’’بہت فلمی ہو یار۔۔۔‘‘ کسی بات پر یہ جملہ سننے کو ملا تو سوچ میں پڑ گئے کہ ہاں فلمی تو ہم ہیں اور بھلا کیوں کر نہ ہوتے نوجوانی کا دور 1990ء کی اُس دَہائی میں گزرا، جہاں فلمیں ہی گھریلو لڑکیوں کی تفریح کا سامان، تربیتی کیمپ اور ٹائم مشین ہوا کرتی تھیں۔
سو، ان ہی فلموں کے ذریعے ہم نے گویا دنیا کے رنگ دیکھے، زندگی سیکھی اور خود کو آنے والے یا اپنے پسندیدہ وقت میں دیکھا۔ اچھی طرح یاد ہے ان دنوں ’گڈ گرل‘ کا تصور بہت زیادہ پیش کیا جاتا تھا۔ اچھی لڑکی سے مراد ہوتی ہے، وہ لڑکی جو ہر فن مولا ہو، مگر اس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو، دوسرا سب کی خدمت اور سب کو خوش رکھنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دے اور اُف نہ کرے۔
اب ہمارے پڑھنے والے سوچیں گے اس میں غلط کیا ہے۔ ہم بھی یہی کہیں گے کچھ بھی غلط نہیں ہے۔ تو ہوا کچھ یوں، نوجوانی کی عمر تھی۔ ’پرنس چارمنگ‘ کسی شادی میں دیکھنے کے بعد رشتہ ڈال چکے تھے۔ جہیز کی تیاریاں زور شور سے شروع ہو چکی تھیں۔
ہمارے پاپا کوئی بہت امیر آدمی تو نہ تھے کہ بیٹی کے منہ سے نکلی ہر چیز اس کے ساتھ کر دیں، تو ہر چیز ضرورت اور جیب کو مدنظر رکھ کر لی جا رہی تھی۔ مزے کی بات یہ تھی کہ ضرورت کی چیزوں کی فہرست سب کی الگ بنی۔ امی کے حساب میں ہمیں جن چیزوں کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔
وہ فہرست الگ تھی، پھوپھی کے حساب سے وہ فہرست الگ تھی، پاپا کے حساب سے الگ، دادی کے حساب سے مختلف اور خالاؤں کے حساب سے جدا۔ ویسے ایک فہرست ہم نے بھی بنائی تھی، مگر سب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’بھئی پیسے بچ جائیں گے تو دِلا دیں گے!‘‘ ویسے ہمیں اس کی کوئی زیادہ پروا تھی بھی نہیں۔ ہم تو بس اس بات پر خوش تھے کہ ہماری شادی ہو رہی ہے اور اب ہم وہ تمام کام کر سکتے ہیں، جن کے لیے اب تک ہمارے اوپر’شادی کے بعد‘ کہہ کر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ (ایسے کاموں کی فہرست بھی کوئی چھوٹی تھی بھلا!)
لیکن کیا کیجیے، تھے تو ہم ادنیٰ سے انسان ہی۔ تو پھوپی کے ساتھ بازار گھومتے گھومتے ایک میٹھے کی پیالیوں کا سیٹ بڑا پسند آگیا۔ بڑا ہی نازک سا آئس کریم سیٹ تھا۔ جس پر سنہری رنگ سے بہت باریک سے نقش کسی بیل کی صورت میں بنے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی ہم بے چین ہو گئے، وہ واحد چیز تھی جس کے لیے ہم نے ضد کی تھی۔ اچھی طرح یاد ہے کہ دکان دار نے اس کی قیمت دو ہزار روپے بتائی تھی اور اس سے ایک پیسہ کم کرنے پر راضی نہیں تھا۔ پھوپھی نے سمجھا بُجھا کر بہلا لیا کہ ’’بیٹا بہت مہنگا ہے۔‘‘
مگر شاید وہ سیٹ ہمارے نصیب میں تھا کہ دکان دار نے گاہک ہاتھ سے جاتے ہوئے دیکھا تو 1500 روپے میں وہ سیٹ دینے پر راضی ہو گیا۔ اس سیٹ کے ملتے ہی اس سیٹ کے حوالے سے ہمارے ’منصوبے‘ شروع ہو گئے۔
’’یہ پیالیاں ہم سسرال کے کسی اچھے سے موقع پہ نکالیں گے۔ اور یوں کر کے اس میں آئس کریم پیش کریں گے اور سب لوگ دیکھ کے کہیں گے کہ واہ لڑکی میں سلیقہ اور ماڈرن انداز دونوں چیزیں ہیں۔
مگر جناب والا۔۔۔۔ جب ہم سسرال پہنچے، تو پتا چلا، وہاں تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں! اللہ کا دیا سبھی کچھ ہے اور یہ بھی کہ، ’’ہم تو بہوؤں کی کسی چیز کو استعمال ہی نہیں کرتے، جو وہ لائی ہیں وہ اپنے لیے لے کر آئی ہیں۔ ہم نے نہ تو کچھ مانگا تھا اور نہ ہی کچھ دیکھا کہ ساتھ کیا آیا؟ سو جب یہ اپنے الگ الگ گھر بنائیں، تب استعمال کرتے پھریں جو ان کا سامان ہے۔‘‘
لیجے جناب، یہ سنتے ہی کتنی باتیں تھیں، جو ہم فقط سوچ کر ہی رہ گئے۔ کچھ وقت اور گزرا، تو معلوم ہوا، وہ پیالیاں تو صرف ایک چیز تھی اور بھی بہت کچھ تھا جو ’خوامخواہ‘ تھا اور وہاں اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جیسے ہم بہت اچھی مہندی لگاتے تھے، مگر وہاں کس کام کی؟ ہم کپڑوں پر اور کانچ پر بڑی اچھی پینٹنگ کرتے تھے، مگر یہ ہنر بھی وہاں بے کار تھا۔ گانا گانے کا شوق تھا۔ لکھتے بھی تھے، سونے سے پہلے کہانیاں پڑھنے کی عادت بھی تھی۔ زور سے قہقہہ مار کے ہنستے تھے اور بہت ہنستے تھے۔
بھلا ان چیزوں کی سسرال میں کیا ضرورت؟ وہاں تو ضرورت تھی ایک بہت ’پختہ ذہن عورت‘ کی جو ساس کے لیے مکمل خالص بہو ہو اور شوہر کے لیے خالص بیوی۔ یوں فقط 22 سال کی عمر ہی میں ہمیں احساس ہو گیا کہ جو سب سے اہم چیز تھی، وہ تو ہم لانا بھول گئے اور وہ چیز تھی 60 سالہ عورت کی پختگی! شوہر اور ساس کی رسّا کشی میں ایسا لگتا تھا کہ ہم یا تو دو پارٹوں میں پس رہے ہیں یا یہ ہمارے درمیان میں سے آری چلا کر کاٹا جا رہا ہے۔۔۔ جو سب کو خوش رکھنے کا سوچا تھا، وہ پلان تو سارا چوپٹ ہو گیا۔ نتیجہ نہ اچھی بہو پن پائے نہ اچھی بیوی۔۔۔!
خیر۔۔۔! وقت کی سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ گزر جاتا ہے۔ آج بہت دنوں کے بعد کچن کی الماری صاف کرتے ہوئے وہ پیالیاں سامنے آئیں، تو کانچ کی وہ پیالیاں بغیر استعمال ہوئے ہی اب پیلی سی پڑ رہی تھیں۔ کتنی یادیں انھیں دیکھ کر چڑیوں کی طرح سے ہماری پلکوں پر آ بیٹھیں۔ جنھیں جلدی سے پلکیں جھپک کر اڑانا پڑا۔ پھر ان پیالیوں کو اچھی طرح سے رگڑ کر دھویا، تو وہ بالکل نئے جیسی ہو گئیں۔ دل ایک دم جیسے اس چمک سے بھر گیا اور ایک بار پھر مسکراتے ہوئے وہ پیالیاں الماری میں بہت سنبھال کر رکھ دیں۔
’’اب جب بیٹی کو دیکھنے کے لیے لوگ آئیں گے ناں تب انھیں استعمال کروں گی۔ دیکھنے والے کہیں گے واہ کتنی سگھڑ اور سلیقہ مند خاتون ہیں۔‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حساب سے چیز تھی کے لیے
پڑھیں:
عدالتیں کرپشن کا حصہ، کونسا جج کرپٹ اچھی طرح جانتا ہوں: جسٹس محسن اختر کیانی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے عدالتی حکم پر عملدرآمد کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتیں کرپشن کا حصہ ہیں، ہمارا کونسا جج کرپٹ ہے، اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں زمین کے لین دین سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر جسٹس محسن اختر کیانی سٹیٹ کونسل اور ضلعی انتظامیہ پر برہم ہو گئے، ریمارکس دیے کہ مجھے سب پتہ ہے کہ اداروں میں پیسے کیسے بٹورے جاتے ہیں، ہمارا کونسا جج کرپٹ ہے میں اچھے طریقے سے جانتا ہوں، ان کا بس نہیں چلتا، نہیں تو یہ رشوت کو قانونی طور پر لاگو کر دیں۔
تحریک انصاف کی احتجاج کی کال ؛سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی گھر پر پولیس کی کارروائی پر کھل کر بول پڑے
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتیں بھی کرپشن کا حصہ ہیں، تین مرتبہ عدالتی ہدایات کے باوجود ادائیگی کیوں نہیں کی گئی، ڈپٹی کمشنر اور چیف کمشنر عملدرآمد کیوں نہیں کروا رہے، ڈپٹی کمشنر اس نظام کا حصہ ہے اور سارا دن جو کچھ ہوتا ہے مجھے پتہ ہے۔
فاضل جج نے مزید کہا کہ میں چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو عدالت بلا کر 2 منٹ میں قانون سکھا دوں گا، اگر اگلی سماعت پر میرے آرڈر پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ڈپٹی کمشنر اور چیف کمشنر عدالت پیش ہوں۔
عدالت نے اپنے حکم پر عمل درآمد کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
شہناز گل ہسپتال میں داخل ، کرن ویر مہرا کی مداحوں سے جذباتی اپیل
مزید :