زباں فہمی نمبر247کشمیر اور اُردو (حصہ سوم)
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ہرچند کہ راقم، موضوع کے پس منظر میں شامل، عربی وفارسی کے نشانات کی طرف بہت خفیف اشارہ کرکے بات آگے بڑھاچکا تھا، بہرحال جمّوں وکشمیر کی تاریخ کے اس زرّیں باب کے متعلق مزید معلومات برسبیل تذکرہ بہم پہنچانے میں حرج نہیں۔ کشمیر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے مسلمانوں میں ایک نام حمیم بن سامہ شامی کا ہے جو بہ اختلافِ روایت محمد بن قاسم کے لشکر کے اُن مجاہدین میں شامل تھا جو راجہ داہر کے بیٹوں کے تعاقب میں وادی تک جاپہنچے ۔
یا۔راجگانِ کشمیر کا کوئی ملاز م تھا۔ فاتح سندھ کے لشکر میں ایرانیوں خصوصاً شیرازیوں کی اچھی خاصی تعداد شامل تھی، یوں عربی وفارسی جیسی بڑی اسلامی زبانوں نے پہلی صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی ہی میں اس وادی میں قدم جمالیے تھے۔
اردو شاعری میں اوّلیت کے دعوے دار یا اُن کے متعلق دعاوی (دعویٰ کی جمع) کا ذکر سلسلہ زباں فہمی میں ہوتا رہتا ہے۔ شمالی ہند میں ولیؔ گجراتی دکنی کی آمد سے بھی قبل ، اردو غزل کہنے کا شرف ایک کشمیری برہمن پنڈِت چندربھان برہمنؔ لاہوری الملقب بہ ’رائے‘ (مغل بادشاہ شاہ جہاں، شہزادہ داراشِکوہ اور بادشاہ اورنگزیب کے خاص مصاحب) کو حاصل ہوا تھا جس کی فارسی دانی وفارسی غزل گوئی کے ساتھ ساتھ یہ اردو غزل بھی داد طلب ہے (جنوب میں بہمن شاہی شاعر بادشاہوں اور ماقبل بابافرید۔ یا ۔اُن سے بھی قبل کا تذکرہ اس سے ہٹ کر ہے):
خُدا نے کس شہر اَندر ہَمَن کو لائے ڈالا ہے
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
پیا کے ناؤں (نام) کی سمرن کیا چاہوں کروں کیسے
نہ تسبی (تسبیح) ہے نہ سمرن ہے نہ کنٹھی ہے نہ مالا ہے
خُباں (خوباں) کی باغ میں رونق ہوئے تو کس طرح یاراں
نہ رونا ہے نہ مَروا (مروہ: پودہ) ہے نہ سوسن ہے نہ لالا ہے
پیا کے ناؤں عاشق قتل کوں (کو) باعجب دیکھے ہوں (دیکھ چکا ہوں)
نہ برچھی ہے نہ کرچھی (کرچھا) ہے نہ خنجر ہے نہ بھالا ہے
برہمن ؔ واسطے اشنان کے پھِرتا ہے بگیا (باغ) میں
نہ گنگا ہے نہ جمنا ہے نہ ندّی ہے نہ نالا ہے
(منقول: پنجاب کے قدیم اردوشعراء از خورشید احمد خان یوسفی، ناشر: مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد: 1992)
پنڈِت موصوف نے مسلمان علماء سے دینی تعلیم حاصل کی۔ وہ علامہ عبدالحکیم سیال کوٹی کے شاگرد تھے۔ شاہ جہاں نے چندربھان کو اپنا وقایع نویسِ حضوری مقرر کرکے اپنے سیروسفر کا روزنامچہ مرتب کرنے کی ذمے داری سونپی تھی۔ وہ بادشاہ کے عطا کردہ خصوصی ہاتھی پر سوار ہوکر، بادشاہ کے جلوس میں شامل ہوکر نکلتا تھا۔ اُسے 9 اپریل 1556ء کو بادشاہ نے ’رائے‘ کا لقب عطا کیا۔ شہزادہ داراشِکوہ نے اُسے اپنی مصاحبت کے لیے والد سے مانگ لیا تو وہ شہزادے کی ملازمت میں رہا، پھر شہزادے کے قتل کے بعد، بادشاہ اورنگزیب کا ملازم ہوگیا اور بادشاہ کی تخت نشینی (1658ء) کے چھے (بلکہ سات) سال بعد، 1075ھ مطابق 1665ء میں فوت ہوا۔
یہ بیان ہے محقق محمد عبداللّہ قریشی، مدیر ’ادبی دنیا‘، لاہور کا جو اُن کے مقالے ’کشمیر کی فارسی شاعری‘ (مشمولہ ’’ایرانِ کبیر واِیرانِ صغیر‘‘، ناشر: جشنِ ایران کمیٹی، آزاد کشمیر، مظفرآباد ۔آزاد کشمیر:1971ء) میں شامل ہے جبکہ خورشید یوسفی نے نمعلوم کس حوالے سے پنڈت چندربھان کا سن ِ وفات 1073ھ (مطابق:1663ء) لکھا ہے جو بظاہر غلط ہی لگتا ہے۔
اردو کے خطہ کشمیر میں اثرونفوذ کے باب میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ زبان، وادی پر حکومت کرنے والے1753)ء تا 1819ء)
افغان حکمرانوں اور کشمیری عوام کے مابین اُس وقت بھی رابطے کا کام کرتی تھی جب ریاست کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ بعینہٖ اسی طرح سِکھ راج میں پنجابی، پہاڑی، پوٹھوہاری، کشمیری اور ڈوگری کے مابین رابطہ بھی اردو ہی کے توسط سے ہوا کرتا تھا۔ ’’پنجابی اور پہاڑی سے قدرے مماثلت، لہجہ، فرہنگ، ادائی اور احساس نے اردو کو ستائیس (27) سالہ سِکھ دور میں اپنا گِرویدہ بنالیا تھا ‘‘۔ (’’ریاست جمّوں وکشمیرمیں اردو زبان کی تاریخ وخدمات اور ریاستی شناخت کو لاحِق خطرات‘‘ از ڈاکٹر اَنیس الرشید ہاشمی وخواجہ زاہد عزیزمشمولہ اوریئنٹل کالج میگزین، شمارہ نمبر 373بابت 2024ء)۔ ریاست جمّوں میں اردو کے نفاذ کے موضوع کا ایک دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سلسلہ پنجاب سے سرکارِانگلشیہ کی ملازمت چھوڑ کر، جمّوں آنے والے ایک شخص بھاگ رائے نے محض بے خیالی میں 1888ء میں سرکاری دستاویزات میں اردو کا استعمال شروع کیا تھا، اللہ کی شان کہ وہاںہر طرف اردو ہی اردو ہوگئی۔
لطف کی بات ہے کہ جب فارسی کی جگہ اردو رائج ہونے لگی تو کچھ لوگوں نے دربارِ ریاستِ کشمیر کے خواص کے ذریعے سے یہ عرض گزاری کہ نسبتاً نوخیز زبان کو یہ اہم درجہ نہ دیا جائے، مگر کسی کی ایک نہ چلی اور ہماری پیاری زبان وہاں بھی رائج ہوکر رہی۔ اب ایک مرتبہ پھر وہی سوال کہ جب مدتوں پہلے اردو اسی برّعظیم کے ایک اہم حصے میں راج کرچکی ہے تو پھر ہمارا مقتدر طبقہ، پاکستان میں اردو کے نفاذ کی راہ میں کیوں روڑے اٹکا رہا ہے؟
اردو شاعری میں کشمیر کے مقامی شعراء کا حصہ بھی بھرپور رہا ہے۔ اس باب میں ابتدائی دور یعنی انیسویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کے اوائل تک شعراء کا غزل میں قدیم اور پھر نظم میں قدرے جدید اسلوب کی اتباع کرنا ایک اہم جہت ہے۔ اس دور کے اہم شعراء میں پنڈِت ہرگوپال خستہؔ، صادق علی خان، مرزا مبارک بیگ، مرزا سعد الدین سعد، راجا شیرعلی خان، تاراچند ترژل، کاشی ناتھ ترژل خوشترؔ، خاں صاحب منشی سراج الدین، خوشی محمد ناظرؔ، قمر قمرازی، ڈاکٹر عمادالدین سوزؔ، حبیب کیفوی، قیس شِروانی، وِشواناتھ درماہؔ، اللہ رکھا ساغرؔ، حمیدنظامی اور غلام حیدر چشتی شامل ہیں۔ ان شعراء کے کلام میں محمد حسین آزادؔ اور خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، موسم، وطن اور سماجی ناہمواری کے موضوعات نمایاں رہے۔
کشمیر میں اردو شاعری کے دوسرے دور میں (تقسیم ہند تک) نمایاں ہونے والے شعراء میں کشن لال حبیبؔ، ہدایت اللّہ فوقؔ، قیس ؔشِروانی، نرسنگھ داس نرگسؔ، عشرتؔ کاشمیری، اللّہ رکھّا ساغرؔ، کیفؔ اِسرائیلی، چراغ حسن حسرتؔ، دِینا ناتھ رفیقؔ، پروفیسر طالبؔ کشمیری، شہ زور کاشمیری، مرزا کمال الدین شیداؔ، مِیر غلام رسول نازکیؔ، دِینا ناتھ مستؔ، منوہرلال دِلؔ، میکشؔ کاشمیری، شوریدہ کاشمیری، رساؔ جاوِدانی،غ م طاؤس، تنہاؔ انصاری، کشن سمیل پوری، عبدالحق برقؔ، سیفیؔ سوپوری، عشرتؔکشتواڑی، اکبر ؔ جے پوری، غلام علی بلبلؔ، عرش ؔ صہبائی اور قیصر قلندرؔ شامل ہیں۔ خطہ ہند کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی موضوعات کا تنوع دیکھنے کو ملنے لگا۔ نظم کا کینوس وسیع ہوا تو نظم گوئی کا رجحان بڑھ گیا۔
حُبِ وطن اور قوم پرستی کے موضوعات پر لکھنے والوں میں نندلال کول بے غرضؔ، نندلال کول طالبؔکشمیری، مستؔ اور کشنؔ سمیل پوری کے نام نمایاں ہوئے۔ نظم وغزل میں یکساں طبع آزمائی کرنے والوں کی تعداد بھی اچھی خاصی رہی جن میں غلام رسول نازکیؔ، شہ زورؔ، رساؔ جاوِدانی، شوریدہ ؔکاشمیری، میکش کاشمیری، قیصر قلندر اور عرشؔ صہبائی نے خوب نام کمایا۔ ان میں اکثر کے مجموعہ ہائے کلام شایع ہوئے۔ ان میں غلام حسین تنہاؔ کا ’شبنمستان‘، نازکیؔ کا ’دیدہ ٔ تر‘، طالبؔ کا ’رشحاتِ قلم‘، قمر قمرازی کا ’ارمغانِ کشمیر‘، کشن سمیل پوری کا ’فردوسِ وطن‘، رساؔ جاوِدانی کا ’نیرنگِ غزل‘ اور ’نظم ِ ـثریّا‘، منوہرلال دِلؔ کا ’نقدِدل‘، دِینا ناتھ مستؔ کا ’سُنبل وریحان‘، نندلال کول بے غرضؔ کا ’ترانہ ٔبے غرض‘،غ م طاؤس کا ’موج موج‘ اور شیخ غلام علی بلبل کا ’خندہ گُل‘خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اب ہم کچھ نمونہ ہائے کلام پیش کرتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو بخوبی اندازہ ہوکہ کشمیر ی اردو شعراء کس طر ح اپنے عصری تقاضوں کے عین مطابق طبع آزمائی کرتے رہے ہیں:
کشمیر میں آمد ِ بہار: وِشواناتھ درماہؔ
گلشن ِ ہستی کا عارض کس لیے ہے لالہ فام
آج کیوں مہکا ہوا ہے باغِ جنت کا مشام
ہم کو فطرت دے رہی ہے آج کیوں بھر بھر کے جام
دیکھ ہمدم ! چشم ِباطن سے تُو عالَم کا نظام
ہے عروسِ دہر کے رُخ پر بہار آئی ہوئی
مُردَنی زالِ خَزاں کے چہرے پہ چھائی ہوئی
رنگِ تغزل: نند لال بے غرضؔ
نہیں سُنتا وہ ظالم بے غرضؔ ! شکوہ ہے لاحاصل
میں تنہا اِس طرف اور اُس طرف ساری خُدائی ہے
ہرچند کہ قدیم اسلوب ہے مگر داد طلب ہے۔یہاں کون کہہ سکتا ہے کہ یہ شعر کہنے والا دلّی، لکھنؤ اور گردونواح کی بجائے ایک دُوراُفتادہ مقام کشمیر کا باسی ہے۔
غزل میں مقامی رنگ: قمرؔ قمرازی
وہ بے کس ہوںکہ ہنستا ہے زمانہ دیکھ کر مجھ کو
اثر لاتی ہے اپنی زردرُوئی زعفراں ہوکر
اس شعر میں بہ یک وقت صنعت ِ تضاد (گو پوشیدہ سہی) اور صنعت ِ حُسنِ تعلیل مزہ دے رہی ہے۔ زعفران کی علامت کا ایسا استعمال بھی شاذ ہی دیکھنے کو ملے گا۔
پنڈت تاراچند ترژل سالکؔ کی نظم ’گُلِ نرگس‘ سے اقتباس:
نرگس تجھے کس کی جستجو ہے
بیمار صفت جو زرد رُو ہے
یہاں زرد نرگس کے حُسن کی تعریف کی بجائے اُسے منفی رنگ میں پیش کرکے گویا موضوع میں انوکھی تبدیلی کی گئی کہ اُسے بیمار کے زرد چہرے سے ملادیا گیا۔ ایسے لطیف مگر معنیٰ خیز مضامین باندھنا بھی ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اب یہ شعر دیکھیے:
ہے کس کے فراق میں یہ حالت
ہے کون جو تجھ سے خوب رُو ہے
یہاں پھر نفی سے اثبات کی طرف رجوع کرتے ہوئے شاعر نے نرگس کو سب سے حسین قراردے دیا، مگر اِس کی وجہ بھی اس کا کسی کے فراق میں بیمار پڑنا اور زردرُو ہونا ٹھہرائی۔ آج کے دورمیں کوئی اچھے سے اچھا شاعر ایسا مضمون آفرین نہیں ہوسکتا۔
پنڈت نند لال کول طالبؔ کا نمونہ غزل:
مِری آنکھوں میں حُسنِ یار کی تصویر پنہاں تھی
تو میرے روکنے سے پاسباں کے ہاتھ کیا آتا
(میرے روکنے سے: مجھے روکنے سے)
اسی شاعر کا نظمیہ کلام بھی ملاحظہ فرمائیں:
بہار میں شباب ہے
شباب انتخاب ہے
نظر کی آب وتاب ہے
کہ حُسن لاجواب ہے
عذاب ہے، ثواب ہے
سکون واِضطراب ہے
یہ عالَم ِ مجاز ہے
کہ زندگی کا راز ہے
(نظم: عالم مجاز)
رساؔ جاوِدانی کی غزل کے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
تیری فرقت میں تجھ سے ملنے تک
تیرے پیغام کا سہارا ہے
اور پھر یہ شعر:
ہے غنیمت، اگر میّسر ہو
ایک لمحہ بھی شادمانی کا
کشن سمیل پوری کا شعر دیکھیے:
کہیں دیروکعبہ کے درمیان کوئی ایک حسین مقام تھا
وہاں رقص تھا، وہاں جام تھا، وہاں جاکے ہم بھی ٹھہرگئے
منوہر لال دِل ؔکا ایک شعر:
تما م عمر رہا سامنا قیامت کا
غم ِحبیب کی خاطر، جہاں کے طفیل
غلام رسول نازکی ؔ اور شہ زور ؔ کاشمیری، تلمیذِ سیمابؔ اکبرآبادی کے کلام میں علامہ اقبال کی اتباع نمایاں ہے۔ علامہ سیمابؔ، علامہ اقبال کے ’استادبھائی‘ تھے کہ دونوں نے داغؔ دہلوی سے اصلاح لی، البتہ داغ ؔ نے اقبال ؔ کو ایک آدھ مرتبہ کے بعد مزید اِصلاح دینے سے انکار کردیا تھا جبکہ سیمابؔ کی وابستگی بہت گہری رہی اور اُن کے بے شمار تلامذہ میں کئی ایک استاد شاعر ہوئے۔ ضمنی بات یہ ہے کہ سیماب ؔ کے ایک شاگرد علامہ رمزی اِٹاوی کا ذکر ماقبل سلسلہ زباں فہمی میں آچکا ہے کہ وہ بھی طرزِاقبال میں شعر کہنے کے سبب ممتاز ہوئے۔ اُن کے پوتے جناب ایم آئی (مشتاق الاسلام) ظاہرؔ ہندوستان کے معروف صحافی اور شاعر ہیں اور خاکسار سے راہ ورسم بھی رکھتے ہیں۔
رومانی شاعر قیصر قلندرکا شعر ملاحظہ فرمائیں:
جب درد کی شمعیں جلتی ہیں احساس کے نازک سینے میں
اِک حُسن سا شامل رہتا ہے پھر تنہا تنہا جینے میں
اثنائے تحقیق یہ دل چسپ انکشاف ہواکہ چنیوٹ کے ایک شاعر محمد صادق ضیاء چنیوٹوی بی۔اے ، علامہ سیمابؔ اکبر آبادی سے ایسا تعلق خاطر رکھتے تھے کہ انھوں نے علامہ کے معروف ومعتبر اَدبی جریدے ’شاعر‘ (آگرہ، بعد میں بمبئی) کا شمارہ بعنوان ’کارِ امروزنمبر‘، بابت جولائی 1935ء مرتب کیا تھا۔ ’کارِ اِمروز‘ علامہ سیمابؔ کے مجموعہ منظومات کا نام ہے جس کے متعلق نگارشات اس شمارے میں جمع کی گئیں۔ صادق ضیاء نے اس شمارے کا اداریہ اور بعض دیگر مضامین بھی تحریر کیے۔ اُن کی زبان بالکل اہل ِزبان کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ انھوں نے کشمیر، غالبؔ اور آغا حشر کاشمیری سمیت متعددومتنوع موضوعات پر خوب طبع آزمائی کی۔یہاں نمونہ کلام پیش خدمت ہے:
نظم : آغا حشرکاشمیری
بزم عالم میں وہ کیفیات ِ رنگ و بُو نہیں
رونق ِ ایوان ِ گیتی آج شاید تُو نہیں
آہ کیا تُو پُرسُکوں ہے قبر کی آغوش میں
چین کیوں کر آگیا اِس محشرِخاموش میں
سرمدی نغمات سے اب دل کو تڑپائے گا کون
اب سِتارے آسماں سے توڑ کر لائے گا کون
مجلسی لعنت پر اَ ب تنقید فرمائے گا کون
اور اِسے رنگین پیرائے میں سمجھائے گا کون
آہ اب کس سے سُنیں گے آتشیں نغمات ہم
آہ اب کس سے کہیں گے اپنے احساسات ہم
ہند کی دوشیزہ دیوی کو دیا سادہ لباس
تیرے ہی پُرکیف نغموں نے بجھائی دل کی پیاس
مغربی تہذیب میں ڈوبا ہوا تھا ہرجَواں
مشرقی اطوار سے بیزار تھا ہندوستاں
تُو نے اپنے دل کی چنگاری سے بھڑکائی وہ آگ
نغمہ مشرق سے دب کر رہ گیا مغرب کا راگ
ساز تیرا آتشیں، آواز طوفانی تِری
حشر تک یاد آئے گی وہ حشرسامانی تِری
4 اپریل 1879ء کو پیدا ہونے والے آغا حشر کا انتقال28 اپریل1935ء کو ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا کہ غالباً اُن کی وفات کے فوری بعد یہ نظم کہی گئی ہوگی۔ مقام حیرت ہے کہ اتنے اہم شاعر کا تذکرہ، ڈاکٹر حامدی کاشمیری سے چھُوٹ گیا۔
جمّوں وکشمیر میں اردو شاعری کا تیسرا دور1955ء کے بعد شروع ہوا۔ اس دور کے نمایاں شعراء میں ڈاکٹرحامدی کاشمیری، حکیم منظور، خالد بشیر، رفیق رازؔ، اقبال فہیم، مسعود سامون، منیب الرحمٰن، اشرف ساحلؔ، شہباز راجوروی، مظفر اِیرج، شجاع سلطان، فاروق مضطرؔ، محمد یٰسین، پرتپال سنگھ بیتابؔ، فاروق آفاقؔ، رخسانہ جبیں، احمد شناس، رفیق ہمرازؔ اور جاوید آزر شامل ہیں۔ (جاری)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سمیل پوری جاو دانی نے والے ی ہے نہ گا کون
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا ٹرک کھائی میں جاگرا، 3 فوجی ہلاک
سری نگر: مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع رامبن میں بھارتی فوج کا ٹرک سڑک سے پھسل کر گہری کھائی میں گرنے سے 3 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔
بھارتی فوج کا ٹرک جموں سے سری نگر جارہا تھا جو بیٹری چشمہ کے قریب 600 فٹ گہری کھائی میں جاگرا۔
حکام کے مطابق واقعے کے فوراً بعد ریسکیو ٹیموں کو جائے وقوعہ پر روانہ کیا گیا، تاہم جب تک ٹیمیں کھائی کے نچلے حصے تک پہنچیں، تینوں فوجی اہلکار دم توڑ چکے تھے۔
ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی شناخت امیت کمار، سوجیت کمار، اور مان بہادر کے ناموں سے ہوئی ہے۔