ایف بی آر کے غیرمنصفانہ ایس آر او اور پوائنٹ آف سیل انضمام کے خلاف نجی تعلیمی اداروں کی اپیل منظور
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ایف بی آر کے غیرمنصفانہ ایس آر او اور پوائنٹ آف سیل انضمام کے خلاف نجی تعلیمی اداروں کی اپیل منظور WhatsAppFacebookTwitter 0 6 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(پریس ریلیز)وفاقی ٹیکس محتسب (FTO)عزت مآب،ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایف بی آر (FBR)کے ایس آر او(SRO) اور پوائنٹ آف سیل(PoS) انضمام کے نفاذ کے خلاف آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے ایف بی آر کواعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے اور تعلیمی اداروں کو نوٹسز اجرا کا سلسلہ بند کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں، ک
میٹی میں آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا،سینئر نائب صدر ڈاکٹر ملک ابرارحسین اورصوبائی صدر سندھ اخترآرائیں جبکہ ایف بی آر کی نمائندگی ارشد نواز چھینہ اور آصف رسول کریں گے۔تفصیلات کے مطابق آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کی طرف سے مرکزی سنیئرنائب صدر ڈاکٹر ملک ابرارحسین، صوبائی صدور سندھ، اخترآرائیں، پنجاب حسنین مرزا، بلوچستان رشید کاکڑ، اورکے پی کے سلیم خان نے وفاقی ٹیکس محتسب میں دائر کردہ اپیل میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے SRO-428 (I)/2024 کو واپس لینے کی درخواست کی تھی جس پر ٹیکس محتسب پاکستان نے ایف بی آر کے غیر منصفانہ متنازعہ ایس آر او کو ریٹیلرز کے طور پر درجہ بندی کرنے اور پوائنٹ آف سیل انضمام کو نافذ کرنے کے برخلاف اپیل منظور کرتے ہوئے ایف بی آر کو فیڈریشن کی نمائندگی پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی ہدایت کی۔
فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا،سینئر نائب صدر ڈاکٹرملک ابرار حسین، اخترآرائیں، حسنین مرزا، رشیدکاکڑاور سلیم خان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اپیل منظور کرکے وفاقی ٹیکس محتسب نے تعلیمی سرپرستی اور آئینی ذمہ داری کو پورا کیاہے جس پر ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔رہنماؤں کا کہنا تھاکہ غیر منصفانہ SRO سکولزکو ریٹیلرز کے طور پر درجہ بندی کرتا ہے اور پوائنٹ آف سیل کو نافذ کرتا ہے،جوآئین کے آرٹیکل 25 اے کیخلاف ورزی ہے، ایس آر او کا نفاذ کم فیس والے سکولز کومتاثر کرے گا جس سے غریب بچوں کی تعلیم متاثر اور عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔ ملک بھرسکولز میں انٹرنیٹ کی دستیابی صرف18فیصد ہے، 12فیصد اساتذہ کے پاس ڈیجیٹل خواندگی ہے، 15فیصد تعلیمی اداروں میں بنیادی کمپیوٹر لیبزہیں، صرف 5فیصد کے پاس تیز رفتار انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹولز دستیاب ہیں،کم آمدنی والے سکولز کو آن لائن انضمام کے نوٹسزسے منفی اثرات مرتب ہونگے، ڈراپ آوٹ کی شرح میں اضافہ اور معیاری تعلیمی سکول بند ہو جائیں گے۔فیڈریشن کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور FBR فیصلہ فوری واپس لے کر تعلیم کو مکمل ومستقل استثنیٰ اور فروغ تعلیم کو ترجیح دیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرمسلم لیگ ق کے انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کر لیے گئے مسلم لیگ ق کے انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کر لیے گئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ پاک بھارت کشیدگی ختم کروائے،اکرم گِل پاکستان دہشت گرد نہیں، خود دہشت گردی کا شکار رہا ہے، بلاول بھٹو قومی اسمبلی اجلاس؛ بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینےکےلئے پورا ایوان یک زبان ایڈیشنل ڈی جی کی حسن ابدال میں دبنگ کارروائیاں، 6 لاکھ 50 ہزار کے جرمانے عائد سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نظرثانی اسکوپ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں اپیل منظور ٹیکس محتسب انضمام کے ایس آر او ایف بی آر
پڑھیں:
وفاقی حکومت کے تعلیمی اخراجات تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت پاکستان کی جانب سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کے بچوں کی تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سیو دی چلڈرن تنظیم نے بچوں کی تعلیم سے متعلق تازہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس میں بتایا گیا ہےکہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کے باوجود تقریبا 2 کروڑ 60 لاکھ بچے یا پھر ہر 3 میں سے ایک بچہ اسکول سے باہر ہے۔
پاکستانی بچوں کا اتنی بڑی تعداد میں اسکولوں سے باہر ہونا دنیا میں سب سے متاثرہ ممالک میں سے ایک کی نشاندہی کرتا ہے۔
حالیہ قومی اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال میں جولائی 2024 سے مارچ 2025 کے دوران تعلیم پر اخراجات میں 29 فیصد تک کمی رپورٹ ہوئی ہے، سال 2018 کے بعد سے تعلیم کے لیے مختص بجٹ جی ڈی پی میں مسلسل کمی کا شکار ہے جو کہ 2 فیصد سے کم ہوتا ہوا اب 0.8 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ انچیون ڈیکلیریشن نے حکومتوں کو جی ڈی پی کا 4 سے 6 فیصد تک تعلیم کے لیے مختص کرنے کی تجویز دی ہے۔
بین الاقوامی غیرمنافع بخش تنظم ’سیو دی چلڈرن‘ نے مزید بتایا کہ حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر 2 کروڑ 60 لاکھ بچوں کو اسکولز میں لانے کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
وفاقی حکومت نے 2024 میں سال 2029 تک تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے 4 فیصد تک لے جانے کا ہدف ظاہر کیا تھا، حکومت پاکستان بچوں کے ساتھ کیے گئے اس وعدے کو توڑ نہیں سکتی۔
تنظیم کے مطابق پاکستان کے غربت کا شکار علاقوں میں رہائش پذیر بچے اس کمی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، ان بچوں کو پہلے ہی اپنی تعلیم کو جاری رکھنے میں بے پناہ مشکلات کاسامنا ہے، ایسے میں حکومت کی جانب سے بجٹ میں کٹوتیوں یا پھر رقم مختص ہونے کے باوجود خرچ نہ کرنے سے ان بچوں کو تعلیم کے حصول میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اسکول سے باہر ان بچوں کو مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے تاکہ ان بچوں کے لیے کمیونٹیز کو اس طرح سے بنا سکیں جو کہ مستقبل میں ممکنہ موسمیاتی تبدیلوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔ تنظیم نے تعلیم کے شعبے اور خاص طور پر پسماندہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ بچوں کے لیے اسٹیک ہولڈرز، حکومت، ڈونرز، اور سول سوسائٹی سے فنڈ کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔
سیو دی چلڈرن تنظیم کے مطابق پاکستان میں تعلیم مفت اور 5 سے 16 سال کے بچوں کے لیے لازم قرار دی گئی ہے لیکن 38 فیصد بچے اسکولوں سے اب بھی باہر ہیں، جس میں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے، بلوچستان میں 75 فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ برس مئی میں ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نفاذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد اسکولوں میں بچوں کی حاضری کو بڑھانا تھا تاہم ملک میں صرف 60 فیصد لوگ پڑھنے اور لکھنے کے قابل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسکول کی تعلیم حاصل نہ کرنے کی وجہ سے بچوں کے کم عمری میں مشقت کرنے اور شادی کے خطرے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
حکومت کے 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں 10 سے 14 سال کی عمر کے تقریباً ہر 10 میں سے ایک بچہ کام کر رہا ہے، اور اندازاً 1.9 کروڑ لڑکیاں اپنی اٹھارہویں سالگرہ سے پہلے شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں جو دنیا بھر میں کم عمری کی شادیوں کی چھٹی سب سے بڑی تعداد ہے۔
پاکستان میں اسکول مسلسل بند رہنے سے بھی بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی رہی ہے، بیشتر مواقع پر موسیماتی تبدیلیوں کے باعث اسکولز کو بند کرنا پڑا جس میں 2024 کی ہیٹ اسٹروک سرفہر ست ہے جس کی وجہ سے اسکولز کو بند رکھا گیا، سال 2022 کے بدترین سیلاب کے باعث بھی تقریب 29 لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔
سیو دی چلڈرن کے کنٹری ڈائریکٹر خرم گوندل نے کہا کہ ’جب حکومت جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرے گی تو یہ صرف فنڈز میں کٹوتی نہیں ہے بلکہ یہ وزیر اعظم کے اس اعلان کے بھی برخلاف ہے جو انہوں نے گزشتہ برس ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے کیا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’تعلیم نسل در نسل غربت کو ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ کار ہے، بچوں کی تعلیم پر خرچ کرنا پاکستان کے مستقبل پر خرچ کرنے کے مترادف ہے‘۔
مزیدپڑھیں:وفاق نے صوبے میں معاشی ایمرجنسی لگائی تو اسمبلی توڑ دیں گے، علی امین گنڈاپور