سندھ میں پانی کی قلت اور نقل مکانی کا مسئلہ
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
صاف پانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ نہ صرف ہماری جسمانی صحت کے لیے اہم ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ انسانی جسم کا بڑا حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے اور صاف پانی کے بغیر صحت مند زندگی ممکن نہیں۔ پینے، کھانے پکانے، زراعت اور صفائی ستھرائی کے تمام کاموں کے لیے صاف پانی ناگزیر ہے۔ آلودہ پانی سے کئی بیماریاں اور دیگر انفیکشنز پیدا ہوتے ہیں جو انسانی جان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
بالخصوص سندھ کے ساحلی علاقے ، حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں، حکومتی غفلت اور قدرتی وسائل کے بے تحاشا ضیاع کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ ان مسائل میں سب سے اہم اور سنگین مسئلہ پینے کے صاف پانی کی قلت ہے، جو نہ صرف انسانی زندگیوں بلکہ مقامی حیاتیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
پانی کی کمی کے باعث ان علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی شروع ہو چکی ہے، جو مستقبل قریب میں ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔
سندھ کے ساحلی علاقوں جیسے کہ کیٹی بندر، جھرک، گھوڑا باری، بادین، اور ٹھٹھہ میں پینے کے پانی کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ یہ علاقے کبھی دریائے سندھ کے پانی سے بھرپور ہوا کرتے تھے، لیکن اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔
کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی چھوڑنے کی کمی کی وجہ سے سمندر کا کھارا پانی دریا میں داخل ہوگیا ہے، جس نے زیرِ زمین میٹھے پانی کو آلودہ کردیا ہے۔ سمندر کی سطح میں اضافہ اور زمین کا کٹاؤ ان علاقوں کی زرخیز زمینوں کو برباد کررہا ہے، جس سے زراعت اور پینے کے پانی کے ذرایع ناپید ہوگئے ہیں۔
حکومتی سطح پر مناسب ڈیم، آبی ذخائر اور صاف پانی کی اسکیمیں نافذ نہیں کی گئیں، جس کا خمیازہ مقامی آبادی بھگت رہی ہے۔ پانی کی قلت اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے باعث ہزاروں خاندان سندھ کے ساحلی علاقوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔
یہ خاندان ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دیگر علاقوں سے اندرون سندھ ہجرت کر کے میرپورخاص، عمرکوٹ، مٹیاری، نوابشاہ اور حیدرآباد جیسے علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے کیونکہ وہ اپنی زمین، مویشی اور روزگار کھو چکے ہیں۔
تھرپارکر کا علاقہ بھی پانی کی کمی سے شدید متاثر ہے۔ یہاں نہ صرف انسان بلکہ جانور بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اطلاعات آئی ہیں کہ تھر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے پچاس سے زائد مور مرگئے۔ مور، جو تھر کا خوبصورت اور مقدس پرندہ مانا جاتا ہے، اس سانحے سے تھر کے ماحولیاتی نظام کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔
ایسے مشکل حالات میں فلاحی تنظیموں کو آگے آنا ہوگا۔ جے ڈی سی اور دیگر این جی اوز جیسے کہ ایدھی فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، ہینڈز اور انڈس ہاسپٹل کو چاہیے کہ وہ ان بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے خصوصی امدادی مہمات شروع کریں۔
ان خاندانوں کو رہائش، خوراک، طبی امداد اور صاف پانی کی فراہمی نہایت ضروری ہے۔جے ڈی سی اور دیگر ادارے اگر منظم انداز میں کام کریں تو وہ عارضی کیمپ قائم کر کے ان لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی طبی نگہداشت اور تعلیم کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کے بحران پر قابو پانے کے لیے فلاحی تنظیموں کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں۔
ہینڈ پمپس اور نلکوں کی تنصیب: گاؤں گاؤں میں ہینڈ پمپس اور نلکے لگائے جائیں تاکہ زیر زمین میٹھا پانی استعمال کیا جا سکے۔
ریورس آسموسز (RO) پلانٹس کی تنصیب:کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے RO پلانٹس لگانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کئی تنظیمیں پہلے سے یہ کام کر رہی ہیں، لیکن یہ دائرہ کار ابھی بہت محدود ہے۔
بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبے: بارانی علاقوں میں پانی کے ذخائر اور چھوٹے ڈیم بنا کر بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
پانی کے ٹینکرز کی سہولت: جب تک مستقل بندوبست نہ ہو، تب تک پانی کے ٹینکرز کے ذریعے فراہمی یقینی بنائی جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ صاف پانی کی اہمیت کے بارے میں ایک منظم آگاہی مہم چلائے تاکہ عوام کو صاف پانی کے استعمال، اس کی حفاظت، اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچاؤ کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جا سکیں۔ گاؤں، قصبوں اور شہروں میں پینے کے پانی کے ذرایع اکثر آلودہ ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اگر عوام کو یہ شعور دیا جائے کہ صاف پانی کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اسے محفوظ کیسے رکھا جا سکتا ہے، تو صحت کے مسائل میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔آگاہی مہم میں میڈیا، اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پمفلٹس، اشتہارات، ڈاکیومنٹریز، اور ورکشاپس کے ذریعے ہر طبقہ فکر تک یہ پیغام پہنچائے کہ صاف پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اس کا تحفظ ہر شہری کی ذمے داری ہے۔
ساتھ ہی، حکومت کو پانی کے فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب اور موجودہ واٹر سپلائی سسٹم کی بہتری پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ عملی اقدامات کے ذریعے آگاہی کا پیغام مؤثر ہو سکے۔سندھ کے بارے لوگوں کو آگے آکر پانی کے حوالے سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سندھ کے بااثر افراد، جن میں سیاستدان، جاگیردار، تاجر اور تعلیم یافتہ طبقہ شامل ہے، ان پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بحران کا ادراک کریں اور عملی اقدامات اٹھائیں۔ انھیں صرف بیانات تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ صاف پانی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، آگاہی مہمات، اور حکومتی سطح پر دباؤ ڈالنے جیسے اقدامات کرنے چاہئیں۔
جب بااثر افراد اپنی حیثیت اور وسائل کو عوامی فلاح کے لیے استعمال کریں گے تو نہ صرف لاکھوں زندگیاں بہتر ہوں گی بلکہ ایک مثبت سماجی تبدیلی کی بنیاد بھی پڑے گی۔پانی کی قلت صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق، صحت، معیشت اور تعلیم کے مسائل سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ سندھ کے ساحلی اور صحرائی علاقوں میں پانی کی کمی نے انسانوں، جانوروں اور فطرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ ایک قومی ایمرجنسی کی صورت اختیار کرچکی ہے، جس پر فوری توجہ درکار ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنائے بلکہ فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر طویل مدتی پالیسی ترتیب دے۔ بصورت دیگر، آنے والے برسوں میں پانی پر جنگیں، بڑے پیمانے پر ہجرت اور انسانی جانوں کا ضیاع ناگزیر ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علاقوں میں پانی سندھ کے ساحلی صاف پانی کی کہ صاف پانی کو چاہیے کہ پانی کی قلت کی وجہ سے ضرورت ہے حکومت کو اور دیگر پینے کے کے پانی پانی کو پانی کے سکتا ہے کے لیے ا گاہی کی کمی
پڑھیں:
پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب
پنجاب کے دریاؤں میں پانی کی سطح میں کمی کے بعد دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کے باعث کچے کے علاقے زیر آب آگئے۔
وفاقی وزیر معین وٹو کے مطابق دریائے چناب میں پنجند پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور سطح مزید کم ہو رہی ہے جبکہ دریائے سندھ میں گڈو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ کوٹری بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور سطح مستحکم ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ تربیلا ڈیم 27 اگست سے 100 فیصد بھرا ہوا ہے جبکہ منگلا ڈیم 95 فیصد بھر چکا اور مزید 4.30 فٹ کی گنجائش باقی ہے۔
سندھ میں پانی کی آمد و اخراج
محکمہ اطلاعات سندھ کی طرف سے دریاؤں اور بیراجوں میں پانی کی آمد و اخراج کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی جاری کیے گئے ہیں۔
گڈو بیراج پر پانی کی آمد 609137 کیوسک اور اخراج 580927 کیوسک، سکھر بیراج پر پانی کی آمد 571800 کیوسک اور اخراج 518120 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کوٹری بیراج پر پانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور آمد 300853 کیوسک جبکہ اخراج 289098 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پنجند کے مقام پر پانی کی آمد 234755 کیوسک جبکہ اخراج 229905 کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
پی ڈی ایم اے پنجاب
دریائے سندھ میں تربیلا کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 96 ہزار کیوسک اور کالا باغ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 69 ہزار کیوسک ہے۔
چشمہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 78 ہزار کیوسک جبکہ سندھ تونسہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ایک لاکھ 61 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے چناب میں مرالہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ 56 ہزار کیوسک، خانکی کے مقام پر پانی کا بہاؤ 68 ہزار کیوسک اور قادر آباد کے مقام پر 75 ہزار کیوسک ہے۔
ہیڈ تریموں کے مقام پر پانی کا بہاؤ 80 ہزار کیوسک ہے جبکہ ہیڈ پنجند کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہان پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 34 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے راوی جسر کے مقام پر پانی کا بہاؤ 8 ہزار کیوسک، شاہدرہ کے مقام پر 10 ہزار کیوسک، بلوکی کے مقام پر 29 ہزار اور سدھنائی کے مقام پر 23 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے جہاں پانی کا بہاؤ 1 لاکھ 1 ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ اسلام کے مقام پر بھی درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور بہاؤ 81 ہزار کیوسک ہے۔
ہیڈ سلیمانکی کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے اور بہاؤ 90 ہزار کیوسک ہے۔