لاہور(نیوز ڈیسک)پنجاب میں غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کے انخلا کی مہم کامیابی سے جاری ہے۔

ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق اب تک 13 ہزار 117 غیر قانونی مقیم باشندوں، جن میں بڑی تعداد افغان باشندوں کی ہے، کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

مہم کے دوران مجموعی طور پر 13 ہزار 187 افراد کو ہولڈنگ سنٹرز منتقل کیا گیا جبکہ مزید 70 افراد مختلف ہولڈنگ پوائنٹس پرموجود ہیں۔

اس مقصد کے لیے لاہور میں 5 اور صوبہ بھر میں 46 ہولڈنگ سنٹرز قائم کیے گئے ہیں، آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ ہم بین الاقوامی قوانین کے مطابق انخلا کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ انخلا کےعمل کے دوران سکیورٹی کو ہائی الرٹ رکھا گیا ہے اورانسانی حقوق کا مکمل خیال رکھا جا رہا ہے تاکہ کسی کو بھی غیر ضروری تکلیف نہ ہو۔

پاک بحریہ نے گزشتہ شب بھارتی طیارے کا سراغ لگایا اور نگرانی میں رکھا، سیکیورٹی ذرائع

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 جون 2025ء) پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے پچھلے دو سالوں میں دس لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کو ملک بدر کیا ہے اس کے باوجود بہت سے افغان باشندوں نے فوری طور پر واپس آنے کی کوشش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغان باشندے اپنے ملک میں اپنی بقا کے لیے جدوجہد کرنے کی بجائے قانون کو جھانسا دیتے ہوئے دوبارہ پاکستان پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے بہتر مستقبل کے امکانات تلاش کر سکیں۔

ان میں سے بہت سے افغان باشندے ایسے ہیں جنہوں نے اپنا آبائی ملک پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

گزشتہ برس 2024ء کے اوائل میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں طورخم بارڈر کراسنگ کے ذریعے ملک بدر کیے گئے 46 سالہ افغان حیات اللہ (فرضی نام) کہتے ہیں، ''وہاں واپس جانا اپنے خاندان کو موت کی سزا دینے کے مترادف ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

ملک بدری کی نئی لہر

اپریل کے ماہ سےپاکستان سے افغان باشندوں کی ملک بدری کی ایک نئی لہر شروع ہوئی۔

قریب 2 لاکھ افغان پاکستان اورافغانستان کے متصلہ دو سرحدی گزرگاہوں کے قریب جمع ہونے پر مجبور ہوگئے۔ انہوں نے عجلت میں اپنی روز مرہ کی ضروریات کا سامان ٹرکوں میں لادا اور سرحد پار کر کے افغانستان میں داخل ہونے لگے۔ تاہم ان افغان باشندوں کو اپنے مستقبل سے کوئی اچھی امید وابستہ نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں واپسی جہاں لڑکیوں کو پرائمری سطح سے اوپر کی تعلیم پر پابندی کا سامنا ہے۔

حیات اللہ (فرضی نام) ملک بدر ہونے کے ایک ماہ بعد ہی واپس پاکستان آ گئے۔ اس کے لیے انہیں بلوچستان کی سرحدی کراسنگ کے جنوب تک قریب 800 کلو میٹر کا سفر طے کرنا پڑا۔ ان کے لیے افغانستان میں زندگی مکمل جمود کا شکار تھی۔ ان کے بقول، انہیں چمن سرحد عبور کرنے کے لیے رشوت دینا پڑی۔ ''ان تمام دیہاڑی دار مزدوروں کی طرح جو باقاعدگی سے دوسری طرف کام کرنے کے لیے سرحد پار کرتے ہیں۔

‘‘

ان کی بیوی اور تین بچے، جن میں بیٹیاں بھی شامل ہیں، کی عمریں 16 اور 18 سال کے درمیان ہیں۔ ان بچوں کو افغانستان میں تعلیم سے محروم رکھا جاتا۔ تاہم یہ گرفتاری اور ملک بدری سے بچنے میں کامیاب رہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''کچھ افغان باشندے جنہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا، انہوں نے بعد میں پاکستان ہجرت کرنے کا انتخاب کیا۔

‘‘ پاکستان کے اندر افغان باشندوں کی مشکلات

حیات اللہ (فرضی نام) نے اپنی فیملی کو خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور منتقل کر دیا، جہاں زیادہ تر پشتون آباد ہیں اور ''پشتون‘‘ افغانستان کا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔

حیات اللہ نے کہا، ''اسلام آباد کے مقابلے میں یہاں کی پولیس ہمیں اتنا ہراساں نہیں کرتی۔

‘‘ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان

خیبرپختونخوا دراصل افغان باشندوں کے لیے نسبتاً محفوظ صوبہ خیال کیا جاتا ہے۔ 38 سالہ افغان صمد خان (فرضی نام) نے بھی اپنے خاندان کو پشاور منتقل کرنے کا انتخاب کیا ہے۔

ان کی کہانی حیات اللہ سے کچھ مختلف ہے۔ یہ پاکستان کے مشرقی شہر لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں پہلی مرتبہ تب قدم رکھا، جب انہیں پاکستان سے ملک بدر کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا، ''افغانستان میں ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں ہے اور وہاں زندگی کا کوئی نشان نہیں ہے۔ کوئی کام نہیں، کوئی آمدنی نہیں، اور طالبان انتہائی سخت ہیں۔‘‘

پہلے تو انہوں نے افغانستان میں کام تلاش کرنے کی کوشش کی جہاں کی 85 فیصد آبادی روزانہ ایک ڈالر سے کم پر گزارہ کرتی ہے لیکن چند ہفتوں کے بعد وہ پاکستان واپسی کا راستہ تلاش کرنے پر مجبور ہو گئے۔

صمد خان (فرضی نام) نے بتایا،''میں نے ایک افغان ٹرک ڈرائیور کو 50,000 روپے (تقریباً 180 ڈالر) ادا کیے، اس کے ایک پاکستانی ملازم کے شناختی کارڈ کو سرحد پار کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘‘

بعد ازاں صمد خان نے اپنے سامان سمیت بیوی اور دو بچوں کو، جو پیچھے رہ گئے تھے، گاڑی میں لاہور سے پشاور بھیج دیا۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں نے ایک دوست کے تعاون سے جوتوں کا سیکنڈ ہینڈ کاروبار شروع کیا۔

یہاں کی پولیس ہمیں لاہور کی طرح ہراساں نہیں کرتی، اور مجموعی طور پر ماحول بہت بہتر ہے۔‘‘ پاکستان لوٹنے والے افغانوں کے اعداد و شمار

ملک بدر ہونے والے کل کتنےافغان باشندے واپس پاکستان آئے ہیں، اس بارے میں اعداد وشمار کی کمی کے باعث کوئی مستند بات نہیں کی جا سکتی۔ حکومتی ذرائع، ملک کے مسائل کا الزام سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں پر ڈالتے ہیں۔

واضح رہے عمران خان اب جیل میں ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ کھلم کھلا تنازعہ کا شکار ہیں۔ ان کی حزب اختلاف کی جماعت کے زیر انتظام خیبرپختونخوا صوبہ دراصل افغانوں کے لیے نسبتاً محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں افغان پہلے ہی واپس خیبر پختونخواہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ تاہم ایسے اعداد و شمار کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

پاکستان میں تارکین وطن کے حقوق کے محافظ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی واپسی کے بارے میں سنا ہے، لیکن ان کا اصرار ہے کہ ان کی تعداد محدود ہے۔

کابل میں اقوام متحدہ کی ایجنسی کے کمیونیکیشن آفیسر اوند عزیز آغا کے بقول، ''جب لوگ بنیادی خدمات اور معاش کے مواقع تک محدود رسائی والے علاقوں میں واپس آتے ہیں تو ان کا دوبارہ انضمام مشکل ہو سکتا ہے۔ لوگ پائیدار مواقع تلاش کرتے ہیں جس کے لیے وہ ممکنہ طور پر دوبارہ کسی سمت بڑھ سکتے ہیں۔‘‘

ادارت: عرفان آفتاب

متعلقہ مضامین

  • ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل میں پناہ گزینوں کا بحران، 8 ہزار سے زائد افراد بے گھر
  • ایران اسرائیل کشیدگی کے بعد 8 ہزار سے زائد اسرائیلی بےگھر، اسرائیلی میڈیا کا انکشاف
  • ایران اسرائیل کشیدگی: 8 ہزار سے زائد اسرائیلی بےگھر ہوگئے، اسرائیلی میڈیا
  • چین میں پارک کی انوکھی نوکری کیلیے 10 ہزار سے زائد درخواستیں موصول
  • ملکی سالمیت سب سے پہلے، پاکستان میں کسی کو اڈے نہیں ملیں گے، گورنر پنجاب
  • ایران سے اب تک تین ہزار سے زائد پاکستانیوں کو نکالا جا چکا ہے، ترجمان دفتر خارجہ
  • پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں
  • ایران سے تین ہزار پاکستانیوں کا انخلا مکمل ہوچکا، دفتر خارجہ
  • ایران نے اب تک 400 بیلسٹک میزائل اور ہزار سے زائد ڈرونز حملے کیے؛ اسرائیلی فوج
  • بجٹ میں ایک ہزار 240 ارب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 64 فیصد ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کیلیے رکھا گیا ہے، مریم اورنگزیب