پاکستانی باکسر کا بھارتی مدمقابل کو منفرد تحفہ،ہیرو بن گئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
شہیر آفریدی کا بھارتی سکھ باکسر کو شکست کے بعد کرتار پور کی مٹی کا تحفہ
پاکستانی عزت اور محبت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں، پاکستانی باکسر کا پیغام
پاکستانی باکسر نے بھارتی باکسر کو شکست دینے کے بعد اسے نایاب اور منفرد تحفہ دے کر امن پسندی کا پیغام دیا جسے سوشل میڈیا پر بھی خوب سراہا جارہا ہے۔ تھائی لینڈ میں پاکستان کے فاتح باکسر شہیر آفریدی نے اپنے طرز عمل سے یہ ثابت کردیا کہ پاکستانی ایک امن پسند اور محبت کرنے والی قوم ہے ۔ایک طرف تو بھارت پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن کو بہانہ بنا کر پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھارتی جارحیت کے باوجود امن اور محبت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔اس کا عملی مظاہرہ گزشتہ روز تھائی لینڈ میں نظر آیا جب شہیر آفریدی نے بھارتی سکھ باکسر کو شکست دینے کے بعد سکھوں کے روحانی پیشوا گرو نانک کے آبائی علاقے کرتار پور کی مٹی کا تحفہ دیا اور محبت کی نئی مثال قائم کی اس کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستانی عزت اور محبت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: اور محبت
پڑھیں:
ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی!
ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی! WhatsAppFacebookTwitter 0 5 May, 2025 سب نیوز
تحریر: عرفان صدیقی
میں یہ کالم کم وبیش ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ اور آج کے استنبول سے لکھ رہا ہوں۔ کل مجھے ایک پاکستانی کی صد سالہ برسی کی تقریب میں شرکت کرنی ہے۔ تُرک قوم اُسے اپنا ہیرو مانتی ، اپنا فرزند کہتی ہے۔ صدر طیّب اردوان جب بھی پاکستان آئے، کسی نہ کسی تقریب میں اُس کا ذکر ضرور کیا۔ ذکر بھی ایسا کہ ایک ایک لفظ گہری محبت کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ کیا قوم ہے کہ ایک سو سال بعد بھی مادرِمشفق کی طرح اُسے سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ اور ہم بھی کیا لوگ ہیں کہ اپنی تاریخ کے ایک جری کردار کے نام تک سے واقف نہیں۔
مدتوں پہلے تنگ دستی کا ڈسا ایک خاندان، بارہ مولا سے ہجرت کرکے پشاور منتقل ہوگیا، جو اُن دِنوں انگریز فوج کی ایک بڑی چھائونی تھا۔ ہجرت کے بعد پروان چڑھنے والی دوسری نسل کے ایک ہنرمند جوان نے اپنی ہی نہیں پورے خاندان کی قسمت بدل ڈالی۔ یہاں تک کہ اُس کا شمار امیرترین لوگوں میں ہونے لگا۔ اُسے پشاور کا ”رئیس التّجار” یعنی تاجروں کا بادشاہ کہا جانے لگا۔ حاجی غلام صمدانی نے یکے بعد دیگرے چھ شادیاں کیں۔ کثیرالمال بھی ٹھہرے اور کثیرالعیال بھی۔ چھ بیویوں سے تیرہ بیٹے پیدا ہوئے اور پانچ بیٹیاں۔ ایک بیٹے کی پیدائش سے پہلے عجب خواب دیکھا۔ ایک نہایت ہی چمکدار ستارہ، اپنی شعاعیں بکھیرتا طَشتِ فلک سے ٹوٹا اور غلام صمدانی کی دستار میں آٹِکا۔ بزرگوں نے تعبیر بتائی کہ تمہارے ہاں ایک خوش خصال بیٹا پیدا ہوگا جو تمہاری عزت کو چار چاند لگا دے گا۔
دسمبر1886 میں پیدا ہونے والے اِس بچے کا نام عبدالرحمن رکھاگیا۔ قرآن کے چودہ سپارے حفظ کرنے کے بعد وہ مقامی سکول میں داخل کرا دیاگیا۔ ساتویں جماعت پاس کی تھی کہ والد نے مزید اعلی تعلیم کے لئے 1906 میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج علی گڑھ بھیج دیا۔ انگریز کی غلامی اور اُمت مسلمہ بالخصوص ترکی کے احوال نے نوجوان عبدالرحمن کے دل میں انقلاب کی چنگاری سُلگا رکھی تھی۔ حسرت موہانی کا قیام بھی اُن دِنوں علی گڑھ میں تھا جو وہاں سے ”اردوئے معلی” کے نام سے ایک رسالہ نکال رہے تھے۔ حسرت موہانی کے ”باغیانہ خیالات” کی وجہ سے علی گڑھ کالج نے اِس رسالے پر پابندی عائد کر رکھی تھی لیکن عبدالرحمن کے تکیے تلے یہ رسالہ پڑا رہتا۔ وہ اکثر حسرت موہانی سے ملنے بھی چلا جاتا۔ اپریل 1908 کے شمارے میں مِصر میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف ایک زور دار مضمون شائع ہوا۔ مضمون نگار کے نام کی جگہ لکھا تھا __ ”ایک طالب علم”۔ علی گڑھ کالج میں کہرام مچ گیا۔ حسرت موہانی تو گرفتار ہوگئے۔ دو سال قید بامشقت کی سزا پائی اور جیل چلے گئے۔ علی گڑھ کی انتظامیہ ”ایک طالب علم” کا سراغ لگاتے لگاتے عبدالرحمن تک پہنچی۔ اُسے تین سال کے لئے کالج بدر کردیا گیا۔
عبدالرحمن تعلیم جاری رکھنے کی جدوجہد میں شملہ چلا گیا۔ اُس کی عمر بہ مشکل بیس برس تھی لیکن اچانک وہ دِل کی کسی پیچیدہ اور کربناک بیماری کا شکار ہوکر طبیبوں، ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا ہوکے رہ گیا۔ 1911 میں تین سالہ کالج بدری کا دور ختم ہوا تو وہ علی گڑھ کالج واپس آگیا ۔ انقلاب کی تڑپ، اب کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ پہلے طرابلس کا معرکہ درپیش ہوا پھر 1912 میں بلقان کی جنگ چھڑ گئی تو عبدالرحمن نے ایک دوٹوک فیصلہ کیا۔ ”کچھ بھی ہو میں بلقان جائوں گا اور ترک بھائیوں کے شانہ بہ شانہ اُن کے دشمنوں سے لڑوں گا۔” اُدھر پگھلتی ہوئی خلافتِ عثمانیہ اور ترکوں کے خلاف یورپ کی یلغار نے مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں بھی تنور دہکا دیے تھے۔ عبدالرحمن کے عشق نے اُسے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے اُس ستائیس رُکنی طبّی مشن کا حصہ بنا دیا جو سرکردہ مسلم راہنمائوں کی کوششوں سے، زخمی ترکوں کے علاج معالجے کے لئے استنبول جا رہا تھا۔ مشن میں شمولیت کے لئے زادِ راہ کے طورپر ایک ہزار روپے مطلوب تھے۔عبدالرحمن اپنے مشن کو خاندان سے چھپائے ہوئے تھا۔ سو اپنی کتابیں، اپنے کپڑے، قیمتی سازوسامان، نادر تصویریں، کالج کے پروفیسروں اور ساتھیوں کے ہاتھ فروخت کرکے ایک ہزار روپے جمع کئے۔ استنبول اُسے بلا رہا تھا۔
طبّی مشن تو اپنا کام مکمل کرکے 1913 میں واپس آگیا لیکن عبدالرحمٰن وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اب وہ ترکوں میں عبدالرحمٰن پیشاوری’ کے نام سے مشہور ہوگیا تھا اور پشاور میں اُس کا خاندان، ہزاروں میل دور جابسنے والے عبدالرحمن کو ” تُرک لالہ” کے نام سے یاد کرنے لگا تھا۔
1914 میں ‘تُرک لالہ’ نے فوج میں شامل ہونے کی ٹھانی۔ قسطنطنیہ اور بیروت میں فوجی تربیت پائی۔ جنگ ِعظیم کا طبل بجا تو لیفٹیننٹ عبدالرحمن کو ایک دَستے کی کمان سونپ کر سب سے اہم جنگی محاذ درّہ دانیال بھیج دیاگیا۔ اُسکے جری معرکوں اور جانبازی کی داستان خاصی طویل ہے۔ وہ تین بار شدید زخمی ہوا۔ تینوں بار موت کو شکست دے کر سرِمیدان آ گیا۔ مختلف زبانوں پر عبور کے باعث اُسے جرمنی اور بغداد میں سفارتی مہمات پربھی بھیجا گیا۔ استنبول پر اتحادی افواج کے قبضے کے بعد عبدالرحمٰن نے باضابطہ طورپر اتاترک مصطفیٰ کمال پاشا کی سپاہِ آزادی میں شمولیت اختیار کرلی۔ عثمانی فوج اور سپاہِ آزادی میں نمایاں کردار کے باعث، عبدالرحمن کی تُرک بحریہ کے سربراہ، رئوف بے سے گہری دوستی قائم ہوگئی۔ رئوف کی والدہ عبدالرحمن کو اپنا بیٹا کہا کرتی تھیں۔ یہی رئوف بے جدید ترکی کے وزیراعظم بھی رہے۔
انقرہ میں اتا ترک نے حکومت قائم کی تو عبدالرحمٰن پیشاوری کو 1921 میں افغانستان کا سفیر تعینات کردیا گیا۔ تقریباً دو سال اِس منفرد منصب پر قائم رہتے ہوئے بھی عبدالرحمن، اپنے گھر پشاور نہیں آیا البتہ اُس کے والد، حاجی غلام صمدانی اپنے بیٹے سے ملنے کابل گئے۔
عبدالرحمن استنبول واپس آیا تو سیاسی فضا بدلی ہوئی تھی۔ رئوف بے نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنالی۔ عبدالرحمن بھی اس جماعت میں شامل ہوگیا۔ انہی دنوں اس کے گہرے رابطے مولانا عبیداللہ سندھی سے ہوئے جو استنبول میں قیام پزیر تھے۔ مشکلات سے دوچار عبیداللہ سندھی کی مدد کے لئے عبدالرحمن نے بھرپور کردار ادا کیا۔
آج سے ایک سو سال پہلے20 اور 21 مئی 1925 کی درمیانی شب عبدالرحمن اپنے گھر جارہا تھا کہ استنبول کی ایک سڑک پر گولیاں برسا کر شدید زخمی کردیا گیا۔ ایک ماہ ہسپتال میں رہنے کے بعد عبدالرحمن پشاوری، 39 سال کی عمر میں دنیا سے کوچ کرگیا۔ اُسے استنبول کے قدیم تاریخی قبرستان میں پورے سیاسی اور عسکری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کردیاگیا۔
عبدالرحمٰن پیشاوری کی داستان، ایک عشق، ایک دیوانگی اور ایک جنوں کی داستاں ہے۔ اِسے عقل وخرد کے پیمانوں سے ماپا اور جانچا نہیں جاسکتا۔ اسے سودوزیاں کے ترازو میں بھی تولا نہیں جاسکتا۔ ایک پچیس سالہ نوجوان کے جی میں کیا سمائی کہ اُس نے علی گڑھ چھوڑا، اپنے والدین اور بھرے پُرے خاندان سے ناتا توڑا، اپنے وطن سے ہجرت کی، عثمانیوں پر ٹوٹنے والے کوہِ غم سے آزادی کی صبحِ خوش جمال تراشنے کے لئے درجنوں معرکوں کو اپنا لہو دیا اور پھر ایک شب اُس کا لہو حضرت ابو ایوب انصاری کی مرقدِ پُرنور کے نواح میں خاکِ قسطنطنیہ کی نذر ہوگیا۔
عبدالرحمٰن پیشاوری، آج بھی ترکوں کا ہیرو ہے۔گزشتہ روز استنبول یونیورسٹی کے ایک بڑے اجتماع میں اُس کی سو سالہ برسی منائی گئی۔ شاید اُس کے خاندان کے بچے کھچے افراد کو بھی ‘ تُرک لالہ ‘ کی کچھ خبر ہو۔
لیکن پاکستان بھر کی عالی مرتبت درس گاہوں میں جاکر نوجوانوں سے پوچھیے__ اُن کے اساتذہ سے پوچھیے__ ”عبدالرحمٰن پیشاوری کون تھا؟” سب پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کو دیکھتے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر فوج کے 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن و مراعات ریٹائر کیا گیا، اٹارنی جنرل پہلگام کاخونیں ناٹک !! سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے یکطرفہ اقدامات اور شملہ معاہدے کی معطلی: قانونی نقطہ نظر اور ماں چلی گئی ماں کے بغیر پہلی عید کا کرب محکمہ موسمیات کی عید سے قبل بادل برسنے کی خوشخبری پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور خاندانی منصوبہ بندیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم