Express News:
2025-11-04@06:12:53 GMT

زباں فہمی نمبر247کشمیر اور اُردو (حصہ سوم)

اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT

ہرچند کہ راقم، موضوع کے پس منظر میں شامل، عربی وفارسی کے نشانات کی طرف بہت خفیف اشارہ کرکے بات آگے بڑھاچکا تھا، بہرحال جمّوں وکشمیر کی تاریخ کے اس زرّیں باب کے متعلق مزید معلومات برسبیل تذکرہ بہم پہنچانے میں حرج نہیں۔ کشمیر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے مسلمانوں میں ایک نام حمیم بن سامہ شامی کا ہے جو بہ اختلافِ روایت محمد بن قاسم کے لشکر کے اُن مجاہدین میں شامل تھا جو راجہ داہر کے بیٹوں کے تعاقب میں وادی تک جاپہنچے ۔

یا۔راجگانِ کشمیر کا کوئی ملاز م تھا۔ فاتح سندھ کے لشکر میں ایرانیوں خصوصاً شیرازیوں کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی، یوں عربی وفارسی جیسی بڑی اسلامی زبانوں نے پہلی صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی ہی میں اس وادی میں قدم جمالیے تھے۔

اردو شاعری میں اوّلیت کے دعوے دار یا اُن کے متعلق دعاوی (دعویٰ کی جمع) کا ذکر سلسلہ زباں فہمی میں ہوتا رہتا ہے۔ شمالی ہند میں ولیؔ گجراتی دکنی کی آمد سے بھی قبل ، اردو غزل کہنے کا شرف ایک کشمیری برہمن پنڈِت چندربھان برہمنؔ لاہوری الملقب بہ ’رائے‘ (مغل بادشاہ شاہ جہاں، شہزادہ داراشِکوہ اور بادشاہ اورنگزیب کے خاص مصاحب) کو حاصل ہوا تھا جس کی فارسی دانی وفارسی غزل گوئی کے ساتھ ساتھ یہ اردو غزل بھی داد طلب ہے (جنوب میں بہمن شاہی شاعر بادشاہوں اور ماقبل بابافرید۔ یا ۔اُن سے بھی قبل کا تذکرہ اس سے ہٹ کر ہے):

خُدا نے کس شہر اَندر ہَمَن کو لائے ڈالا ہے

نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے

پیا کے ناؤں (نام) کی سمرن کیا چاہوں کروں کیسے

نہ تسبی (تسبیح) ہے نہ سمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے

خُباں (خوباں) کی باغ میں رونق ہوئے تو کس طرح یاراں

نہ رونا ہے نہ مَروا (مروہ: پودہ) ہے نہ سوسن ہے نہ لالا ہے

پیا کے ناؤں عاشق قتل کوں (کو) باعجب دیکھے ہوں (دیکھ چکا ہوں)

نہ برچھی ہے نہ کرچھی (کرچھا) ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے

برہمن ؔ واسطے اشنان کے پھِرتا ہے بگیا (باغ) میں

نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندّی ہے نہ نالا ہے

(منقول: پنجاب کے قدیم اردوشعراء از خورشید احمد خان یوسفی، ناشر: مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد: 1992)

پنڈِت موصوف نے مسلمان علماء سے دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ علامہ عبدالحکیم سیال کوٹی کے شاگرد تھے۔ شاہ جہاں نے چندربھان کو اپنا وقایع نویسِ حضوری مقرر کرکے اپنے سیروسفر کا روزنامچہ مرتب کرنے کی ذمے داری سونپی تھی۔ وہ بادشاہ کے عطا کردہ خصوصی ہاتھی پر سوار ہوکر، بادشاہ کے جلوس میں شامل ہوکر نکلتا تھا۔ اُسے 9 اپریل 1556ء کو بادشاہ نے ’رائے‘ کا لقب عطا کیا۔ شہزادہ داراشِکوہ نے اُسے اپنی مصاحبت کے لیے والد سے مانگ لیا تو وہ شہزادے کی ملازمت میں رہا، پھر شہزادے کے قتل کے بعد، بادشاہ اورنگزیب کا ملازم ہوگیا اور بادشاہ کی تخت نشینی (1658ء) کے چھے (بلکہ سات) سال بعد، 1075ھ مطابق 1665ء میں فوت ہوا۔

یہ بیان ہے محقق محمد عبداللّہ قریشی، مدیر ’ادبی دنیا‘، لاہور کا جو اُن کے مقالے ’کشمیر کی فارسی شاعری‘ (مشمولہ ’’ایرانِ کبیر واِیرانِ صغیر‘‘، ناشر: جشنِ ایران کمیٹی، آزاد کشمیر، مظفرآباد ۔آزاد کشمیر:1971ء) میں شامل ہے جبکہ خورشید یوسفی نے نمعلوم کس حوالے سے پنڈت چندربھان کا سن ِ وفات 1073ھ (مطابق:1663ء) لکھا ہے جو بظاہر غلط ہی لگتا ہے۔

اردو کے خطہ کشمیر میں اثرونفوذ کے باب میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ زبان، وادی پر حکومت کرنے والے1753)ء تا 1819ء)

 افغان حکمرانوں اور کشمیری عوام کے مابین اُس وقت بھی رابطے کا کام کرتی تھی جب ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ بعینہٖ اسی طرح سِکھ راج میں پنجابی، پہاڑی، پوٹھوہاری، کشمیری اور ڈوگری کے مابین رابطہ بھی اردو ہی کے توسط سے ہوا کرتا تھا۔ ’’پنجابی اور پہاڑی سے قدرے مماثلت، لہجہ، فرہنگ، ادائی اور احساس نے اردو کو ستائیس (27) سالہ سِکھ دور میں اپنا گِرویدہ بنالیا تھا ‘‘۔ (’’ریاست جمّوں وکشمیرمیں اردو زبان کی تاریخ وخدمات اور ریاستی شناخت کو لاحِق خطرات‘‘ از ڈاکٹر اَنیس الرشید ہاشمی وخواجہ زاہد عزیزمشمولہ اوریئنٹل کالج میگزین، شمارہ نمبر 373بابت 2024ء)۔ ریاست جمّوں میں اردو کے نفاذ کے موضوع کا ایک دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سلسلہ پنجاب سے سرکارِانگلشیہ کی ملازمت چھوڑ کر، جمّوں آنے والے ایک شخص بھاگ رائے نے محض بے خیالی میں 1888ء میں سرکاری دستاویزات میں اردو کا استعمال شروع کیا تھا، اللہ کی شان کہ وہاںہر طرف اردو ہی اردو ہوگئی۔

لطف کی بات ہے کہ جب فارسی کی جگہ اردو رائج ہونے لگی تو کچھ لوگوں نے دربارِ ریاستِ کشمیر کے خواص کے ذریعے سے یہ عرض گزاری کہ نسبتاً نوخیز زبان کو یہ اہم درجہ نہ دیا جائے، مگر کسی کی ایک نہ چلی اور ہماری پیاری زبان وہاں بھی رائج ہوکر رہی۔ اب ایک مرتبہ پھر وہی سوال کہ جب مدتوں پہلے اردو اسی برّعظیم کے ایک اہم حصے میں راج کرچکی ہے تو پھر ہمارا مقتدر طبقہ، پاکستان میں اردو کے نفاذ کی راہ میں کیوں روڑے اٹکا رہا ہے؟

اردو شاعری میں کشمیر کے مقامی شعراء کا حصہ بھی بھرپور رہا ہے۔ اس باب میں ابتدائی دور یعنی انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے اوائل تک شعراء کا غزل میں قدیم اور پھر نظم میں قدرے جدید اسلوب کی اتباع کرنا ایک اہم جہت ہے۔ اس دور کے اہم شعراء میں پنڈِت ہرگوپال خستہؔ، صادق علی خان، مرزا مبارک بیگ، مرزا سعد الدین سعد، راجا شیرعلی خان، تاراچند ترژل، کاشی ناتھ ترژل خوشترؔ، خاں صاحب منشی سراج الدین، خوشی محمد ناظرؔ، قمر قمرازی، ڈاکٹر عمادالدین سوزؔ، حبیب کیفوی، قیس شِروانی، وِشواناتھ درماہؔ، اللہ رکھا ساغرؔ، حمیدنظامی اور غلام حیدر چشتی شامل ہیں۔ ان شعراء کے کلام میں محمد حسین آزادؔ اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، موسم، وطن اور سماجی ناہمواری کے موضوعات نمایاں رہے۔

کشمیر میں اردو شاعری کے دوسرے دور میں (تقسیم ہند تک) نمایاں ہونے والے شعراء میں کشن لال حبیبؔ، ہدایت اللّہ فوقؔ، قیس ؔشِروانی، نرسنگھ داس نرگسؔ، عشرتؔ کاشمیری، اللّہ رکھّا ساغرؔ، کیفؔ اِسرائیلی، چراغ حسن حسرتؔ، دِینا ناتھ رفیقؔ، پروفیسر طالبؔ کشمیری، شہ زور کاشمیری، مرزا کمال الدین شیداؔ، مِیر غلام رسول نازکیؔ، دِینا ناتھ مستؔ، منوہرلال دِلؔ، میکشؔ کاشمیری، شوریدہ کاشمیری، رساؔ جاوِدانی،غ م طاؤس، تنہاؔ انصاری، کشن سمیل پوری، عبدالحق برقؔ، سیفیؔ سوپوری، عشرتؔکشتواڑی، اکبر ؔ جے پوری، غلام علی بلبلؔ، عرش ؔ صہبائی اور قیصر قلندرؔ شامل ہیں۔ خطہ ہند کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملنے لگا۔ نظم کا کینوس وسیع ہوا تو نظم گوئی کا رجحان بڑھ گیا۔

حُبِ وطن اور قوم پرستی کے موضوعات پر لکھنے والوں میں نندلال کول بے غرضؔ، نندلال کول طالبؔکشمیری، مستؔ اور کشنؔ سمیل پوری کے نام نمایاں ہوئے۔ نظم وغزل میں یکساں طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی رہی جن میں غلام رسول نازکیؔ، شہ زورؔ، رساؔ جاوِدانی، شوریدہ ؔکاشمیری، میکش کاشمیری، قیصر قلندر اور عرشؔ صہبائی نے خوب نام کمایا۔ ان میں اکثر کے مجموعہ ہائے کلام شایع ہوئے۔ ان میں غلام حسین تنہاؔ کا ’شبنمستان‘، نازکیؔ کا ’دیدہ ٔ تر‘، طالبؔ کا ’رشحاتِ قلم‘، قمر قمرازی کا ’ارمغانِ کشمیر‘، کشن سمیل پوری کا ’فردوسِ وطن‘، رساؔ جاوِدانی کا ’نیرنگِ غزل‘ اور ’نظم ِ ـثریّا‘، منوہرلال دِلؔ کا ’نقدِدل‘، دِینا ناتھ مستؔ کا ’سُنبل وریحان‘، نندلال کول بے غرضؔ کا ’ترانہ ٔبے غرض‘،غ م طاؤس کا ’موج موج‘ اور شیخ غلام علی بلبل کا ’خندہ گُل‘خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

اب ہم کچھ نمونہ ہائے کلام پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو بخوبی اندازہ ہوکہ کشمیر ی اردو شعراء کس طر ح اپنے عصری تقاضوں کے عین مطابق طبع آزمائی کرتے رہے ہیں:

کشمیر میں آمد ِ بہار: وِشواناتھ درماہؔ

گلشن ِ ہستی کا عارض کس لیے  ہے  لالہ فام

آج کیوں مہکا ہوا ہے باغِ جنت کا مشام

ہم کو فطرت دے رہی ہے آج کیوں بھر بھر کے جام

دیکھ ہمدم ! چشم ِباطن سے تُو عالَم کا نظام

ہے عروسِ دہر کے رُخ پر بہار آئی ہوئی

مُردَنی زالِ خَزاں کے چہرے پہ چھائی ہوئی

رنگِ تغزل: نند لال بے غرضؔ

نہیں سُنتا وہ ظالم بے غرضؔ ! شکوہ ہے لاحاصل

میں تنہا اِس طرف اور اُس طرف ساری خُدائی ہے

ہرچند کہ قدیم اسلوب ہے مگر داد طلب ہے۔یہاں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ شعر کہنے والا دلّی، لکھنؤ اور گردونواح کی بجائے ایک دُوراُفتادہ مقام کشمیر کا باسی ہے۔

غزل میں مقامی رنگ: قمرؔ قمرازی

وہ بے کس ہوںکہ ہنستا ہے زمانہ دیکھ کر مجھ کو

اثر لاتی ہے اپنی زردرُوئی زعفراں ہوکر

اس شعر میں بہ یک وقت صنعت ِ تضاد (گو پوشیدہ سہی) اور صنعت ِ حُسنِ تعلیل مزہ دے رہی ہے۔ زعفران کی علامت کا ایسا استعمال بھی شاذ ہی دیکھنے کو ملے گا۔

پنڈت تاراچند ترژل سالکؔ کی نظم ’گُلِ نرگس‘ سے اقتباس:

نرگس تجھے کس کی جستجو ہے

بیمار صفت جو زرد رُو ہے

یہاں زرد نرگس کے حُسن کی تعریف کی بجائے اُسے منفی رنگ میں پیش کرکے گویا موضوع میں انوکھی تبدیلی کی گئی کہ اُسے بیمار کے زرد چہرے سے ملادیا گیا۔ ایسے لطیف مگر معنیٰ خیز مضامین باندھنا بھی ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اب یہ شعر دیکھیے:

ہے کس کے فراق میں یہ حالت

ہے کون جو تجھ سے خوب رُو ہے

یہاں پھر نفی سے اثبات کی طرف رجوع کرتے ہوئے شاعر نے نرگس کو سب سے حسین قراردے دیا، مگر اِس کی وجہ بھی اس کا کسی کے فراق میں بیمار پڑنا اور زردرُو ہونا ٹھہرائی۔ آج کے دورمیں کوئی اچھے سے اچھا شاعر ایسا مضمون آفرین نہیں ہوسکتا۔

پنڈت نند لال کول طالبؔ کا نمونہ غزل:

مِری آنکھوں میں حُسنِ یار کی تصویر پنہاں تھی

تو میرے روکنے سے پاسباں کے ہاتھ کیا آتا

      (میرے روکنے سے: مجھے روکنے سے)

اسی شاعر کا نظمیہ کلام بھی ملاحظہ فرمائیں:

بہار میں شباب ہے

شباب انتخاب ہے

نظر کی آب وتاب ہے

کہ حُسن لاجواب ہے

عذاب ہے، ثواب ہے

سکون واِضطراب ہے

یہ عالَم ِ مجاز ہے

کہ زندگی کا راز ہے

                    (نظم: عالم مجاز)

رساؔ جاوِدانی کی غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:

تیری فرقت میں تجھ سے ملنے تک

تیرے پیغام کا سہارا ہے

اور پھر یہ شعر:

ہے غنیمت، اگر میّسر ہو

ایک لمحہ بھی شادمانی کا

کشن سمیل پوری کا شعر دیکھیے:

کہیں دیروکعبہ کے درمیان کوئی ایک حسین مقام  تھا

وہاں رقص تھا، وہاں جام تھا، وہاں جاکے ہم بھی ٹھہرگئے

منوہر لال دِل ؔکا ایک شعر:

تما م عمر رہا سامنا قیامت کا

غم ِحبیب کی خاطر، جہاں کے طفیل

غلام رسول نازکی ؔ اور شہ زور ؔ کاشمیری، تلمیذِ سیمابؔ اکبرآبادی کے کلام میں علامہ اقبال کی اتباع نمایاں ہے۔ علامہ سیمابؔ، علامہ اقبال کے ’استادبھائی‘ تھے کہ دونوں نے داغؔ دہلوی سے اصلاح لی، البتہ داغ ؔ نے اقبال ؔ کو ایک آدھ مرتبہ کے بعد مزید اِصلاح دینے سے انکار کردیا تھا جبکہ سیمابؔ کی وابستگی بہت گہری رہی اور اُن کے بے شمار تلامذہ میں کئی ایک استاد شاعر ہوئے۔ ضمنی بات یہ ہے کہ سیماب ؔ کے ایک شاگرد علامہ رمزی اِٹاوی کا ذکر ماقبل سلسلہ زباں فہمی میں آچکا ہے کہ وہ بھی طرزِاقبال میں شعر کہنے کے سبب ممتاز ہوئے۔ اُن کے پوتے جناب ایم آئی (مشتاق الاسلام) ظاہرؔ ہندوستان کے معروف صحافی اور شاعر ہیں اور خاکسار سے راہ ورسم بھی رکھتے ہیں۔

رومانی شاعر قیصر قلندرکا شعر ملاحظہ فرمائیں:

جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں

اِک حُسن سا شامل رہتا ہے پھر تنہا تنہا جینے میں

اثنائے تحقیق یہ دل چسپ انکشاف ہواکہ چنیوٹ کے ایک شاعر محمد صادق ضیاء چنیوٹوی بی۔اے ، علامہ سیمابؔ اکبر آبادی سے ایسا تعلق خاطر رکھتے تھے کہ انھوں نے علامہ کے معروف ومعتبر اَدبی جریدے ’شاعر‘ (آگرہ، بعد میں بمبئی) کا شمارہ بعنوان ’کارِ امروزنمبر‘، بابت جولائی 1935ء مرتب کیا تھا۔ ’کارِ اِمروز‘ علامہ سیمابؔ کے مجموعہ منظومات کا نام ہے جس کے متعلق نگارشات اس شمارے میں جمع کی گئیں۔ صادق ضیاء نے اس شمارے کا اداریہ اور بعض دیگر مضامین بھی تحریر کیے۔ اُن کی زبان بالکل اہل ِزبان کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے کشمیر، غالبؔ اور آغا حشر کاشمیری سمیت متعددومتنوع موضوعات پر خوب طبع آزمائی کی۔یہاں نمونہ کلام پیش خدمت ہے:

            نظم : آغا حشرکاشمیری

بزم عالم میں وہ کیفیات ِ رنگ و بُو نہیں

رونق ِ ایوان ِ گیتی آج شاید تُو نہیں

آہ کیا تُو پُرسُکوں ہے قبر کی آغوش میں

چین کیوں کر آگیا اِس محشرِخاموش میں

سرمدی نغمات سے اب دل کو تڑپائے گا کون

اب سِتارے آسماں سے توڑ کر لائے گا کون

مجلسی لعنت پر اَ ب تنقید فرمائے گا کون

اور اِسے رنگین پیرائے میں سمجھائے گا کون

آہ اب کس سے سُنیں گے آتشیں نغمات ہم

آہ اب کس سے کہیں گے اپنے احساسات ہم

ہند کی دوشیزہ دیوی کو دیا سادہ لباس

تیرے ہی پُرکیف نغموں نے بجھائی دل کی پیاس

مغربی تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا ہرجَواں

مشرقی اطوار سے بیزار تھا ہندوستاں

تُو نے اپنے دل کی چنگاری سے بھڑکائی وہ آگ

نغمہ مشرق سے دب کر رہ گیا مغرب کا راگ

ساز تیرا آتشیں، آواز طوفانی تِری

حشر تک یاد آئے گی وہ حشرسامانی تِری

4  اپریل 1879ء کو پیدا ہونے والے آغا حشر کا انتقال28 اپریل1935ء کو ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ غالباً اُن کی وفات کے فوری بعد یہ نظم کہی گئی ہوگی۔ مقام حیرت ہے کہ اتنے اہم شاعر کا تذکرہ، ڈاکٹر حامدی کاشمیری سے چھُوٹ گیا۔

جمّوں وکشمیر میں اردو شاعری کا تیسرا دور1955ء کے بعد شروع ہوا۔ اس دور کے نمایاں شعراء میں ڈاکٹرحامدی کاشمیری، حکیم منظور، خالد بشیر، رفیق رازؔ، اقبال فہیم، مسعود سامون، منیب الرحمٰن، اشرف ساحلؔ، شہباز راجوروی، مظفر اِیرج، شجاع سلطان، فاروق مضطرؔ، محمد یٰسین، پرتپال سنگھ بیتابؔ، فاروق آفاقؔ، رخسانہ جبیں، احمد شناس، رفیق ہمرازؔ اور جاوید آزر شامل ہیں۔ (جاری)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سمیل پوری جاو دانی نے والے ی ہے نہ گا کون

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
  • وفاقی تعلیمی بورڈ نے غیر ملکی اردو انٹرنیشنل طلبہ کے امتحانات کا شیڈول جاری کر دیا
  • وفاقی تعلیمی بورڈ اسلام آباد نے اردو انٹرنیشنل امتحان کا شیڈول جاری کر دیا
  • آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہو گیا
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • زباں فہمی267 ; عربی اسمائے معرفہ اور ہمارے ذرایع ابلاغ
  • نادرونایاب تاریخ اردو نثر’’سیر المصنفین‘‘ اربابِ ذوق ِحصول کیلئے منظرعام پر
  • کشمیر:بے اختیار عوامی حکومت کے ایک سال
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر