جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہ سعادت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کے پاس نہ صرف قرآن کریم اصلی حالت میں محفوظ وموجود ہے بلکہ قرآن کریم کی تشریحات وتعبیرات میں حضرت محمد رسول اللہ ا کی تعلیمات بھی تمام تر جزئیات وتفصیلات کے ساتھ موجود ہیں اور نسل انسانی نے جب کبھی آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا فیصلہ کیا، اسے یہ چیز صرف اور صرف مسلمانوں کے ہاں سے ہی ملے گی اور دنیا کا کوئی مذہب انسانی سوسائٹی کی اس ضرورت کو پورا نہیں کر سکے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے آخری کتاب قرآن کریم اور آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ ا کے ارشادات وتعلیمات کی حفاظت کا ایسا فول پروف انتظام کر رکھا ہے کہ ان میں کسی اور چیز کی در اندازی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تکوینی حکمت ہے کہ لاکھوں سینوں میں قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے سب سے پہلے لکھوائے جانے والے نسخے بھی ابھی تک موجود ومحفوظ ہیں جو امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان کے دور میں تحریر کیے گئے ہیں۔ اس لیے آج صرف اور صرف مسلمان اس دعویٰ کی پوزیشن میں ہیں کہ ان کے پاس آسمانی تعلیمات محفوظ حالت میں موجود ہیں اور نسل انسانی کو جب بھی آسمانی تعلیمات کی ضرورت محسوس ہوئی، وہ اصلی حالت میں اسے مسلمانوں کے پاس مل جائیں گی۔
میں مغرب کے اہل دانش سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سمجھ دار لوگ ہیں اور سمجھ دار لوگوں کی ایک علامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا کوئی نہ کوئی متبادل ضرور ذہن میں رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی مغرب کے دانش وروں کو سوچنا چاہیے کہ جس راستے پر انہوں نے نسل انسانی کو تین سو برس قبل چلانا شروع کیا تھا، اس کی ناکامی کی صورت میں ان کے پاس اس کا متبادل کیا ہے؟ اور انہوں نے اس کے بارے میں کیا سوچ رکھا ہے؟
آج سچی بات یہ ہے کہ مغرب کا فلسفہ ناکام ہو چکا ہے، مغرب کے کلچر نے انسانی سوسائٹی کو اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار سے دوچار کر دیا ہے، انسانی قدریں برباد ہو گئی ہیں، خاندانی نظام جو انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ ہے، بکھر کر رہ گیا ہے اور خود مغرب کے دانش وروں نے وجدان، بنیادوں اور ماضی کی طرف واپس جانے کے لیے سوچنا شروع کر دیا ہے اس لیے میں ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دینی مدرسہ جس کو وہ ختم کرنے کے درپے ہیں، انہی وجدانیات، بنیادوں اور ماضی کے اخلاقی اقدار کی تعلیم دے رہا ہے جن کی ضرورت کا احساس خود ان کے ذہنوں میں اجاگر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یہ مدرسہ ان اقدار وتعلیمات کو نہ صرف محفوظ رکھے ہوئے ہے بلکہ اسے نئی نسل کے سپرد کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کے محاذ پر سرگرم عمل بھی ہے اور اس حوالے سے یہ مدرسہ ان لوگوں کی بھی ضرورت ہے جو اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور کل جب انہیں کہیں اور پناہ نہیں ملے گی، یہی مدرسہ ان کی راہ نمائی اور نجات کے لیے کردار ادا کرے گا۔
باقی رہی بات اس مدرسہ کو ختم کرنے کی تو میں اس موقع پر اہل مغرب سے اختصار کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تم بار بار اس بات کا تجربہ کر چکے ہو کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں اس لیے اس کام میں اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ تم نے ۱۸۵۷ء کے بعد جنوبی ایشیا میں اس درس گاہ کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا تھا لیکن جبر وتشدد کے تمام تر مراحل کے باوجود جنوبی ایشیا میں یہ درس گاہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ پہلے سے زیادہ متحرک اور موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ تم نے ترکی میں اس مدرسہ کو اپنی طرف سے مکمل طور پر ختم کر دیا تھا اور اس کو دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے پون صدی سے جبر کا ہر حربہ آزما رہے ہو لیکن یہ مدرسہ ترکی میں بھی زندہ ہے اور اگر تم اس کی زندگی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہو تو ترکی میں فوج کے جبر سے ہٹ کر ایک الیکشن کرا کے دیکھ لو، تمہیں اس مدرسے کی کارکردگی کا گراف معلوم ہو جائے گا۔ تم نے وسطی ایشیا میں
اس مدرسہ کو بند کرنے کے لیے جبر اور تشدد کو انتہاتک پہنچا دیا اور اس درس گاہ کا کردار ختم کرنے کے لیے ریاستی جبر کی ہر شکل آزما کر دیکھ لی ہے لیکن پون صدی کے بعد دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ وسطی ایشیا میں بھی یہ مدرسہ زندہ ہے اور اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
اس لیے میں مغرب کے دانش وروں کو آج کی اس محفل کی وساطت سے یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ حقائق سے آنکھیں بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ مدرسہ ایک تاریخی حقیقت ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ پوری نسل انسانی کی اور خود تمہاری بھی ضرورت ہے۔ اس چٹان سے سر ٹکرانے کے بجائے اس کے وجود کو تسلیم کرو اور اس کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کا پیغام نسل انسانی کے بہتر مستقبل کا پیغام ہے، انسانی سوسائٹی کو انارکی اور خلفشار کی دلدل سے نکالنے کا پیغام ہے اور آسمانی تعلیمات کی طرف واپسی کا پیغام ہے۔ اب نسل انسانی کو اسی پیغام کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے سوا نسل انسانی کی فلاح کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ا سمانی تعلیمات انسانی سوسائٹی تعلیمات کی ایشیا میں کا پیغام یہ مدرسہ ہے اور ا ہیں اور کرنے کے مغرب کے کا کوئی کے پاس اور اس کے لیے اس لیے
پڑھیں:
اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے.عمران خان کا آرمی چیف کے نام پیغام
روالپنڈی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشرہ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کے مقدمے کی سماعت راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں ہوئی مقدمے کی سماعت کے بعد عمران خان کی بہن علیمہ خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے آرمی چیف کو پیغام دیا ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے یہ آپ کی غلط فہمی ہے.(جاری ہے)
علیمہ خان سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود تھیں جہاں انہوں نے عمران خان سے ملاقات کی انہوں نے بتایاکہ ملاقات میں عمران خان نے کہا کہ جو مرضی کرلیں میں غلامی قبول نہیں کروں گاعلیمہ خان کے مطاب عمران خان نے کہا جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنے اقتدار کے لیے یہی کیا تھا ملک ٹوٹ گیا تھا علمیہ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے آپ نے اپنے اقتدار کے لیے پی ٹی آئی کو کچلا. انہوں نے بتایاکہ عمران خان نے کہا کہ عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے 26ویں ترمیم متعارف کرائی گئی سابق وزیر اعظم نے کہا کہ میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول میں لیا گیا ہے جبکہ رول آف لا اور جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا ہے علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں اس دور میں باہر سے سب سے کم سرمایہ کاری آئی ہے ان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے پاکستان کا قرضہ ڈبل ہوگیا ہے، قوم کو مقروض کر دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ملاقات میں عمران خان نے کہا افغانستان کو دھمکیاں دے کر افغانوں کو پاکستان سے نکالا جارہا ہے. علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ الیکشن ہوا، عوام نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ان کے مطابق عمران خان نے کہا ہے الیکشن سے پہلے انہوں نے پیشنگوئی کی تھی پی ٹی آئی کلین سویپ کرے گی، آج پیش گوئی کررہا ہوں پاکستان اس وقت بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے بات چیت کے لیے ہر راستہ اپنایا علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے بتایا کہ اب جھوٹی گواہیوں پر دس دس سال سزائیں دی جارہی ہیں. عمران خان نے پارٹی لیڈرشپ کو ہدایت کی ہے کہ اب وقت ہے اصل اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا ان کے مطابق عمران خان نے کہا اگر صحیح اپوزیشن نہ کی گئی تو آپ اپنی سیاسی قبریں کھودیں گے عمران خان نے کہا دو تین سال میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا اس کی مثال نہیں ملتی یہاں خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا جیلوں میں ڈالا گیا علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے بتایا کہ انہوں نے لیڈر شپ کو کہا ہے ڈر کے گھر میں بیٹھنے کا وقت نہیں ہے اور وہ چاہتے ہیں 27 تاریخ کے جلسے میں پوری قوم نکلے. قبل ازیںعمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ ٹو کے مقدمے کی سماعت اسلام آباد کے سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں کی سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ ٹو کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر محمد احمد اور سابق ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کرنل ریحان نے اپنے بیان سپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں ریکارڈ کروائے بریگیڈیئر محمد احمد فوج سے ریٹائر ہوچکے ہیں جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے طور پر فرائض سر انجام دینے والے کرنل ریحان ابھی بھی فوج میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں. مقدمے کے سپیشل پراسیکوٹر ذوالفقار نقوی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری اور ڈپٹی ملٹری سیکرٹری نے عدالت میں ملزمان کی موجودگی میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے بتایا کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو مئی 2021 میں سعودی عرب کے دوران تحائف ملے تھے جن میں بلغاریہ کا ڈائمنڈ سیٹ کے علاوہ نیکلس بھی شامل تھے مگر انہیں توشہ خانہ میں جمع نہیں کروایا گیا تھا انہوں نے کہا کہ یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی کوئی سبراہ مملکت یا سربراہ حکومت بیرون ملک کے دورے پر جاتا ہے اور انھیں وہاں سے جو بھی تحائف ملتے ہیں ان کو توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے اور وہاں سے اگر کوئی صدر یا وزیر اعظم تحفہ لینا چاہتا ہو تو اوپن مارکیٹ میں اس کی قمیت لگوا کر اس کا پچاس فیصد دے کر اس کو حاصل کرسکتا ہے. سپیشل پراسیکوٹر نے بتایا کہ عمران خان کے سابق ملٹری سیکرٹری نے عدالت میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا کہ ان تحائف کی اوپن مارکیٹ میں قیمت سات کروڑ روپے تھی جبکہ اس وقت کے وزیر اعظم نے مبینہ طور پر اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ان تحائف کی کم قمیت لگوائی تھی مقدمے کے سپیشل پراسیکوٹر کا کہنا تھا کہ برگیڈیئر ریٹائرڈ محمد احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ ملزم عمران خان نے ان تحائف کی اوپن مارکیٹ میں قیمت 59 لاکھ روپے لگوائی تھی جس میں سے 29 لاکھ کی رقم سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی تھی. کمرہ عدالت میں موجود اڈیالہ جیل کے اہلکار نے ”بی بی سی“کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کرنل ریحان نے بھی اسی سے ملتا جلتا بیان عدالت میں ریکارڈ کروایا عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا نے ان دونوں سرکاری گواہان پر جرح بھی کی واضح رہے کہ عمران خان کے سابق پرسنل سیکرٹری انعام شاہ اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ان تحائف کو لے کر ٹیلی فونک گفتگو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں بشریٰ بی بی نے ان تحائف کی تصاویر اور تفصیلات حاصل کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور انعام شاہ کا بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ میں داخلہ بند کردیا تھا. ذوالفقار نقوی کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی سماعت جمعرات کو بھی ہوگی جس میں اس مقدمے کی تحققیات کرنے والے نیب اور ایف ائی اے کے افسران بھی عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے اب تک اس مقدمے میں 18 گواہان کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں.