے ذرایع اکثر آلودہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اگر عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ صاف پانی کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے محفوظ کیسے رکھا جا سکتا ہے، تو صحت کے مسائل میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔آگاہی مہم میں میڈیا، اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پمفلٹس، اشتہارات، ڈاکیومنٹریز، اور ورکشاپس کے ذریعے ہر طبقہ فکر تک یہ پیغام پہنچائے کہ صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا تحفظ ہر شہری کی ذمے داری ہے۔

ساتھ ہی، حکومت کو پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور موجودہ واٹر سپلائی سسٹم کی بہتری پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے آگاہی کا پیغام مؤثر ہو سکے۔سندھ کے بارے لوگوں کو آگے آکر پانی کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ کے بااثر افراد، جن میں سیاستدان، جاگیردار، تاجر اور تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے، ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بحران کا ادراک کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ انھیں صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صاف پانی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، آگاہی مہمات، اور حکومتی سطح پر دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کرنے چاہئیں۔

جب بااثر افراد اپنی حیثیت اور وسائل کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کریں گے تو نہ صرف لاکھوں زندگیاں بہتر ہوں گی بلکہ ایک مثبت سماجی تبدیلی کی بنیاد بھی پڑے گی۔پانی کی قلت صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، صحت، معیشت اور تعلیم کے مسائل سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کی کمی نے انسانوں، جانوروں اور فطرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ ایک قومی ایمرجنسی کی صورت اختیار کرچکی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے بلکہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر طویل مدتی پالیسی ترتیب دے۔ بصورت دیگر، آنے والے برسوں میں پانی پر جنگیں، بڑے پیمانے پر ہجرت اور انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: علاقوں میں پانی سندھ کے ساحلی صاف پانی کی کہ صاف پانی کو چاہیے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے ضرورت ہے حکومت کو اور دیگر پینے کے کے پانی پانی کو پانی کے سکتا ہے کے لیے ا گاہی کی کمی

پڑھیں:

حکومت کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرے،مرکز شوریٰ جماعت اسلامی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250616-01-16
لاہور (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی کی مرکزی شوری ٰ کے اجلاس میں کشمیر پر فوری مذاکرات شروع کرنے اور مذاکرات میں اصل فریق کشمیریوں کو شریک کرنے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو دوٹوک موقف اختیار کرنا ہوگا کہ کوئی بھی حل کشمیری عوام کی شمولیت اور مرضی کے بغیر قابل قبول نہیں۔ اصل فریق کی شرکت سے مذاکرات موثر اور حل طلب ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جنوبی ایشیا کا امن دو جوہری طاقتوں کی کشمکش کی وجہ سے برباد ہو جائے گا جس کے اثرات مدتوں قائم رہیں گے۔یہ قرارداد ڈاکٹر محمد مشتاق خان امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر نے پیش کی ۔ شوریٰ نے قرار دیا کہ بھارت لاتوں کا بھوت ہے جو باتوں سے کبھی بھی نہیں مانے گا۔ حالیہ جنگ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ بھارت طاقت کے نشے میں چور ہو کر مسئلہ کشمیر سے دنیا کی نظریں ہٹانا چاہتا تھا لیکن پاکستان کی طرف سے بروقت جواب نے اسے نہ صرف ہزیمت سے دوچار کیا بلکہ عالمی سطح پر اس کا گھنائونا کردار بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ پاکستان ایسے حالات میں کسی طرح کی کمزوری دکھانے کی بجائے کشمیریوں کے جائز حق کے لیے سفارتی اور عسکری سطح پر جدو جہد تیز کرے۔ یہ وہ موقع ہے جسے پانے کے لیے قو میں برسوں جدو جہد کرتی ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے جو شاندار موقع دیا ہے اس کی وجہ سے اہل کشمیر کی توقعات بڑھ چکی ہیں۔ اس لیے کسی بھی سطح کے مذاکراتی عمل میں پہلا اور غیر متزلزل مطالبہ یہی ہو کہ بھارت 5 اگست 2019 سے پہلے والی آئینی حیثیت (آرٹیکل 370 اور 35 A.) بحال کرے، تا کہ مسئلہ کشمیر کی حیثیت ایک متنازعہ مسئلہ کے طور پر دنیا کے سامنے برقرار رہے۔ شوریٰ نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ اگر عالمی امن، اصول اور انصاف کا احترام مطلوب ہے تو پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو رائے شماری کا حق دینا ہوگا، جس کی ضمانت سلامتی کونسل متعدد بار دے چکی ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے پاکستان اور بھارت نے وقتی طور پر سیز فائر کیا ہے لیکن بھارت ایک نا قابل اعتبار ملک ہے جس نے کبھی اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کی اس لیے پاکستان کسی بھی طرح کے مذاکراتی عمل میں جاتے وقت مطالبہ کرے کہ بھارت جموں کشمیر کو بنیادی مسئلہ سمجھتے ہوئے فوجی محاصرہ ختم کرے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد میڈیا کو ریاست میں داخلے کی اجازت دے۔ برسوں سے عقوبت خانوں میں محصور کشمیری قیادت کو رہا کرے۔بھارت سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کے پانی کو محدود کرنے کی کوششیں بند کرے۔ مذاکرات میں اس معاہدے کی بین الاقوامی نگرانی اور ثالثی پر زور دیا جائے۔اجلاس امید رکھتا ہے کہ پاکستان جموں کشمیر کی آزادی کا یہ بہترین موقع ضائع نہیں ہونے دے گا۔

لاہور: امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن منصورہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

 

متعلقہ مضامین

  • کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ نہیں رہا، ٹرمپ کا ظہرانہ اہم سنگ میل: خواجہ آصف
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو پیغام 
  • کے الیکٹرک کی خرابی کے باعث کراچی کے کئی علاقوں کو پانی کی فراہمی معطل
  • سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں گرمی کی شدت میں اضافہ
  • امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے، صدر آزاد کشمیر
  • امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل
  • مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کا امتحان
  • ایئر انڈیا کے ایک اور ڈریم لائنر میں مسئلہ، ہانک گانگ واپس لوٹ گیا
  • حکومت کشمیر پر دوٹوک موقف اختیار کرے،مرکز شوریٰ جماعت اسلامی