نظرثانی صرف واضح قانونی غلطی کی صورت میں ہی ممکن ہے، جسٹس منصور علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا۔
نجی ٹی وی سما نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نظرثانی اختیارات کے دائرہ کار پر اہم فیصلہ جاری کر دیا۔فیصلے کے مطابق نظرثانی صرف آرٹیکل 188 اور متعلقہ رولز کے تحت ہو سکتی ہے۔
نظرثانی کیلئے لازمی ہے کہ فیصلے میں کسی واضح غلطی کی نشاندہی کی جائے، محض کسی ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
آٹے کی قیمت میں اضافہ، گھی سستا ہو گیا
فیصلے میں کہا گیا کہ جو نکتہ پہلے مسترد ہو چکا ہو اسے دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یہ دلیل بھی ناقابل قبول ہے کہ فیصلے میں دوسرا نکتہ نظر بھی شامل ہو سکتا تھا۔
فیصلے کے مطابق اس وقت پاکستان میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں 6 ہزار سے زائد کیسز زیر التوا ہیں جن میں بڑی تعداد نظرثانی درخواستوں کی ہے۔
عدالتی فیصلے میں زور دیا گیا کہ من گھڑت اور غیر ضروری نظرثانی درخواستوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
مذکورہ فیصلہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور خیبرپختونخوا حکومت محکمہ تعلیم کی نظر ثانی درخواستوں پر جاری کیا گیا ہے، 29 فروری 2022 کو پرائمری اسکول ٹیچرز کے تقرری کے حوالے سےسپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈومیسائل رہائش کا اصلی ثبوت جبکہ صرف شناختی کارڈ اِس سلسلے میں ناکافی ثبوت ہے۔
ٹیکس قوانین میں 3 ترامیم مگر کونسی؟ وزارت خزانہ کا اعلامیہ آگیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: فیصلے میں
پڑھیں:
حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے: چیف جسٹس
—فائل فوٹوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے نان نفقہ کی ادائیگی کے خلاف مختلف درخواستیں مسترد کر دیں۔ دوران درخواست چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم یہاں صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے نان نفقہ کی ادائیگی سے متعلق شہریوں کی مختلف اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں حقائق کی جانچ سے متعلق معاملات نہیں آنے چاہئیں، حقائق کی جانچ سپریم کورٹ کا کام نہیں، ہم یہاں صرف قانون کی خلاف ورزی کو دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نان نفقہ سے متعلق حقائق کی جانچ فیملی کورٹس نے کرنی ہیں، سپریم کورٹ حقائق کی جانچ سے متعلق مداخلت نہیں کرے گی، ہم سمجھتے ہیں ہائی کورٹ کو بھی حقائق کی جانچ میں نہیں جانا چاہیے۔
درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار علیحدگی کے بعد سے نان نفقہ دینے کو تیار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ نے 2022ء سے نان نفقہ ادا نہیں کیا، 3 برسوں سے آپ نے اپنے بچوں کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔
جسٹس شفیع صدیقی نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اس کے لیے ریکارڈ کا جائزہ لینا پڑے گا، حقائق کی جانچ کا فورم ماتحت عدالت ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ اس مرحلے پر مداخلت نہیں کرے گی۔