Express News:
2025-08-03@00:25:57 GMT

اخبارات اور سوشل میڈیا

اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT

 وسیع و عریض سر سبز و شاداب رقبے پر پھیلے ہوئے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزارکے عقب میں صدرکی جانب جانیوالی کشادہ سڑک کے کنارے علی الصبح بیٹھے ہوئے ایک بزرگ مایوسی کے عالم میں اپنی بہت پرانی سائیکل کے کیریئر پرکچھ اخبارات فروخت کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

کچھ ماہ قبل یہ بزرگ سبک رفتاری کے ساتھ مزار سے صدر تک جایا کرتے تھے، قوت جسمانی کی کمی نے ان کو بجائے سائیکلنگ کرنے کے فٹ پاتھ پر بیٹھنے پر مجبورکردیا اور نہ جانے شہر میں اور بھی ایسے کتنے لوگ موجود ہوں۔ ان کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عرصہ دراز سے اخبارات کی ترسیل و تقسیم کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ ان کی خود داری کی کیفیت یہ ہے کہ اخبارکی قیمت سے ایک روپیہ بھی زیادہ نہیں مانگتے اور نہ ہی اپنی غریبی کا رونا روتے ہیں۔

یہ ہیں وہ سفید پوش لوگ جو لوگوں کی امداد کے صحیح معنوں میں مستحق ہیں۔ ان کی امداد کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے جس سے ان کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ کوئی خیرات وصول کر رہے ہیں۔ ہاں اگر کوئی اخبار کی قیمت سے زیادہ پیسے دے جائے تو وہ اسے خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ پرنٹ میڈیا اور اخباری صحافت کی شان ہیں۔ راقم کا روزانہ وہاں سے گزر ہوتا ہے تو رک کر ان سے اخبار خرید لیتا ہے۔

راقم نہ صرف اخبار اضافی قیمت پر خریدتا ہے بلکہ کچھ دیر وہیں کھڑا ہو کر اخبار کی شہ سرخیوں کا مطالعہ کرتا ہے تاکہ آنے جانے والوں کو ماضی کی یاد آسکے۔ کہتے ہیں جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے۔ راقم نے محسوس کیا کہ کسی حد تک کچھ راہگیر رک کر ان سے اخبار بھی خریدنے پر آمادہ ہوئے ہیں۔

حقیقت ہے کہ ایسے ہی لوگوں نے کسی نہ کسی انداز سے اس کاغذی صنعت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر اخبارات قومی زبان اردو میں اشاعت پذیر ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کی کثیر تعداد اردو شناس ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے لوگوں میں اخبارات کا مطالعہ معدوم ہو چکا ہے یہی وجہ کہ لوگ رفتہ رفتہ اردو شناخت اور اردو نویسی سے ناواقف ہو تے جا رہے ہیں۔ ہمارے بزرگوں کی علی الصبح بستر چھوڑ دینے کی عادت تھی ۔ وضو کر کے فجر کی نماز کی ادائیگی کی اورگھر میں آئے ہوئے اخبار کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ یعنی اخبار کا مطالعہ ان کے ناشتے میں شامل ہوا کرتا تھا۔

ان میں بہت سے ایسے نوجوان ہاکرز بھی شامل تھے جو اس کام کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی درجے میں تعلیم بھی حاصل کر رہے ہوتے تھے اور اب یہی نوجوان فوڈ انڈسٹری میں بطور آن لائن رائیڈرکام کرنے پر مجبور ہیں۔ حالات اس قدر تیزی سے بدل چکی ہیں کہ موجودہ نسل اپنی قومی زبان اردو سے نا آشنا ہو کر انگریزی نواز بن چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے ہمارے بزرگوں کی روش کو ترک کردیا اور اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اب اردو دانوں کا قحط پڑ چکا ہے۔

انسان معاشرتی حیوان ہے، وقت کے بدلنے کے ساتھ اس کے رہن سہن کی روایات میں تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ یہاں ہمارا تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ انسانی طرز عمل کی یہی روش تبدیلی کی متقاضی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی انسان کی معاشرتی ہیت میں انقلاب لائی ہے۔ جدید دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جس نے انسانوں کے روزمرہ استعمال کی آلات کو انٹرنیٹ میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ ان سب تبدیلیوں کے باوجود پرنٹ میڈیا،کتب خانے اورکتابوں کا مطالعہ ایسی حقیقت ہے جس کو کسی بھی قیمت پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جہاں انٹرنیٹ اور موبائل نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثرکیا ہے وہاں اخباری صنعت سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار ہوئی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس صنعت میں کام کرنے والے ورکرز بے روز گار ہو چکے ہیں۔ شہر میں اخبارات فروشی کے اسٹال اور ہاکرز ناپید ہو چکے ہیں۔

اخبارات و رسائل کے ختم ہونے کے علاوہ لوگوں میں کتب بینی کے فقدان کا گراف بھی زوال پذیری کی طرف گامزن ہوا ہے جب کہ کتاب انسان کی بہترین دوست اور تنہائی کی ساتھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ انسان کیسا ہی غمگین ہو، کیسا ہی افسردہ ہو، اگر وہ کتاب ہاتھ میں اٹھا لے اور اس کا بغور مطالعہ کرنے لگے تو یقین جانیے تو اس کا سارا غم ، افسردگی اور پریشانی دور ہو جاتی ہے۔ ادھر جان ملٹن بھی کتاب کے مطالعے کے بارے میں دقیق دلیل دے گیا۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ اچھی کتاب انسان کے لیے زندگی کا بہترین سرمایہ ہے ۔‘‘ اسی لیے کسی شاعر نے بھی خوب کہا ہے ۔

سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر 
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر

اس لیے کوئی اچھی اور دلچسپ اور معلوماتی کتاب آپ کی دیدنی کی نظر ہو اس کی قیمت دیکھے بغیر اسے خرید لیں۔ اسی لیے رسکن بھی کہہ گیا کہ ’’ اگرکوئی کتا ب پڑھنے کے لائق ہے تو وہ خریدنے کے بھی لائق ہے۔‘‘ بقول البیرونی ’’خیالات کی جنگ میں کتابیں ہتھیارکا کا م دیتی ہیں۔‘‘ اچھے مطالعے کے لیے کتب خانوں جس کو ہم فرنگیانہ زبان میں ’’ لائبریری‘‘ کہتے ہیں، جب بھی موقع ملے ضرور رخ کرنا چاہیے کیونکہ کتب خانے ہمارے معاشرے میں ایک نعمت ہیں اور ان کی تعلیمی اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہوتی ہے مگر نہایت افسردگی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اکثرکتب خانوں میں ویرانی اپنے پنجے گاڑ چکی ہے.

مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اشتہارات میں کمی کی وجہ سے بھی کچھ اخبارات کی اشاعت بند ہو چکی ہے اور جو ہیں ان میں صفحات کی تعداد اور سائز میں رد و بدل کیا گیا ہے۔ اشتہارات کے حصول میں کمی کی دوسری وجہ ملک میں نئی پیداواری صنعتی یونٹس کے قیام کا فقدان ہے۔ بہرحال دستاویزی اہمیت اپنی جگہ مسلم ضرور ہے۔ ملک کے اردو بازاروں میں وہ رش دیکھنے کو نہیں ملتا جو کسی زمانہ میں ملا کرتا تھا۔ پرنٹنگ کی اس دنیا سے وابستہ پبلشرز نے اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

دوسری جانب اس خلا کو پرکرنے کچھ کتاب شناس لوگ کتب میلوں کا انعقاد کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ لوگوں میں کتاب خریدنے کا شوق دوبارہ بحال ہو سکے۔ ہمارے لوگوں کی نفسیات ہے کہ کتابوں ، رسائل و جرائد اور اخبارات خریدنے سے گریزکریں گے اور کھانے پینے پر پیسہ بے دریغ خرچ کریں گے۔ اسی لیے ملک میں سب سے زیادہ منافع بخش فوڈ انڈسٹری کا رواج ہو چکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم صرف کھانے کے لیے زندہ ہے۔

انٹرنیٹ کی ایجاد نے انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو یکسر بد ل کر رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر اینڈرائیڈ موبائل نے پوری کردی جس سے ہر شخص کے ہاتھ میں پوری دنیا آگئی ہے۔ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں اینڈرائیڈ موبائل کا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ ہر چیز آن لائن ہو چکی ہے۔ فیس بک، واٹس اپ اور گوگل کی ایجاد حیرت انگیز ہے۔ ادھر سوشل میڈیا نے دنیاکو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی گوشت خور قوم میں کھانے پینے کا رجحان تیزی سے بڑھا ہے ۔ نت نئے انگلش، چائنئز، فاسٹ فوڈ ، بار بی کیو، بار بی کیو نائٹ اور پیزا وغیرہ کا کاروبار مختلف رعایتی ڈیل کے ساتھ اپنے عروج پر ہے۔

اسی کاروباری اور بازاری بسیار خوری کا رجحان کے اضافے سے خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں علمی مواد پر مبنی اردو بازار فوڈ اسٹریٹ میں تبدیل نہ ہو جائیں۔ ہمارے لوگوں کی بسیار خوری کا واضح مثال اسلام آباد میں ریستورانوں پرگدھے کے گوشت لوگوں کو کھلا ئے جا رہے ہیں۔ بقول سابقہ چیئرمین ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو سید شبر زیدی کے ہر انسان کو بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد کم از کم تین گھنٹے تفریح کے لیے چاہیے۔ پاکستان میں تفریح صرف یہ ہے کہ ہوٹل یا کسی بار بی کیو جائیں اور بہت سارا گوشت یا چکن کھا کر گھر آ جائیں۔

انھوں نے خاتون میزبان سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ کھانے کے علاوہ کوئی تفریح ہے۔ اس شہر کراچی میں لوگوں کے لیے کیا تفریح ہے، کوئی ڈرامہ ، سنیما ، کوئی ریکریشن پارک، کوئی آرٹ، کوئی نمائش ہوتی ہے۔ اس شہر میں سوائے کھانے کے۔ اسپورٹس اور اسپورٹس اسٹیڈیم آپ نے ختم کر دیے۔ آپ نے ہر وہ چیز ختم کردی جس میں تھوڑی بہت انسان کو صحت افزا تفریح میسر آ جایا کرتی تھی۔

ہمیں یاد ہے کہ ضرورت مند علم کے متلاشی طلبا علی الصبح گھروں میں اخبارات و رسائل ڈال کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر لیے کرتے تھے، مگر اب شاید ان طلبہ کا واحد سہارا بطور فوڈ رائیڈرکی ملازمت ہو جس میں تھوڑا بہت کمیشن ملنے کا آسرا بھی ہو۔ ہم اس دورکے لو گ ہیں جب نہ 4G  نہ 3G ہوتے تھے، استاد Gاور ابا G ہوتے تھے ایک ہی تھپڑمیں نیٹ ورک آ جایا کرتا تھا۔ 
 

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

شاہد آفریدی کا’’لائن کنگ اسٹائل‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل، بھارتیوں کو آگ لگ گئی

کراچی:

ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز 2025 میں پاکستان سے سیمی فائنل کھیلنے سے انکار کے بعد بھارتی ٹیم کے میدان سے فرار کے وقت شاہد آفریدی کا انداز توجہ کا مرکز بن گیا۔

ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈز میں بھارت اپنی روایتی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیمی فائنل کھیلنے سے انکار کرکے گراؤنڈ سے بھاگ گیا اور شاہد آفریدی شان سے بالکونی میں کھڑے یہ نظارہ دیکھاتے رہے۔

پاکستان ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کی ایک تصویر اس وقت سوشل میڈیا پر دھوم مچا رہی ہے جس میں وہ پویلین کی بالکونی سے بھارت کی پسپائی کا نظارہ کر رہے ہیں،  اس منظر پر جہاں پاکستانی صارفین خوشی سے نہال ہیں وہیں بھارتی صارفین شدید آگ بگولہ ہیں۔ 

پاکستانی صارفین نے اس تصویر کو "لائن کنگ مومنٹ" قرار دے دیا ہے ایک ایسا منظر جہاں جنگ سے پہلے ہی فتح نظر آ رہی تھی اور شیر اپنے مقام پر پُرسکون کھڑا تھا جبکہ ہاتھی میدان چھوڑ چکا تھا۔

بھارتی ٹیم نے WCL سیمی فائنل میں پاکستان سے کھیلنے سے انکار کیا جس کے بعد گرین شرٹس کو براہ راست فائنل کا ٹکٹ مل گیا۔ 

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی نے بغیر بلّا اٹھائے بھارت کو شکست دے دی اور یہ بھارت کی "کرکٹ سے بھاگنے کی روایت" کا ایک اور ثبوت ہے۔

ایک صارف نے کہا کہ "شاہد آفریدی کا بالکونی والا اسٹائل مہاراجہ جیسا لگ رہا ہے اور نیچے بھارت کی ٹیم دم دبا کر بھاگ رہی ہے۔

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’’جب جب پاکستان اور بھارت کے کرکٹ تعلقات کا ذکر ہوگا یہ لمحہ تاریخ کے صفحات پر سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا‘‘۔ 

بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف نہ کھیلنے کی یہ کوئی نئی روایت نہیں۔ چاہے ایشیا کپ ہو یا آئی سی سی ایونٹس، بھارت ہمیشہ سیاست کو کھیل پر حاوی کرتا آیا ہے۔ 

اس بار بھی لیجنڈز لیول پر وہی ہتھکنڈے اپنائے گئے لیکن اس بار دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے میدان خالی نہیں کیا بلکہ میدان جیت لیا۔

 

متعلقہ مضامین

  • مالی کے سابق وزیر اعظم پر سوشل میڈیا پوسٹ پر فرد جرم عائد
  • ایئر انڈیا کی فلائٹ میں مسلمان مسافر کے ساتھ بدتمیزی: تشدد کی ویڈیو وائرل
  • شاہد آفریدی کا’’لائن کنگ اسٹائل‘‘ سوشل میڈیا پر وائرل، بھارتیوں کو آگ لگ گئی
  • دہلی کی مشہور ’مکھن ملائی‘ پر چوہے کا ’خصوصی گشت‘، ویڈیو وائرل
  • شاہد آفریدی کو سوشل میڈیا صارفین نے ’لائن کنگ‘ قرار دے دیا
  • کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف کے درمیان اختلافات پر پی سی بی کا بیان سامنےا ٓگیا!
  • ’لیڈر جیل میں اور پی ٹی آئی وزرا سرکاری خرچ پر نمکین تکے انجوائے کررہے‘، سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی
  • پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9مئی کے مقدمات میں سزائیں،سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب کا اہم بیان
  • یو اے ای میں سوشل میڈیا پر اشتہاری مواد کے لیے ’ایڈورٹائزر پرمٹ‘ لازم قرار